سائنس کی ترقی: کتاب کلچر سے کمپیوٹر کلچر کی سمت

گوگل کے لا محدود اطلاعاتی سمندر میں غوطہ زنی کرکے علم کے جواہر پارے حاصل کیے جا رہے ہیں۔ درس تدریس کا منظر نامہ بھی بدل چکا ہے۔ ای تعلیم کی اصطلاحات نے زمانے کو نئے تعلیمی نظام سے ہمکنار کیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

مظہر حسنین

کتاب انسان کی بہت بڑی رفیق ہے، اس کی تنہائی کی بہترین ساتھی، معلومات کا خزانہ ہے، انسان کے لطیف جذبات کا اظہار، جس گھر میں کتاب نظر نہ آئے، سمجھ لیں اس کے مکین جذبات سے عاری روبوٹ کی طرح زندگی جی رہے ہیں۔ جس طرح ایک اچھا گیت انسان کی روح کو چھو لیتا ہے، ویسے ہی مطالعہ انسان کے من کو سیراب کرتا ہے۔ گیت کی روح تک پہنچنے کے لیے اس کی شاعری، اس کی موسیقی کے ردھم اور آواز کی مٹھاس کو محسوس کرنا پڑتا ہے۔ بالکل اسی طرح کتاب کو ہاتھ میں لے کر اسے محسوس کرنا پڑتا ہے اور اس کے مطالعے کے لیے بھی اک خاص اہتمام کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ مقصد صرف پڑھنا ہی نہیں ہے، بلکہ کس طریقے سے پڑھنا ہے کہ پڑھنے کا صحیح مزا بھی آئے۔ اس کے لیے آس پاس کے ماحول پر بھی تھوڑا دھیان دینا پڑتا ہے۔

پہلے وقتوں لوگ کتاب اور پڑھنے کی اہمیت پر بہت یقین رکھتے تھے، ان پڑھ عورت کو بھی ناخواندہ کہلانا پسند نہیں تھا، وہ بھی یہ ضرور بتاتی کہ وہ گرچہ اسکول نہیں جا سکی لیکن بہشتی زیور ضرور پڑھی ہوئی ہے۔ پڑھائی کے یہ دو اکشر اس وقت اس کی ذات کی پہچان بننے کے کام آتے اور ہر گھر میں ایک آدھ کتابوں کا ریکس، شیلف یا الماری ضرور نظر آتی۔ صاحب علم و ثروت افراد کے گھر میں لائبریری بھی موجود ہوتی تھی اور پبلک لائبریریاں بھی تھیں۔ پڑھنے والے اپنی علمی پیاس وہیں بجھایا کرتے تھے۔ اپنے دن رات کے کچھ گھنٹے بخوشی اس کی نذر کر دیا کرتے تھے۔

لیکن تبدیلی تو لازم ہے، دور جدید نے انسان کو بہت ساری سہولیات میسر کی ہیں، الیکٹرانک میڈیا دیکھتے ہی دیکھتے چھا چکا ہے اور وقت نے ایسی کروٹ لی کہ کتابیں گھروں سے کم اور پھر غائب سی ہونے لگیں اور ان کی جگہ کمپیوٹر، موبائل، میوزک نے لے لی اور کتاب ہاتھ سے پھسل کر کمپیوٹر میں سما گئی۔ حالانکہ یہ بھی ایک عمل تھا۔ جیسے کاغذ کی ایجاد کے بعد کتابوں کو اشاعت کو فروغ ملا اور کتابیں قاری سے اپنا ایک رشتہ بنا چکی تھیں۔ یقینا اب بھی اسی رشتے کو بھی تجدید زمانہ دی گئی تھی۔ کتاب کو نئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق نیا پیرہن دیا گیا۔ سو کچھ سالوں سے کتاب کمپیوٹر کی اسکرین میں سما گئی ہے۔ اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے انقلاب نے پوری دنیا پر قبضہ کرلیا ہے، سوشل میڈیا کو دیکھیے تو وہاں معلومات کی بارش ہو رہی ہے اور گوگل کے لا محدود اطلاعاتی سمندر میں غوطہ زنی کرکے علم کے جواہر پارے حاصل کیے جا رہے ہیں۔ درس تدریس کا منظر نامہ بھی تبدیل ہو چکا ہے۔ ای بکس اور ای تعلیم کی اصطلاحات نے زمانے کو نئے تعلیمی نظام سے ہمکنار کیا ہے۔ بات یونیورسٹی سے بڑھ کر ورچوئل یونیورسٹی اور آن لائن کورسیز تک پہنچ چکی ہے۔ اس تبدیلی کے باوجود کتابوں کی اہمیت و افادیت میں کمی نہیں آئی ہے اور نہ ہی کتابوں کے شائقین کی تعداد کم ہوئی ہے۔ کتابیں آج بھی ہزروں، لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوتی ہیں اور بین الاقوامی سطح پرکثیر الفروخت بن جاتی ہیں۔

ترقی پسند ممالک میں انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ چاہے لوگ اسے کمپیوٹر پر پڑھیں یا خرید کر ہارڈ کاپی میں، ان کے پاس انتخاب کی سہولت موجودد رہتی ہے۔ ہمارے ملکوں میں تبدیلی آکر بھی جلد تبدیلی نہیں آپاتی اور اس میں سمونے کے لیے بھی اچھا خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں کا قاری کچھ گھبرا سا گیا ہے۔ گو ہمارے یہاں پڑھنا لکھنا اتنا کم نہیں ہوا۔ کیونکہ اس کے بغیر تو کاروبار زندگی جام ہو سکتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں سوچ میں فرق ضرور آ گیا ہے۔

امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق انگلینڈ میں اوسطاً ایک سال میں آدمی سات کتابیں پڑھتا ہے، امریکہ میں چار کتاب پڑھتا ہے، جبکہ دیکھا جائے تو کمپیوٹر ویسے تو سب کی زندگی میں داخل ہو گیا ہے۔ ای میلز، چیٹنگ، ویڈیوگیمز، ویب سرچنگ، آن لائن خریداری سب کچھ۔ حتیٰ کہ خاتون خانہ بھی پیچھے نہیں رہیں۔ جو پہلے سالن بناتے ہوئے کتاب ہاتھ میں رکھتی تھی۔ اب اس کے پاس بھی پڑھنے کے دو دو طریقۂ کار موجود ہیں اور وہ کچھ کشمکش کا شکار ہے کہ اب کتاب کمپیوٹر پر پڑھی جائے یا ہاتھ میں لے کر؟ حالات کا تقاضا تو یہی ہے کہ وقت کے ساتھ چلا جائے بس کتابیں میسر ہونی چاہیے۔ بک شیلف نہ سہی پر کمپیوٹر گھر بیٹھے ہی ہمارے لیے اک لائبریری کا دروازہ ضرور کھول دیتا ہے۔ پھر کیوں نہ کمپیوٹر کے آگے کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھنے کا لطف اٹھایا جائے۔ خود کو ترقی پسند قاری کا خطاب دلوایا جائے۔ لیکن ڈاکٹر کی گولی کی طرح اس کے بھی فوائد و نقائص ہیں۔

انٹر نیٹ کے ذریعے کسی بھی سائٹ پر جا کر مانیٹر پر نظر جما کر آخر کتنی دیر مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔کرسی پر بیٹھے بیٹھے جسم اکڑنے لگتا ہے۔ گردن میں کھنچاؤ پڑنے لگتا ہے۔ متواتر ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے سے آنکھیں بھی تھکنے لگتی ہیں۔ اس وقت کتاب کے بے شمار فوائد سامنے آنے لگتے ہیں۔ کتاب کو جب چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔ جب دل چاہے ادھر ادھر لے جا سکتے ہیں۔ بیٹھ کر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر سفر کے دوران وغیرہ۔ افسوس یہ سہولیات انٹرنیٹ پر کتاب کے لیے میسر نہیں۔ ہاتھ میں کتاب لے کر پڑھتے ہوئے قاری مصنف کو یاد رکھتا ہے اور انٹرنیٹ پر پڑھتے ہوئے اس کا دھیان اپنی جسمانی تکالیف کی طرف منتقل ہونے لگتا ہے۔ اتنے لوازمات کے بعد بھی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں ادبی کتابیں بہت کم اور محدود تعداد میں شائع ہوتی ہیں۔ ان باتوں سے یہی احساس ہوا کہ مطالعہ سے ہمیشہ اک سکون کی کیفیت عطا کرتا ہے۔ کیا یہ چیز میرے لیے کمپیوٹر پر کتاب کرے گی؟ پھر کبھی کبھی گھر میں ہلکی چہل قدمی کرتے ہوئے پڑھنے کا اپنا مزا ہے۔ واک کی واک اور کتاب کا بھی ساتھ، کبھی آرام کرسی پر کبھی ہلکی دھوپ میں بیٹھ کر۔ غرض پڑھنے کے لیے اک ماحول تیار کرنا پڑتا ہے۔ کتاب ہاتھ میں لے کر پڑھنے میں جو محسوسات ہیں وہ انٹرنیٹ پر پڑھنے میں مفقود ہیں۔ اک تشنگی سی باقی رہ جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود میں شکر ہی ادا کرتا ہوں۔ کہ پڑھنے کے لیے کوئی نہ کوئی پلیٹ فارم، سلسلہ میسر تو ہے۔ ایسے نہ سہی ویسے ہی سہی۔ ممکن ہے بہت سے قاری کمپیوٹر پر کتاب پڑھنے میں آسانی محسوس کرتے ہوں۔ اگر آپ نے پہلے اس نکتے پر غور نہیں کیا تو آج کتاب پڑھتے ہوئے اس بات کا فیصلہ ضرور کیجیے کہ کتاب ہاتھ میں لے کر پڑھی جائے یا کمپیوٹر پر؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔