2017 کا نوبل انعام، انسٹائن پھر ایک امتحان میں کامیاب

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وصی حیدر

تقریباً 100 سال پہلے البرٹ انسٹائن نے جن Gravitational کشش کی لہروں کی پیشین گوئی کی تھی ان لہروں کو 14 ستمبر 2015 میں پہلی بار LIGO تجربے میں کامیابی سے دیکھنے پر اس سال کے نوبل انعام سے تین امریکی سا ئنسدانوں کو نوازہ گیا۔

ان سائنسدانوں کے نام Rairer Weiss, Kip Thorre اور Barry Barish ہیں ۔ان سائنسدانوں نے لیگو کے اس کامیاب تجربے کی اہم رہنمائی کی ۔ اس کامیاب تجربے میں تقریباً 130 کروڑ سال پہلے دو بلیک ہول کے آپس میں مل جانے (ضم) سے پیدا ہونے والی لہروں کو پہلی بار دیکھا گیا۔

تصویر سوشل میدیا
تصویر سوشل میدیا

1915 میں جب انقلابی General Relativity کا معقولہ پیش کیا گیا تو انسٹائن نے بہت ساری پیشین گوئیوں کے ساتھ یہ بھی کہا کہ کا ئنات میں جب بھی کو ئی بھاری چیز Accelerate کرے گی تو Gravitational لہریں پیدا ہو ں گی ۔ بالکل اسی طرح جیسے تالاب میں پانی کی سطح میں لہریں بنتی ہیں ۔ خود انسٹائن کو بہت شبہ تھا کہ ان لہروں کو کبھی کسی تجربے میں پکڑا جاسکے گا۔ کیوں کہ ہماری زمین تک آتے آتے اس کا سگنل بہت ہی زیادہ کمزور ہو چکے گا ۔ انسٹائن نے یہ ثابت کیا کہ وقت بھی کا ئنات کی تین سمتوں کی طرح ہے ۔ اس طرح کا ئنات کو چار سمتوں میں سمجھا جا سکتا ہے۔ ان چار سمتوں کو Space Time کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہ بھی بتا یا کہ کائنات ایک Plastic کی بڑی چادر کی طرح ہے اور اس میں جن جگہوں پر پڑے وزنی ستارے ہیں وہاں گڈھا ہو جا تا ہے۔جتنا زیادہ بھاری ستارہ ہو گا اتنا ہی زیادہ گہرا گڈھا ہو گا اور اگر کسی جگہ پر ایکدم سے وزن میں بڑی تبدیلی ہو گی تو وہاں سے Gravitational کشش کی لہریں پیدا ہو ں گی۔ بالکل اسی طرح جیسے تالاب کی ساکت سطح پر پتھر کے ایک ٹکڑے کو پھیکنے سے لہریں بنتی ہیں ۔ کائنات میں اس طرح کے حیرت انگیز واقعات اکثر ہو تے ہیں جن میں یہ لہریں بنتی ہیں لیکن ہم تک پہونچتے پہونچتے وہ اس قدر کمزور ہو چکی ہو تی ہیں کہ ان کو تجربے میں ناپ لینا ابھی تک نا ممکن ہے۔

سائنسدانوں کو تقریباً 100 سال لگے تب وہ اس طرح کا آلہ بنانے میں کامیاب ہو ئے،جس کی مدد سے وہ ان لہروں کو ناپ سکتے ہیں ۔ پچھلے 40 سالوں کی لگا تار محنت اور تقریباً 20 ملکوں کے1000 سائنسدانوں کے مل جل کر کام کر نے کے بعد یہ آلہ تیار ہو پایا ۔ اس آلہ کا نام LIGO یعنی Laser Inter Ferrometer-wave Observatory ہے۔ کا ئناتی تحقیقات میں اب تک ستاروں سے آنے والی روشنی کا طرح طرح سے استعمال ہوا ہے۔ یہ کامیاب تجربہ اس لئے بھی بہت اہم ہے کہ اب کا ئنات کو سمجھنے کے لئے ایک نیا ہتھیار سائنسدانوں کے پاس آگیا۔

لیگو تجربہ نے نہ صرف انسٹائن کی General Relativity کی ایک اہم پیشین گو ئی کو صحیح ثابت کیا بلکہ اس تجر بے سے اب یہ بھی معلوم ہو پائے گا کہ کا ئنات کس رفتار سے بڑی ہو تی جا رہی ہے۔

Weiss نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ ان کے پاس تجربہ کے نتیجہ آئے تو ان کو یقین نہیں ہو رہا تھا کی یہ Gravitationalلہریں ہیں تقریباً ود مہینے کی آپس میں بحث و مبا حثہ کے بعد جب سب کو یقین ہو گیا کہ لیگو نے نایاب کام کر لیا ہے تبھی اس تجر بے کی کامیابی کا اعلان کیا گیا۔

2017 کا نوبل انعام، انسٹائن پھر ایک امتحان میں کامیاب

تجربہ سے یہ معلوم ہوا کہ 130 کروڑ سال پہلے دو بہت بھاری بلیک ہول جن میں ایک سورج سے 35 گنا بھاری اور دوسرا تھوڑا کم وزنی ، جب قریب آکر آپس میں مکمل ایک ہو گئے تبھی یہ لہریں پیدا ہو ئی تھیں ۔ اس تشدد آمیز واقعہ سے 20 ملی سیکنڈ ( ایک ملی سیکنڈ =ایک سیکنڈ کا ہزارواں حصہ) کا سگنل ریکارڈ کیا گیا۔ سگنل کچھ اس طرح کا تھا جیسا کہ جب بہت دور سے Ambulance اپنا ہارن بجاتی ہوئی تیزی سے ہمارے پاس سے گزر جائے۔ سگنل کے تجزیہ سے یہ معلوم ہوا کہ شروع میں یہ دو بلیک ہول ایک دوسرے کے ارد گرد ایک سیکنڈ میں 30 چکر لگا رہے تھے اور پاس آتے گئے اور آخر میں ان کی رفتار بڑھ کر تقریباً 250 چکر فی سیکنڈ ہو گئی۔ ذرا سوچئے کہ سورج سے 35 گنا بھاری ستارا اگر کسی دوسرے ستارے کے ارد گرد اس قدر تیز رفتاری سے چکر لگا رہا تھا تو غنیمت ہے کہ وہ ہم سے اتنا دور تھے کہ ان Gravitational کشش کی لہریں آنے میں 130 کروڑ سال لگے۔ ان کشش کی لہروں کی رفتار وہی ہے جو روشنی کے چلنے کی رفتار ہے۔ (3 لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ)۔

آیئے اب یہ سمجھنے کی کو شش کریں کی لیگو کیسے Gravitational لہروں کو ناپ پاتا ہے۔ ان لہروں کو ناپنے کے لئے ہم کو روشنی کی دو شعاوں کی ضرورت ہے جو دو Mirrors کے بیچ ایک دوسرے کےPerpendicular چلیں۔ گزرتی ہو ئی لہروں کا یہ بھی اثر ہو تا ہے کہ ایک سمت Space سکڑتا ہے اور اس کے Perpendicular سمتSpace پھیلتا ہے۔ یعنی ہمارے آلہ کے ایک سمت کے دو Mirrorsکے بیچ دوری کم ہو گی اور اس کے Perpendicular سمت کےMirrors کے بیچ کی دوری بڑھ جائے گی۔ یہ تقریباً ایسا ہی ہے جیسے کو ئی چیز پانی کی سطح پر لہروں کی وجہ سے اوپر نیچے ہو تی ہے۔ روشنی کی ان دونوں لہروں کے راستے کی دوری میں جو بہت ہی تھوڑا فرق ہو تا ہے اس کو ناپ کر ہم ان لہروں کو محسوس کر سکتے ہیں ۔ اس طرح کے آلے امریکا میں دو جگہوں پر بنائے گئے Louisiana جو Livingstonمیں ہے اور دوسرا Hanford جو واشنگٹن میں تاکہ یہ یقینی طور پر طے ہو جائے کہ دونوں جگہوں پر لہروں کا اثر ایک جیسا ہے۔

دونوں لیگو آلے انگریزی کے حرف Lکی طرح 4 کلو میٹر لمبے پائپ ہیں جن میں Vacuum کر دیا جاتا ہے۔ اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ زمین گول ہے اور زمین پر ہونے والی کسی بھی حرکت کا اثر آلے پر نہ ہو ۔ غرض کہ لیگو آلہ سا ئنس اور ٹیکنولوجی کا ایک شاہکار ہے۔اس آلے کی کامیابی نے کائنات کی تحقیقات میں ایک نیا انقلاب بر پا کیا ہے۔

2017 کا نوبل انعام، انسٹائن پھر ایک امتحان میں کامیاب

یہ کسی معجزہ سے کیا کم ہے کہ 130 کروڑ سال پہلے ہونے والے واقعہ کے بارے میں ہم اتنی تفصیلات معلوم کر پائے ہیں ۔ ایک اور اہم بات کا ئناتی تحقیقات سے معلوم ہو ئی کہ کا ئنات میں وقت کے ساتھ زبر دست تبدیلیاں ہو رہی ہیں ہم نےجو بھی کہانی قصہ سن رکھے ہوں ، سچ تو یہ ہے کہ نہ کا ئنات ہمیشہ سے ایسی ہے اور نہ ہمیشہ ایسی رہے گی۔ سا ئنسی تحقیقات ہی ایک واحد طریقہ ہے اس بدلتی ہو ئی کائنات کو سمجھنے کا۔

ہمارے ملک میں بھی لیگو کی طرح تین تجربہ گاہیں بنانے کا پلان اپنی آخری منزلوں پر ہے تا کہ کائناتی تحقیقات کے میدان میں ہم بہت پیچھے نہ رہ جائیں ۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 05 Nov 2017, 2:01 PM