چندر گپت، ارسطو اور گیلیلیو: زمینی کشش کو سمجھنے کی شروعات

سائنس کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کائناتی سمجھ درجہ بہ درجہ ہی قدرت کے رازوں کو اجاگر کر پائی ہے۔ نیوٹن کے زمانے میں موبائل فون ممکن نہیں تھا اور ارسطو کے زمانے میں ایکسرے نہیں ہو سکتا تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وصی حیدر

چندر گپت دوم گپت خاندان کا مقبول اور طاقت ور بادشاہ تھا ۔ اس نے 380 سے لے کر 415 تک حکومت کی۔ اس کے باپ کا نام سمدر گپت، دادا کا نام چندر گپت اول اور بیٹے کا نام کمار گپت تھا۔

مودی حکومت کے وزیر تعلیم ستیہ پال سنگھ نے چندر گپت دوم کے حوالہ سے یہ کہہ ڈالا کہ ان کو زمین کی کشش (gravitation) کے بارے میں نیوٹن سے ایک ہزار سال قبل معلومات تھی اور لگتا ہے کہ پھر ہم وہ سب بھول گئے۔ کچھ دنوں وزیر موصوف نے اپنے علم یا مظاہرہ یہ کہہ کر بھی کیا تھا کہ ہوائی جہاز رائٹ برادر کے 1903 میں جہاز بنانے سے پہلے کسی صاحب نے بناکر اڑایا تھا۔ وزیر تعلیم کی سائنس، سائنس کی تاریخ اور سچائی سے اتنی گہری دشمنی ایک خوفناک رجحان ہے۔

سائنس کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کائناتی سمجھ درجہ بہ درجہ ہی قدرت کے رازوں کو اجاگر کر پائی ہے ۔ نیوٹن کے زمانے میں موبائل فون ممکن نہیں تھا اور ارسطو کے زمانے میں ایکسرے نہیں ہو سکتا تھا۔ ہزاروں سائنس دانوں نے ہماری زمین پر زندگی کے ارتقا پر تحقیق کرکے ہی سچائی کو سمجھا ہے۔ یہ تمام سمجھ مشاہدہ اور تجربات کے تجزیہ سے حاصل ہوئی ہے۔ چاروں طرف ہونے والے واقعات کی سچائی معلوم کرنے کے لئے سائنسی طریقہ کار سے بے شمار مشاہدے اور تجربات کی ضرورت پڑتی ہے۔

سائنسی سمجھ پوری انسانیت کا سرمایہ ہے۔ اگر جاپان کی بلٹ ٹرین ، یورپ اور امریکہ کا موبائل فون ہم استعمال کر سکتے ہیں تو نیوٹن کے زمینی کشش کے قوانین کو استعمال کرنے میں احساس کمتری کیوں!

ان بیانات کی روشنی میں یہ ضروری ہے کہ تھوڑی تاریخ اور نیوٹن کے زمین کی کشش کے قانون کا کچھ ذکر ہوجائے۔ چندر گپت دوم سے پہلے بھی جب انسان جنگلوں میں رہتا تھا تبھی اس کو معلوم تھا کہ پیڑوں سے پھل زمین کی طرف گرتے ہیں اور جب وہ پتھر کو پھینک کر شکار کرتا تھا تو بھی پتھر آخر میں زمین کی ہی طرف گرتا ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب (3.5 ہزار قبل مسیح سے 1.5 ہزار قبل مسیح ) کے دوران انسان کو اس سچائی کی خبر تھی کہ جب وہ مکانات بنا رہے تھے کہ چیزیں زمین کی طرف گرتی ہیں۔

چیزیں زمین کی طرف کیوں گرتی ہیں یا کوئی بھی حرکت کیوں ہوتی ہے اس کی سمجھ ارسطو (384BC-322BC) جیسے عظیم فلسفی سے لے کر گیلیلیو (1564BC-1642BC)کے بعد نیوٹن (1643-1727)تک ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد ان منزلوں تک پہنچی ہے۔

قابل غور ہے کہ ارسطو کا استاد پلیٹو (429BC-347BC) سقراط (469BC-399BC) کا شاگر تھا جبکہ ارسطو سکند ر اعظم (336BC-322BC) کا استاد تھا۔

ارسطو نے روز مرہ نظر آنے والی قدرتی حرکت مثلاً تاروں کی گردش، دھوئیں کا اوپر جانا ، بادلوں کا اڑنا، بارش کا گرنا، سمندروں کی لہروں کا چلنا، کمان سے تیر کا نکلنا وغیرہ وغیرہ سب کو ایک منظم طریقہ سے سمجھنے کی کوشش کی ۔ ان کے خیال سے ساری حرکتوں کو صرف سیدھی لائن یا گولائی یا ان دونوں کی ملاوٹ کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں اور ساری حرکتیں یا تو قدرتی ہیں یا غیر قدرتی اور ہر حرکت کرتی ہوئی چیز آخر میں اپنے قدرتی مرکز کی طرف جاتی ہے۔

ارسطو کے نظریہ کے مطابق ہماری زمین اٹل ہے اور سورج ، چاند ، سیارے اور ستارے اس کے گر د چکر لگاتے ہیں ۔ اس سمجھ کو عیسائی چرچ کی پر زور حمایت حاصل تھی اور یہ یورپ کی مکمل سمجھ کا صدیوں تک حصہ رہی ۔ اس سمجھ کو پہلا سخت چیلنج سولہویں صدی میں ’کوپرنیکس‘ نے کیا۔ اس نے مشاہدہ کی بنیاد پر یہ کہا کہ اصل میں سارے سیار ے (مع ہماری زمین) سورج کے چاروں طرف چکر لگاتے ہیں ۔

ارسطو کے حرکت کے بارے میں فلسفہ کو پوری طرح غلط ثابت کرنے کا اصل سہرا گیلیلیو کے سر ہی جاتا ہے۔ گیلیلیو ایک ریاضی داں ، فلسفی تھا اور فلورینس کے بادشاہ کا مشیر خاص تھا۔ اس نے نہ صرف ریاضی کی لیاقت کا استعمال کیا بلکہ بڑی ہوشیاری کے ساتھ تجربات بھی کئے۔

اس کی مشہور کتاب (Dialogue Concerning the Two Chief World Systems) نہایت دلچسپ طریقہ سے دو لوگوں کی بات چیت کی شکل میں سائنسی دلائل کے استعمال کی بہترین مثال ہے۔ اس کتاب میں اس نے دلیلوں کی مدد سے ارسطو کی سمجھ کو ہمیشہ کے لئے غلط ثابت کردیا اور سائنسی سمجھ کی بنیاد کو شاید پہلی بار مشاہدوں کی کسوٹی پر پرکھنے کا طریقہ رائج کیا۔

گلیلیو کایہ کہنا کہ زمین سورج کے چاروں طرف گھومتی ہے چرچ کو بہت ہی ناگوار گزرا جس کے نتیجہ میں اس کو نظر بند کر دیا گیا ۔ چرچ کو اپنی غلطی ماننے میں تقریباً 400 سال لگے۔

ارسطو کا ماننا تھا کہ حرکت کے لئے مستقل قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ گلیلیو صحیح معنی میں حرکت اور قوت کے رشتہ کو سمجھ پایا۔ اس نے تجربہ کرکے یہ دکھایا کہ قوت صرف حرکت میں تبدیلی کے لئے ضروری ہوتی ہے اور اگر قوت کا استعمال نہ ہوتا تو حرکت کرنے والی چیز کی رفتار میں کوئی تبدیلی نہ ہوگی۔ لیکن کتنی قوت سے رفتار میں کتنی تبدیلی ہوگی یہ تب معلوم ہوا جب1687 میں نیوٹن کی کتاب (The Mathematical Principle of Natural Philosophy) منظر عام پر آئی۔ اس کتاب میں حرکت کو سمجھنے اور ناپنے کے تین مقولوں نے ساری سمجھ کو صاف کردیا۔

زمیں کی کشش کو سمجھنے کے لئے گیلیلیو نے اٹلی کے شہر پیسا کی جھکی مینار سے ایک دلچسپ تجربہ کیا۔ گیلیلیو نے یہ تجربہ 1589-92میں اس وقت کیا جب وہ پیسا یونیورسٹی سے وابستہ تھا ۔ اس نے ایسے دو بڑے گولے جن کا وزن ایک دوسرے سے علیحدہ تھا ، مینار کی اوپری منزل سے گرائے اور ان کے زمیں تک پہنچنے کے وقت کو ناپا۔ اس تجربہ کے نتائج بہت ہی اہم نکلے۔

اس نے یہ پایا کہ دونوں گولے (ایک ہلکا اور ایک بھاری) ایک ہی وقت پر زمین پر پہونچتے ہیں اور ان دونوں کی زمین تک پہنچنے کی رفتار برابر ہے۔ یعنی گولوں کا وزن کچھ بھی ہو ان کی رفتار میں تبدیلی (زمین کی کشش کی وجہ سے) یکساں ہے۔

اس تجربہ کا دوسرا اہم نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں گولے جب اونچائی سے چھوڑے گئے تو ان کی رفتار صفر تھی اور زمینی کشش کی وجہ سے ان کی رفتار بڑھتی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان دونوں گولوں پر زمینی کشش کی وجہ سے مستقل ایک قوت کا م کرتی رہی جس کی وجہ سے ان کی رفتار میں لگاتار اضافہ ہوتا رہا۔

گیلیلیو کا تجربہ زمینی کشش کو سمجھنے کی سمت میں ایک بڑا قدم ثابت ہوا۔ لیکن سمینی کشش سے متعلق نیوٹن کے نہایت ہی اہم مقولہ تک پہنچنے کا سفر ابھی کچھ اور مرحلوں سے گزرنا تھا۔اب تو ایسا لگتا ہے کہ جس طرح اورنگزیب روڈ کا نام تبدیل کیا گیا ہے تو نیوٹن زمینی کشش کے مقولہ کا نام بھی تبدیل کر کے چندر گپت مقولہ رکھ دیا جائے گا۔

نیوٹن کے قوانین اور انسانی تاریخ میں ’سیب ‘ کی اہمیت کا ذکر اگلے مضمون میں ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔