انٹرنیٹ کے ذریعے فحش مواد تک رسائی کے رجحان میں بے پناہ اضافہ

عریانیت یا فحش پھیلانے والی ویب سائٹس کے علاوہ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کا بے لگام استعمال ایک سنگین صورت اختیار کرچکا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

مظہر حسنین

انٹرنیٹ کی دنیا میں سب سے زیادہ استعمال کیے جانے والے سرچ انجن گوگل کی فحش مواد یعنی پورنوگرافی ہے۔ جس کو دنیا میں سب سے زیادہ سرچ کیا جاتا ہے۔ برہنہ تصاویر، ویڈیوزکی تلاش میں سرچنگ کی جاتی ہے۔ یہ رپورٹ اعداد و شمار کی بنیا د پر ترتیب دی گئی ہے لیکن انٹرنیٹ کا کوئی بھی صارف گوگل ٹرینڈز کے ذریعے کسی بھی سال اور کسی بھی خاص علاقے کے حوالے سے کسی بھی لفظ کی سرچ کا ڈیٹا دیکھ سکتا ہے۔

مغربی میڈیا نے اس سے پہلے بھی واویلا کیا تھا جب متعصب مغربی خبررساں ادارے کی طرف سے گوگل کے اس ڈیٹا کی بنیاد پر پاکستان کے فحش مواد تک رسائی میں سر فہرست ہونے کی خبر سامنے آئی تھی، لیکن پھر گوگل کے ترجمان نے یہ کہہ کر اس خبر کی تردید بھی کردی تھی کہ اس طرح کی کوئی بھی رپورٹ غلط ہوسکتی ہے۔ اس نے اس رپورٹ کی بنیاد پر اپنی خبر کی شہ سرخی میں پاکستان کو پورنستان قراردیا تھا۔ لیکن گوگل کے ترجمان تھیریسے لم نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کرنا ایک انتہائی محدود سیمپل یا نمونے کو بہت بڑے پیمانے پر عام کردینے کے مترادف ہے۔

گوگل کی حالیہ رپورٹ پر بھی کئی اعتراضات اٹھائے جاسکتے ہیں، بلکہ قارئین خود گوگل ٹرینڈز کے ذریعے ان اعتراضات کا ثبوت حاصل کرسکتے ہیں جو ذیل میں پیش کئے جارہے ہیں۔

اگرچہ پاکستان کئی فحش الفاظ، یا ایسے الفاظ کی تلاش میں، جو فحش مواد تک رسائی کے لئے استعمال ہوسکتے ہیں، سرفہرست ہے، لیکن دیگر کئی ممالک ایسی اصطلاحات کی تلاش میں پاکستان سے بھی بہت آگے نکل چکے ہیں۔ ان ممالک میں ویتنام، فلپائن، جنوبی افریقہ، برطانیہ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یہ وہی ممالک ہیں جنہوں نے انفرادیت، شخصی آزادی، تفریح اور لائف اسٹائل کے خوبصورت عنوانوں سے یہ انسانیت سوز تحائف دنیا کو دیئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار شہروں کے حوالے سے بھی دیکھے جاسکتے ہیں، جن میں دہلی، بنگلور، چنئی، ممبئی، سڈنی، میلبورن، ہنوئی، لاس اینجلس اور ڈیلاس سر فہرست ہیں۔

انٹرنیٹ کے ذریعے فحش مواد تک رسائی کے رجحان میں بے پناہ اضافہ

یہ تمام ڈیٹا گوگل کے ذریعے فحش مواد کی تلاش فی کس تلاشوں پر مشتمل ہے۔ اس حوالے سے ایک اعتراض یہ ہے کہ گوگل اگرچہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی انٹرنیٹ پر کئی ایک سرچ انجن ہیں جن کے ذریعے صارفین اپنا مطلوبہ مواد تلاش کرتے ہیں۔ گوگل کے ذریعے زیادہ سرچ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہاں دیگر سرچ انجنز زیادہ معروف نہیں۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی ویب سائٹ کا براہ راست نام نہ جاننے والے ہی سرچ انجنوں میں الفاظ کے ذریعے تلاش کرتے ہیں۔ جن صارفین کو براہ راست ویب سائٹس کا تعارف حاصل ہو، وہ اس کا ایڈریس درج کر کے براہ راست اس تک پہنچ جاتے ہیں۔

گوگل کی رپورٹ پر اعتراضات اپنی جگہ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نہ صرف انٹرنیٹ کے ذریعے فحش مواد تک رسائی کے رجحان میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، بلکہ ہر قسم کے فحش مواد تک ہر عمر کے افراد کی رسائی میں بھی خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ سے دو کروڑ لو گوں کو انٹر نیٹ تک رسائی حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے بازاروں میں ہر طرح کی سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز بلا تخصیص عمر فروخت کی جارہی ہیں۔ کیبل پر دکھائے جانے والے نیوز اور تفریحی چینلز بلاتفریق ہر ناظر کو اشتعال انگیز مناظر دکھا رہے ہیں۔

جہاں تک انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹس کا معاملہ ہے، ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پی ٹی اے کی طرف سے اب تک 13 ہزار قابل اعتراض ویب سائٹس کو بلاک کیا جاچکا ہے۔ یہ اقدام بظاہر خوش آئند ہے کہ ہمارے اداروں و اپنی ذمہ داری کا کچھ تو احساس ہوا، لیکن جب اس کاموازنہ انٹرنیٹ پر موجود ایسی فحش ویب سائٹس سے کیا جاتا ہے جو اس وقت موجود ہیں یا روزانہ کی بنیاد پر ان میں ہزاروں کا اضافہ ہورہا ہے، تو اس مقامی رکاوٹ کی وقعت انتہائی کم رہ جاتی ہے۔

الیکٹرونک میڈیا پر کسی بھی قسم کی غیر اخلاقی سرگرمیوں یا مواد کی نشرواشاعت کو پیمرا روکنے کی مجاز ہے۔ پروگراموں کے عمومی معیار سے متعلق پیمرا قوانین کی دفعہ 6 میں درج ہے کہ کسی بھی ایسے نشریاتی ادارے یا کمپنی کا لائسنس منسوخ کیا جاسکتا ہے ۔اگر وہ کسی بھی قسم کی فحش نگاری میں مبتلا پایاجائے۔ اسی طرح کیبل پر نشر ہونے والے مواد کیلئے بھی قوانین موجود ہیں، لیکن سوال ان پر عملدرآمد کا ہے اور ہماری بدقسمتی ہے کہ ایسا نہیں ہورہا۔ ہمارا مذہب اور ہماری ثقافت میں اس سب کی چنداں اجازت نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود ہم سب خاموش ہیں۔ یہاں معاملہ صرف مذہب کا نہیں ہے، بلک دنیا کے بہت سے ایسے ممالک جو خود کو سیکولر کہتے ہیں، اس قسم کے مواد اور ویب سائٹس کو روکنے اور بنیادی انسانی اخلاقیات کی حفاظت کے لئے اقدامات کررہے ہیں۔ مغرب میں باشعور طبقات سرکاری ٹیلی ویژن کو، جس میں عموماً کارٹون، فلمز اور اشتہارات دکھائے جاتے ہیں، ایک ایسے بیہودہ ڈبّے سے موسوم کرتے ہیں، جس سے بچوں کو دور رکھنے کی بات شدومد سے کی جارہی ہے۔

انٹرنیٹ کے ذریعے فحش مواد تک رسائی کے رجحان میں بے پناہ اضافہ

چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں چینی نظریات کے خلاف ویب سائٹس کے سمیت فحش ویب سائٹ کی ایک بہت بڑی تعداد کو بھی بلاک کیا جاچکا ہے۔ وہاں اس حوالے سے سخت قوانین بھی موجود ہیں، جن میں بالخصوص چائلڈ آن لائن پروٹیکشن ایکٹ 1998تمام کمرشل ویب سائٹس تک سے یہ کہتا ہے کہ وہ کم عمر نوجوانوں اور بچوں سے ایسی تمام اشیا اور معلومات کو دور رکھیں جو ان کے لئے کسی بھی لحاظ سے نقصان دہ ہیں۔ ان میں فحاشی پر مبنی مواد بھی شامل ہے۔ اسی طرح چین میں فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا کی ویب سائٹس پر بھی پابندی ہے۔ اس کے علاوہ ملیشیا میں فحش مواد کے متعلق سخت قانون موجود ہے اور اس قسم کے مواد کو دیکھنے، رکھنے یا پیش کرنے پر 4 سال تک کی قید دی جاسکتی ہے۔

سال2005 میں یہ قانون بننے کے بعد سے اب تک سیکڑوں افراد کو یہ سزائیں اور بھاری جرمانے بھگتنا پڑے ہیں۔ ہندوستان نے اس حوالے سے خاصے اقدامات کئے ہیں، جو پوری دنیا میں چین اور امریکا کے بعد انٹرنیٹ صارفین کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ حال ہی میں ہندستان کے چیف جسٹس نے ملک میں تمام فحش ویب سائٹس کو بند کرنے کے احکامات جاری کئے تھے، جبکہ آئی پی سی 292 ملک میں ہر قسم کی فحش کتب کی خریدو فروخت، فحش نگاری اور فحش معلومات کے تبادلے پر پابندی عائد کرتی ہے اور ان جرائم میں ملوث افراد کودو سال تک کی قید اور بھاری جرمانے کی سزاوار سمجھتی ہے۔ لیکن یہاں بھی پورن ویب سائٹوں پر کوئی روک نظر نہیں آتی ہے۔ یہاں تک کہ سوشل میڈیا فیس بک جیسے پلیٹ فارم پر فحش تصاویر اور ویڈیوز ڈالے جاتے ہیں۔

عریانیت یا فحش پھیلانے والی ویب سائٹس کے علاوہ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کا بے لگام استعمال ایک سنگین مسئلے کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ انٹرنیٹ صارفین بخوبی جانتے ہوں گے کہ فحش مواد کو پھیلانے کے عمل میں فحش ویب سائٹس کے علاوہ سوشل میڈیا کا بھی بہت زیادہ عمل دخل ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔