انسانی دماغ پر جنک (Junk) ٹیکنالوجی کے اثرات

ڈاکٹر کانگ کا کہنا ہے کہ ہمارا دماغ ٹیکنالوجی سے رابطے میں آنے پر ’میٹا بولزمز‘ یا کیمیائی تبدیلی سے گزرتا ہے اور ہمارے جسم میں چھ مختلف قسم سے نیورو کیمیکل جاری کرتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

مظہر حسنین

عالمی سطح پر یومیہ انٹر نیٹ استعمال کنندگان کا جائزہ لیا جائے تو یہ پہلو سامنے آتا ہے کہ دنیا کے34 ممالک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد روزانہ اوسطاً 6 سے 9 گھنٹے تک انٹرنیٹ تہوں میں غوطہ زن ہوتے ہیں۔ اس میں ان افراد کا تناسب بہت کم ہے جو بامقصد اور بہتر کاموں کے لئے دنیائے انٹرنیٹ کی خاک چھانتے ہیں۔ بیشتر افراد سائبر دنیا میں اپنا سفر فضولیات میں گزار دیتے ہیں۔ کچھ افراد جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے اس قدر اس تخیلی دنیا سے اپنے رشتے استوار کر چکے ہیں ان کی دنیا آن لائن گیموں اور سوشل میڈیا تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہیں اور حقیقی سماج و معاشرے سے کٹ کر ایک مصنوعی اور تخیلی معاشرے کے اسیر ہوگئے ہیں۔ جس کے باعث ان کے افعال و اقدار میں بھی تبدیلی آگئی ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ مسلّم و قائم ہے کہ کسی بھی چیز کے ضرورت سے زیادہ استعمال سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان پہنچتا ہے اور ہم میں سے بہت سے لوگ ٹیکنالوجی کے کثرت سے استعمال سے خوش دکھائی دیتے ہیں۔

انسانی دماغ پر جنک (Junk) ٹیکنالوجی کے اثرات

انٹرنیٹ پر صارفین کے اعداد و شمار جمع کرنے والی کمپنی گوبل ویب انڈیکس کی جانب سے 34 ممالک میں کیے جانے والے سروے کے نتائج کے مطابق انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد روزانہ اوسطً 6 گھنٹے تک آن لائن رہتے ہیں۔ ان ممالک میں شامل تھائی لینڈ، فلپائن اور برازیل میں روزانہ نو گھنٹے سے بھی زیادہ لوگ آن لائن رہتے ہیں جس میں ایک تہائی وقت سوشل میڈیا کے استعمال میں گزارتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ ٹیکنالوجی ہمارے دماغ پر کس طرح کے اثرات مرتب کرتی ہے؟۔

ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے اب اس کے ہماری جسمانی اور ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات پر سائنسی بنیادوں پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ کناڈا میں بچوں اورنوجوانوں کی دماغی صحت کی ماہر ڈاکٹر شمی کانگ کی توجہ بھی ٹکنالوجی کی لت میں مبتلا افراد پر مرکوز ہے۔انھوں نے بتایا کہ ٹکنالوجی کا اضطراب، ذہنی دباؤ خود سے بیزاری جیسے مسائل سامنے آ رہے ہیں اور انٹرنیٹ کے کثرت سے استعمال کرنے والوں کو اب باقاعدہ طورپر بیمار مانا جاتا ہے اور اب اس کی طبی تشخیص کی جاتی ہے۔ جس طرح غذامیں صحت مند غذا کے ساتھ سپر فوڈ اور جنک فوڈ دستیاب ہوتے ہیں اسی طرح ٹکنالوجی کی بھی مختلف اقسام ہوتی ہیں اور اگر آپ ان کے ساتھ اچھا تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اس کے آپ کے دماغ پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔

ڈاکٹر کانگ کا کہنا ہے کہ ہمارا دماغ ٹیکنالوجی سے رابطے میں آنے پر ’میٹا بولزمز‘ یا کیمیائی تبدیلی سے گزرتا ہے اور ہمارے جسم میں چھ مختلف قسم سے نیورو کیمیکل جاری کرتا ہے۔

سیروٹونن: یہ نیورو کیمیکل تب جاری ہوتا ہے جب ہم کچھ تخلیقی کام کر رہے ہوتے ہیں، کسی سے رابطے میں ہوتے ہیں اور کسی کام میں شامل ہوتے ہیں۔

انسانی دماغ پر جنک (Junk) ٹیکنالوجی کے اثرات
  • اینڈورفن: یہ کیمیکل انسانی جسم کے لیے ’دردکش‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔
  • آکسی ٹاکسن: یہ معنی خیز باتوں کے تبادلے سے جاری ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ ایک مفید نیورو کیمیکل ہے مگر انٹرنیٹ پر دوسروں کو ہدف بنانے والے افراد اس کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
  • ڈوپامین: اس نیوروکیمیکل کا تعلق فوری فائدہ ملنے سے ہوتا ہے لیکن یہ ایک لت بھی ہے۔ اس کیمیکل کو ریلیز کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔
  • ایڈرینالین: یہ نیوروکیمیکل لڑائی اور اڑان جیسی سرگرمیوں میں ہمارے ردِعمل کو منظم کرتا ہے لیکن لائیکس، پوکس اور سوشل میڈیا پر موازنے سے بھی جاری ہوتا ہے۔
  • کورٹیسول: یہ نیوروکیمیکل دباؤ کا شکار، نیند سے محروم، بہت مصروف اور مضطرب افراد کی پہچان ہے۔

ڈاکٹر کانگ کہتی ہیں’مفید ٹیکنالوجی میں ہر وہ چیز شامل ہے جو دماغ کی افزائش کرنے والے سیراٹونن، اینڈورفن یا اوکسیٹاکسن کو جاری کرتی ہے۔‘ میڈیٹیشن ایپس، تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے والی ایپس اور لوگوں کے ساتھ پکے اور سچے تعلقات کوفروغ دینے والے ایپس اس کی مثالیں ہیں لیکن اگر آپ اس میں عادت کو پکا کرنے والے ڈوپامین کی اچھی مقدار ملائیں تو یہ آپ کو سوشل میڈیا کا عادی بنا دے گی۔ وہ کہتی ہیں کہ مثال کے طور پر ایک تخلیقی ایپ ہے اور آپ کا بچہ اس کا استعمال فلمیں بنانے کے لیے کرتا ہے۔ لیکن سوچیں اگر وہ اس ایپ کو 6 یا 7 گھنٹے استعمال کرنا شروع کر دے۔

یہ کینڈی کرش کی طرح جنک ٹیکنالوجی نہیں ہے جو صرف ڈوپامین جاری کرتی ہے لیکن پھر بھی آپ کو محتاط ہونا پڑے گا اور ایک حد کا تعین کرنا پڑے گا۔ اس کے برعکس ہم جنک ٹیکنالوجی کا استعمال صرف ’خود کو تباہ‘ کرنے کے لیے کرتے ہیں۔

وہ اس کا موازنہ جذباتی ہو کر جنک فوڈ کھانے سے کرتی ہیں کیونکہ ہم اسے ذہنی دباؤ میں آکر کرتے ہیں۔ہم مضرِ چیزوں کی فکر اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ہمیں اس میں ملنے والے فائدے میں مزا آتا ہے جیسے فحش مواد، سائبر غنڈہ گردی، جوا، سلاٹ مشین جیسی لت آور ویڈیو گیمز اور نفرت آمیز گفتگو۔‘

ڈاکٹر کانگ کا کہنا ہے کہ کسی بھی صحت مند ٹیکنالوجی ڈائیٹ میں زہریلی چیزوں سے دور رہنا چاہیے۔ لیکن اعتدال میں رہتے ہوئے تھوڑا سا لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔ ہم سب کو تلقین کی جاتی ہے کہ پراسیسڈ کھانا اور میٹھے مشروبات سے گریز کریں لیکن جمعہ کی شب بچوں کے ساتھ پیزا اور پوپ کارن کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اسی طرح کبھی کبھار بغیر سوچے سمجھے انسٹاگرام پر ا کرول کرنے یا ویڈیو گیمز کھیلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

ڈاکٹر کانگ کہتی ہیں کہ تاہم اگر آپ کو ذیابیطس ہے یا لاحق ہو سکتی ہے تو چینی کو لے کر آپکی طبی تجویز عام لوگوں سے قدرے سخت ہو گی۔ ٹیکنالوجی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ ایسے فرد ہیں جس کے خاندان میں کوئی شخص کسی چیز کا عادی رہا ہے یا اضطراب، ذہنی دباؤ کا شکار رہا ہے یا اسے وقت کی پابندی کرتے ہوئے دقت ہوئی ہے تو آپ کو خیال رکھنا پڑے گا کیونکہ آپ کی عادات کے زہریلی لت میں تبدیل ہونے کے امکانات خطرناک حد تک زیادہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں خاص طور پر بچے بہت غیر محفوظ ہوتے ہیں اور اتنی ریسرچ موجود ہے کہ آن لائن کسی مسئلے کا شکار بننے والے بچوں کا پہلے سے ہی پتہ چلایا جا سکے۔

دنیا میں انٹرنیٹ تک رسائی اور موبائل فون کا زندگیوں میں عمل دخل دن بدن بڑھ رہا ہے مگر آئے دن مسلسل ایک دوسرے سے جڑی زندگیوں کے خلاف مزاحمت دیکھنے میں آتی ہے۔ گلوبل ورلڈ انڈیکس کے مطابق امریکہ اور برطانیہ میں ہر 10 میں سے سات انٹرنیٹ صارفین نے ’ڈیجیٹل ڈائیٹنگ‘ یا ’مکمل ڈیجیٹل ڈیٹوکس‘ کیا ہے۔ یہ کسی سوشل میڈیا اکاؤنٹ بند کرنے سے لے کر ایپس ڈیلیٹ کر کے آن لائن گزارے جانے والے وقت کو بہت کم کر دینے پر مشتمل ہے۔

ڈاکٹر کانگ کہتی ہیں کہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے باقی تمام انسانی ضروریات پر بھی دھیان دینا چاہیے۔ ہمیں ہر رات کو آٹھ نو گھنٹے سونا چاہیے، ہمیں روزانہ دو تین گھنٹے اپنے جسم کو حرکت دینی چاہیے۔ ہمیں ورزش کرنی چاہیے، گھر سے باہر جانا چاہیے اور دھوپ سینکنی چاہیے۔ خواہ آپ سب سے بہتر ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہوں لیکن اگر آپ اسے انسانی سرگرمیوں کا متبادل سمجھ رہے ہیں تو سمجھ لیں کہ یہ حد سے زیادہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔