اعتکاف: اللہ کے لیے ضبط نفس، گوشۂ تنہائی میں سب سے کنارہ کشی اور علائق دنیا سے بے رغبتی کا عملی اظہار

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ’’اے ایمان والوں! روزے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تم پر بھی فرض کر دیئے گئے ہیں تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘‘۔

<div class="paragraphs"><p>اعتکاف میں عبادت کی فائل تصویر / Getty Images</p></div>

اعتکاف میں عبادت کی فائل تصویر / Getty Images

user

مدیحہ فصیح

رمضان المبارک خیر وبرکت، ہمدردی و اخوت کا مہینہ ہے۔ وہ ماہ مبارک ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ’’اے ایمان والوں! روزے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تم پر بھی فرض کر دیئے گئے ہیں تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘‘۔ 

رمضان المبارک کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اس کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے، درمیانہ عشرہ مغفرت کا ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات کا ہے۔ رمضان المبارک کو صبر اور غمخواری کا مہینہ قرار دیا ہے۔ دینی اصطلاحات میں صبر کے معنی اللہ کی رضا کے لئے اپنے نفس کی خواہشوں کو دبانا، تلخیوں اور ناگواریوں کو برداشت کرنا ہے۔ رمضان المبارک اپنی برکات اور سعادتوں کو سمیٹتے اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جو شخص توبہ کرلے اس کے صغیرہ گناہ معاف فرما دیئے جاتے ہیں اور وہ ایسے پاک ہوجاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے ابھی جنم دیا ہو۔


ایک روایت ہے کہ سرکار دوعالمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو مہینہ تم پر آیا اس میں ایک رات ایسی ہے کہ جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو شخص اس کی سعادت حاصل کرنے سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا۔ ( ابن ماجہ)

آپ حضور اکرمﷺرمضان المبارک کے آخری عشرہ کے لئے خصوسی اہتمام فرماتے۔ حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سرکار دوعالمﷺ کا یہ معمول تھا کہ جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپ اپنا تہبند کس کر باندھ لیتے راتوں کو ذکر الہی سے زندہ کرتے اور اپنے اہل و عیال کو بھی جگاتے۔ حضور اکرم ﷺ جتنا مجاہدہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں کرتے اتنا کسی اور عشرہ میں نہ کرتے۔( بخاری و مسلم)


اللہ کے لیے ضبط نفس، گوشۂ تنہائی میں سب سے کنارہ کشی اور علائق دنیا سے بے رغبتی کے عملی اظہار کا نام اعتکاف ہے۔ اعتکاف کا لفظی مطلب روکنا اور منع کرنا ہے۔ انسان اعتکاف میں اپنے آپ کو چند مخصوص باتوں سے روکتا ہے۔ اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ہوتا ہے۔ یعنی بیسویں روزے کی شام کو غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور عید کا چاند نظر آنے پر ختم ہو جاتا ہے۔ یہ سنت موٴکدہ علی الکفایہ ہے۔

اعتکاف کی حالت میں کیا کرنا چاہیے 

اعتکاف کی حالت میں یہی مناسب ہے کہ جو بھی نیک کام ہو وہ کریں، مثلاً نوافل پڑھیں، قرآن حکیم کی تلاوت کریں، درود شریف کثرت سے پڑھیں اور اچھی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ اور جو حضرات اس کے اہل ہیں ان کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ روزانہ کم ازکم ایک پارہ تلاوت کریں پھر اسی پارے کی تفسیر اور ترجمہ کا مطالعہ کریں۔ جب ہم حضور اکرم ﷺ کی احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اعتکاف کے بڑے فضائل معلوم ہوتے ہیں جس سے ہمیں اعتکاف کی اہمیت معلوم ہوتی ہے، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے جب پردہ فرمایا تو ازواج مطہرات امہات الموٴمنین اعتکاف فرماتی رہیں۔


ایک اور موقع پر ارشاد نبویﷺ ہوا، آپؐ نے فرمایا جو شخص ایک دن بھی اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے اعتکاف کرتا ہے۔ تو اللہ اس شخص کے اور دوزخ کے درمیان تین ایسی خندقوں کے برابر دیوار قائم فرما دیتے ہیں جن خندقوں کا فاصلہ زمین و آسمان کے فاصلہ سے بھی زیادہ ہے۔ 

علاوہ ازیں بہت سے ایسے کام ہیں جنہیں انسان مسجد سے باہر جاکر کرتا ہے تو اسے ثواب ملتا ہے لیکن اعتکاف کی حالت میں وہ کام نہیں کر سکتا، مثلاً نہ کسی کی عیادت کے لیے جا سکتا ہے، نہ کسی جنازے کے ساتھ جا سکتا ہے، نہ کسی کی خیر خواہی وغیرہ کے لیے جا سکتا ہے۔


”حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اعتکاف کرنے والے کے حق میں یہ فرمایا کہ وہ گناہوں سے بچا رہتا ہے اور نیکیاں اس کے لیے جاری کی جاتی ہیں ایسی نیکیاں جیسی کہ عام طور پر نیکیاں کرنے والے ہر قسم کی نیکیاں کرتے ہیں۔“ (ابن ماجہ)۔ 

مرد کے اعتکاف کا طریقہ

مرد کے اعتکاف کا طریقہ یہ ہے کہ بیسویں روزے کی شام کو مغرب سے پہلے مسجد میں داخل ہو اور پھر عید کا چاند نظر آنے پر مسجد سے باہر نکلے۔ اس دوران کھانا، پینا، سونا جاگنا، پڑھنا لکھنا سب کچھ مسجد کے اندر رہ کر کرے گا۔ البتہ ضروری حاجت کے لیے مسجد سے باہر نکل سکتا ہے۔ اگر بغیر عذر کے ایک لمحہ کے لیے بھی باہر نکلا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔


عورت کے اعتکاف کا طریقہ

عورت کے اعتکاف کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے گھر کے کسی کمرہ میں یا کسی کمرہ کے ایک مخصوص کونے میں ٹھہر جائے وہیں کھائے پیے، وہیں سوئے۔ صرف ضروری حاجت کے لیے اپنی جگہ سے باہر جا سکتی ہے۔ اعتکاف کی حالت میں بالکل خاموش ہو جانا اور خاموشی کو عبادت سمجھنا مکروہ ہے لیکن فضول باتیں کرنا بھی مکروہ ہے۔ بس دین کی باتیں کرنے کی اجازت ہے۔  اللہ تعالیٰ ہمیں تعلیمات قرآنی و سنت نبویﷺ پر پورے طریق سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔