آئنسٹائن کی زندگی ہمارے لئے سبق (پارٹ دوئم)

برطانوی فلکیاتی سائنسداں آرتھر ایڈنگٹن نے 29 مئی 1919 میں پورے سورج گرہن کے دوران تجربہ کر کے آئنسٹائن کی پیشین گوئی کو صحیح ثابت کر دیا۔

سائنسداں البرٹ آئنسٹائن
سائنسداں البرٹ آئنسٹائن
user

وصی حیدر

جنرل رلیٹیوٹی کی شروعاتی تحقیقات کے دوران 1911 میں آئنسٹائن نے یہ ثابت کیا کہ روشنی اگر کسی ستارے (مثلاً سورج) کے پاس سے ہو کر گزرے گی تو اس کی کشش کی وجہ سے اس کا راستہ مڑ جائے گا۔ لیکن سورج سے آنے والی روشنی کی وجہ سے اس بات کی تصدیق صرف سورج گرہن کے وقت ہی کی جا سکتی ہے۔ آئنسٹائن کی اس پیشین گوئی کی تصدیق کے لئے ایک پورے سورج گرہن کا انتظار تھا۔

برطانوی فلکیاتی سائنسداں آرتھر ایڈنگٹن نے 29 مئی 1919 میں پورے سورج گرہن کے دوران تجربہ کر کے آئنسٹائن کی پیشین گوئی کو صحیح ثابت کر دیا۔ اس تجربہ کے نتائج نے پوری دنیا کو چونکا دیا اور اس کی خبریں سائنسی طبقوں کے علاوہ عام اخباروں کی سرخیاں بنیں۔ مثلاً برطانوی اخبار ’دی ٹائمز‘ نے7 نومبر 1919 میں اس تجربہ کے نتائج پر لکھا ’’سائنسی دنیا میں انقلاب، کائنات کی نئی سمجھ۔نیوٹن کی تھیوری بدلنے کا وقت‘‘ان خبروں سے آئنسٹائن کی شہرت سائنسی حلقوں کے باہر عام لوگوں میں بھی ایک عظیم سائنسداں کے طور پر ہو گئی ۔ تمام دنیا سے ان کے پاس دعوت نامے آنے لگے اور سبھی لوگوں میں انہیں دیکھنے اور سننے کا ایک زبردست اشتیاق پیدا ہوا اور ان کی حیثیت ایک بڑے ہیرو جیسی ہو گئی۔ دنیا کی تمام اہم اکیڈمیوں نے اعزازی رکنیت سے ان کو نوازا۔

سن 1922 میں ان کو فزکس کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ دنیا کا یہ سب سے بڑا اعزاز 1905 میں ان کی طرف سے دی گئی ’فوٹو الیکٹرک افیکٹ ‘ کی وضاحت پر ملا ۔ حالانکہ1905 کے ان کے چاروں مقولے اتنے اہم تھے کہ ان سب پر الگ الگ نوبل انعام مل سکتا تھا، خاص طور سے رلیٹوٹی کی اسپیشل تھیوری جس نے کائنات اور وقت کی سمجھ میں زبردست تبدیلی پیدا کی۔ لیکن اس وقت یہ بہت کم لوگوں کی سمجھ میں آئی تھی۔

فوٹو الیکٹرک افیکٹ کے سلسلہ میں آئنسٹائن کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ روشنی (اور کسی بھی طرح کا الیکٹرومیگنیٹک ریڈیشن ) ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹکڑوں (Quanta) میں چلتی اور جذب ہوتی ہے۔ روشنی کے ٹکڑوں کو فوٹون (photon) کا نام دیا گیا۔ ہر رنگ کے روشنی کے ٹکڑے کی ایک مقررہ انرجی ہوتی ہے جو اس کی فریکوینسی پر منحصر کرتی ہے۔ یعنی لال رنگ کی روشنی کے ٹکڑے کی ایک مقررہ انرجی ہوتی ہے جو اس کی فریکوینسی پر منحصر ہوتی ہے۔ یعنی لال رنگ کی روشنی کے فوٹون کی انرجی نیلے رنگ کی روشنی کے فوٹان سے کم ہوگی۔ ان فوٹونز کو نہ توڑا جا سکتا ہے اور نہ ان کو جوڑا جا سکتا ہے۔ یہ اگر کسی ایٹم میں جذب ہوں گے تو پورا ایک فوٹون جذب ہوگا یا ایک بھی نہیں۔

حالانکہ سب نے یہ تو مانا کہ آئنسٹائن کا مقولہ فوٹو الیکٹرک افیکٹ کی ساری پرانی دقتوں کا حل ہے لیکن میکس ویل اور ہائیگن کی لہروں کی تھیوری کی کامیابیوں کی وجہ سے ’روشنی بھی ذروں (photons) کی شکل میں چلتی اور جذب ہوتی ہے ‘ کی حقیقت کو ماننے کے لئے لوگ ابھی تیار نہیں تھے۔ یہ وہ انقلابی وقت تھا کہ کوائٹم قوانین کی پیدائش ہو رہی تھی اور پرانی سمجھ کو سب کے لئے مشکل تھا۔

میکس پلانک کے پہلے کوانٹم قانون پر پورے طور پر یقین تب ہوا جب 1924 میں ایک مشہور ہندوستانی سائنسداں ایس این بوس نے 1901 کے پلانک کے ’بلیک باڈی اسپیکٹرم ‘ کا ایک نیا ثبوت پیش کر دیا۔ بوس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ بنیادی پارٹیکل دو طرح کا ہو سکتا ہے۔ ایک قسم کو فرمیون اور دوسری قسم کو ان کے اعزاز میں بوسان کہتے ہیں۔ آئنسٹائن کے ساتھ مل کر لکھا گیا ان کا مشہور مقولہ بوس -آئنسٹائن اسٹیٹکس فزکس کا ایک اہم مقولہ ہے۔

آئنسٹائن پہلی مرتبہ امریکہ اپریل 1921 میں گئے ۔ نیویارک شہر کے امیر نے ان کو خاص استقبالیہ دیا اور پھر 3 ہفتوں تک وہ مختلف جگہوں پر لکچرز دیتے رہے ۔ ہر جگہ لوگوں کی بھیڑ ان کو دیکھنے اور سننے کے لئے جمع ہوتی رہی۔ اس دوران انہوں نے کولمبیا اور مشہور پرنسٹن یونیورسٹی میں امریکہ کے مشہور سائنسدانوں کے لئے لکچر دیئے۔ امریکہ سے واپسی پر وہ انگلستان میں مشہور فلسفی اور سیاستداں وِسکاؤنٹ ہالڈین کے مہمان رہے اور لندن کے مشہور کنگز کالج میں انگلستان کے مشہور لوگوں کے لئے اپنی تحقیقات پر لکچر دیئے۔

لوگوں کے بے حد اصرار پر آئنسٹائن چھ مہینے کے لئے لکچر ٹور پر نکلے اور ایشیا کے کئی ملکوں کا دورہ کیا۔ اس دوران وہ فلسطین، سیلون، سنگاپور اور جاپا ن گئے اور ہر جگہ ان کا استقبالیہ کسی صدر ریاست یا بڑے ہر دل عزیز ہیرو کی طرح سے کیا گیا۔ ہر جگہ ان کو دیکھنے اور سننے کے لئے سائنسدانوں کے علاوہ عام لوگوں کی بھیڑ جمع ہو جاتی تھی۔ جاپان میں جب بادشاہ کے دعوت نامہ پر آئنسٹائن ان سے ملنے گئے تو وہاں بھی ہزاروں لوگوں کی بھیڑ جمع ہو گئی۔

طویل سفر کی وجہ سے آئنسٹائن اپنا نوبل انعام لینے دسمبر 1922 میں اسٹاک ہوم نہیں جا پائے اور ان کی جگہ جرمن سفیر نے وہ انعام لیا۔ سفیر نے اپنی تقریر میں آئنسٹائن کو عالمی امن کا ایک بڑا حامی قرار دیا۔ آئنسٹائن 1923 میں لکچر دینے کے لئے پرتگال پہنچے اور وہاں پر بادشاہ نے ان کو اکیڈمی کا اعزازی ممبر بنایا۔ 1922 سے 1932 تک لیگ اور نیشن کی بنائی ایک عالمی کمیٹی (جس کا کام دانشوروں کے بیچ تعاون کو بڑھاوا دینا تھا) کے ممبر رہے۔ ان کے ساتھ ان کے استاد ہینڈرک لارینز اور میڈم کیوری بھی اس کمیٹی کے ممبران میں سےتھے۔

آئنسٹائن دوسری مرتبہ امریکہ دسمبر 1930 میں کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں اعزازی پروفیسر کی حیثیت سے گئے۔ جب لوگوں کو معلوم چلا تو ہزاروں دعوت نامے اور ٹیلی گرام ان کے پاس بھیجے گئے لیکن انہوں نے سب کو نامنظور کر دیا۔ ایک مرتبہ ان کے میزبان ان کو تھیٹر لے گئے ۔ جیسے ہی وہاں لوگوں کو پتا چلا انہوں نے کھڑے ہو کر تالیاں بجا کر ان کا خیر مقدم کیا۔ عالمی تاریخ میں اس سے قبل کوئی سائنس داں عام لوگوں میں اتنا مشہور نہیں ہوا تھا۔ لوگوں کی نگاہ میں آئنسٹائن ذہانت کا دوسرا نام تھے۔ نیویارک شہر کے پادری آئنسٹائن کو اپنے چرچ گھمانے لے گئے وہاں انہوں نے آئنسٹائن کا پورا مجسمہ داخلی دروازے کے پاس نصب کروایا۔

کیلی فورنیا میں ان کی ملاقات نوبل انعام یافتہ آر اے ملیکان سے ہوئی جو فوجی طاقب کے حامی تھے۔ وہاں طالب علموں سے خطاب میں انہوں نے خاص طور سے عالمی امن کی حمایت کی اور سائنس کے غلط استعمال (جنگی ساز و سامان کی ایجاد) پر ایک پرزور لکچر دیا۔

جنگوں اور فوجی طاقت کے غلط استعمال سے نفرت کی وجہ سے آئنسٹائن کی دوستی معروف مصنف اور ہردل عزیز اداکار چارلی چیپلن سے ہو گئی۔ چارلی چیپلن نے اپنی مشہور فلم ’سٹی لائٹ ‘ کی پہلی نمائش پر آئنسٹائن اور ان کی بیگم کو خصوصی مہمان کی حیثیت سے مدعو کیا۔

سن 1933 میں وہ تیسری مرتبہ 2 مہینے کے تحقیقاتی کام کے سلسلہ میں امریکہ گئے ۔ لیکن ان کو یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ شاید اب واپس جرمنی نہیں جا پائیں گے۔ جرمنی میں نازی پارٹی کا لیڈر ہٹلر بر سر اقتدار آ گیا تھا اور حالات نہایت ہی خراب ہو گئے تھے۔ آئنسٹائن کو یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کے گھر پر نازی پارٹی کے لفنگوں نے قبضہ کر کے ہر چیز برباد کر دی ہے۔ 28 مارچ 1933 میں امریکہ سے واپسی پر انہوں نے اپنا جرمن پاسپورٹ سفار ت خانہ کو لوٹا کر جرمن شہریت ہمیشہ کے لئے چھوڑ دی۔

اپریل 1933 میں ان کو خبر ملی کہ نازی حکومت نے ایک قانون پاس کر کے سارے یہودی استادوں کو ہر طرح کی نوکری سے برخاست کر دیا ہے۔ کمیونسٹ اور پھر سوشل شموکرٹک پارٹی نے غیر قانونی قرار دے کر ہر طرح کی مخالفت کو دبا دیا گیا۔ ہر جگہ کتابوں اور رسالوں کو نازی طالب علموں اور لفنگوں نے سر بازار آگ لگائی ۔ میڈیا کے ہر حصہ کو استعمال کر کے جھوٹ اور نفرت کا وحشیانہ کام شروع کیا گیا۔ آئنسٹائن کو مارنے کے لئے 5000 ڈالر کا انعام مقرر ہوا۔ ان تمام چیزوں کی ابھی ہلکی شرعاتی جھلک ہمارے ملک میں دکھائی دے رہی ہے۔

آئنسٹائن نے اپنے دوست مشہور سائنسداں میکس بورن کو اپنے ایک خط میں لکھا، ’’دانشوروں کے خلاف پھیلائی جا رہی وحشیانہ نفرت پر انہیں تعجب ہے لیکن ان چیزوں کے خلاف جرمنی میں ہر آواز کو اتنی آسانی سے ختم کر دیا جائے گا یہ نابقابل یقین بات ہے۔ کتابوں کا سر عام جلانا اور میڈیا پر پوری طرح قبضہ کر کے یہودیوں کے خلاف نفرت پھیلاکر پورے ملک کو مفلوج کر دیا گیا ہے۔ ‘‘

آئنسٹائن اب بے گھر مہاجر ہو گئے اور جولائی 1933 میں اپنے ایک دوست کے پاس انگلستان گئے وہاں وہ چرچل، چیمرلن اور لائڈ جارج سے ملے اور ان کو جرمنی کے بدلتے حالات سے روشناس کرایا۔ چرچل نے فوراً ہی اپنے ایک سفیر کو جرمنی بھیجا اور جتنے بھی دانشور جرمنی میں نوکری سے نکال دیئے گئے تھے انہیں اپنے ملک انگلستان میں بلاکر وہاں کی یونیورسٹیوں میں نوکری دینے کا ارادہ کیا۔

آئنسٹائن نے کئی ملکوں کے سربراہوں کو خط لکھے اور کہا کہ ان تمام جرمن سائنسدانوں کو جو نازی فاشزم کا شکار ہیں پناہ اور نوکریاں دیں۔ ستمبر 1933 میں ترکی کے وزیر اعظم عصمت انونو کو لکھے خط کے نتیجہ میں جرمنی کے ہزاروں سائنسدانوں کی جانیں بچیں۔ آئنسٹائن نے یورپ پر منڈلاتے ایک وحشانہ جنگ کے خطرے کا ذکر اپنی دسیوں تقریروں میں کیا۔ اسی بیچ انہوں نے امریکہ کے پرنسٹن کے انسٹی ٹیوٹ کی دعوت قبول کر لی اور امریکہ ہجرت کر گئے۔ 1933 تک انہوں نے امریکہ میں رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور پھر وہاں ہمیشہ کے لئے مقیم ہو گئے۔ 1940 میں ان کو امریکی شہریت حاصل ہو گئی۔

1939 میں ایک ہنگری سےجان بچاکر بھاگا سائنسداں لیو سیگیلارڈ جرمنی میں ائٹم بم کے متعلق ہونے والی تحقیقات سے باخبر اور پریشان تھا۔ اس نے آئنسٹائن کو اس خطرے سے آگاہ کیا کہ اگر جرمنی کے وحشی نازی ائٹم بم بنانے میں کامیاب ہو گئے تو وہ اس کو استعمال کرنے میں کوئی گریز نہیں کریں گے۔ ان دونوں نے کچھ اور سائنسدانوں کے ہمراہ امریکی صدر روزویلٹ کو خط لکھا اور اس کے بعد آئنسٹائن نے روزویلٹ سے ملاقات کی۔ انہوں نے روزویلٹ کو اس بات کے لئے راضی کر لیا کہ امریکہ ائٹم بم بنانے کی تحقیقات میں تیزی سے لگ جائے۔ ان کی اس کوشش کی وجہ سے امریکی حکومت نے بم بنانے کے مشہور پروجیکٹ مین ہیٹن کی شروعات کی۔ دوسری جنگ عظیم کی تباہی کو دیکھ کر آئنسٹائن بار بار یہ کہتے تھے کہ جنگ ایک خوف ناک بیماری ہے اس لئے اس کو اور جرمنی کے نازیوں کو روکنا ضروری ہے۔

آئنسٹائن امریکہ میں افریقی نسل کے لوگوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے سخت خلاف اور برابری کے شہری حقوق کی جدو جہد کے حامی تھے۔ کئی بار اپنی تقریروں میں انہوں نے رنگ کے نام پر تفریق کی سیاست کو ایک گھناؤنی بیماری قرار دیا۔

نومبر 1925 میں جب اسرائیل کے پہلے صدر کا انتقال ہوا تو وہاں کے وزیر اعظم بین گورین نے آئنسٹائن سے درخواست کی کہ وہ اسرائیل کے صدر کا عہدہ قبول کریں ۔ اس تجویز کو آئنسٹائن نے شکریہ کے ساتھ نامنظور کر دیا۔

آئنسٹائن کی والدہ کافی اچھا پیانو بجاتی تھیں اور ان کو موسیقی سے کافی لگاؤ تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ آئنسٹائن وائلن سیکھیں ۔ 13 سال کی عمر میں وہ وائلن بجانے لگے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ کلاسیکی موسیقی تمام زندگی ان کے ساتھ رہی۔ انہوں نے کئی مرتبہ یہ کہا کہ اگر وہ سائنسی تحقیقات میں مصروف نہ ہوتے تو موسیقار بنتے۔

آئنسٹائن سوشلزم کے حامی تھے اور انہوں نے اس بات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ایک مضمون ’وائی سوشلزم‘ کے عنوان سے لکھا۔

آئنسٹائن کی طبیعت 17 اپریل 1955 کو خراب ہوئی۔ کسی اندرونی نس کے پھٹنے سے خون بہنے لگا۔ جراہی کے لئے وہ تیار نہیں ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی زندگی جی چکے ہیں اور اس کو بلا وجہ بڑھانا بے کار ہے۔ اگلے دن ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کا دماغ نکال کر ریسرچ کے لئے رکھ لیا گیا ۔

آئنسٹائن کے بکھرے بال، منہ میں لگا پائپ ، معمولی کپڑے اور چہرے پر بچوں جیسی معصومیت ہم سب کے دلوں پر اب بھی نقش ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔