بابری مسجد معاملہ: ہنگامہ کر رہے ہندو فریقین کے وکلاء کو عدالت نے باہر نکالا

مولانا ارشد مدنی مدنی نے کہا کہ اگرسپریم کورٹ جیسی عدالت کے اندریہ وکلاء اس طرح ہنگامہ آرائی کرسکتے ہیں تو پھر سمجھا جاسکتا ہے کہ عدالت کے باہر یہ لوگ کیا کچھ نہیں کرسکتے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: بابری مسجد-رام جنم بھومی ملکیت کے مقدمہ میں سپریم کورٹ میں آج دو بجے جیسے ہی بحث شروع ہوئی ہندوفریقین کے وکلاء نے جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیودھون کے ہندو طالبان والے ریمارکس پر ہنگامہ کھڑا کردیا اور مطالبہ کیا کہ وہ اپنا بیان واپس لیں، جس پر ڈاکٹر راجیو دھون نے کہا کہ وہ اپنا بیان ہرگز واپس نہیں لیں گے۔

واضح رہے کہ پچھلی سماعت کے دوران ڈاکٹر راجیودھون نے بحث کے دوران کہا تھا کہ جس طرح طالبان نے افغانستان میں بودھ مجسموں کو توڑا تھا ٹھیک اسی طرح ہندوطالبان نے اجودھیا میں مسجد کو شہید کیا، ہندوفریقین کے وکلاء کو اس پرشدید اعتراض تھا وہ چاہتے تھے کہ عدالت ڈاکٹر راجیودھون کو اپنا بیان واپس لینے کی ہدایت کرے اس پر ڈاکٹر راجیودھون نے کہا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں اور آئندہ بھی قائم رہیں گے، ہر چند کے عدالت نے ہنگامہ کررہے وکلاء کو خاموش ہوجانے کی ہدایت کی لیکن تقریباً 20 منٹ تک شورشرابہ جاری رہا بعد ازاں عدالت نے ڈاکٹر راجیودھون کو اپنی بحث مکمل کرنے کی ہدایت دی، ہندوفریقین کی طرف سے سینئر وکیل ویداناتھن اور دیگر لوگوں نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ ڈاکٹر راجیودھون کو انتباہ کریں اس پر عدالت نے ڈاکٹر راجیودھون سے کہا کہ وہ عدالت کی عظمت کا خیال رکھے اور ایسے لفظ کا استعمال کرنے سے گریز کریں جس سے کسی کی دلآزاری ہو، اس پر بھی جب ان وکلاء نے اپنا ہنگامہ جاری رکھا تو چیف جسٹس نے سیکورٹی اہل کاروں کو حکم دیا کہ وہ انہیں عدالت سے باہر نکال دیں۔

جمعیۃ علماء ہند کے لیڈ میٹر سول سماعت پٹیشن نمبر 10866-10867/2010 (محمد صدیق جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء اتر پردیش ) میں پیش ہوئے ڈاکٹر راجیودھون نے ایک بار پھر کہا کہ 6دسمبر کا واقعہ ویساہی ہے جیسا کہ طالبان نے افغانستان میں کیا تھا انہوں نے کہا کہ وہ اپنے بیان پر آج بھی قائم ہیں ، انہوں نے مزید کہا کہ پہلے مسجد شہید کی گئی اور اب یہ کہا جارہا ہے کہ مسلمان مسجد میں نماز ادانہیں کرسکتا، یہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے ، ڈاکٹر راجیودھون نے آج اپنی بحث میں مقدمہ کو ایک بار پھر کثیر رکنی بینچ کے حوالہ کئے جانے کے تعلق سے دلائل کے ساتھ اصرار کیا عدالت نے اس پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ا س مقدمہ میں گزشتہ سال 5دسمبر سے سماعت کاآغاز ہوا تھا بعد میں اس نکتہ پر بحث کا آغاز ہوا کہ معاملہ کو ایک کثیر رکنی بنچ کے حوالہ کیا جانا چاہئے اس پر آج بحث مکمل ہوگئی اور عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ، مسلم فریقین کے وکلاء کے طرف سے جہاں اس کے حق میں بحثیں ہوئیں وہی ہندوفریقین کے وکلاء روز اول سے اس کی مخالفت کررہے ہیں ، آج اپنی بحث کے دوران ڈاکٹر راجیودھون نے عدالت کو بتایا کہ ہندوفریقین کی نمائندگی کرنے والے وکلاء اور خاص طور پر سینئر ایڈوکیٹ شری پرسنناکا یہ کہنا کہ لیگل ٹرم’’ ریس جوڈیکاٹا‘‘ کے تحت ایک ہی ایشو کو باربار نہیں اٹھایا جاسکتا ، قطعاً غلط ہے کیونکہ موجودہ مقدمہ میں انہیں نکات کو اٹھایا گیا ہے جنہیں پہلے نہیں اٹھایا گیاتھا ، ساتھ ہی اسماعیل فاروقی فیصلہ میں ہوئی غلطیوں کو بھی عدالت کے سامنے پہلی بار پیش کیا گیا ہے ۔ڈاکٹر راجیو دھون نے کہا 1526 سے 1992 تک مسجد تھی جسے6 دسمبر کو مسمار کردیا گیا ۔کیا مندر تھا وہاں پر ؟ مندر نہیں تھا بلکہ ہندوؤں کو پوجا کرنے کی اجازت دی گئی تھی ۔ڈاکٹر راجیو دھون کی بحث کے بعد چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرانے جمعیۃ علماء کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کو حکم دیا کہ وہ ڈاکٹرر اجیو دھون اور ایڈوکیٹ راجو رام چندرن اور دیگر کی جانب سے کی گئی بحث کے دوران داخل کیے گئے دستاویزات تیار کرکے عدالت میں جمع کرائیں جس پر ایڈوکیٹ اعجاز مقبول نے کہا کہ وہ پیر تک عدالت میں تمام دستاویزات جمع کرادیں گے۔ہندوفریقین کے وکلاء نے چیف جسٹس سے کہا کہ وہ اپنا فیصلہ جلد از جلد صادر کریں جس پر ڈاکٹر راجیو دھون نے کہا کہ وہ چیف جسٹس کے ساتھ ہیں،عدالت اپنی سہولت سے فیصلہ صادر کرسکتی ہے۔

جمعیۃعلماء ہند کے صدر مولانا سید ارشدمدنی نے آج کی پیش رفت پر اپنے ردعمل کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب تک ہمارے وکلاء اور خاص طور پر ڈاکٹر راجیودھون نے جو بحث کی ہم اس سے پوری طرح مطمئن ہیں ہمارے وکلاء نے پوری تیاری کے ساتھ بحث کی ہے انہوں نے کہا کہ عدالت نے آج اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تاہم ہمیں امیدہے کہ فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا اور اس مقدمہ کو ایک کثیر رکنی بنچ کے حوالہ کردیا جائے گا ، ڈاکٹر راجیودھون کے گزشتہ سماعت کے دوران کئے گئے ایک ریمارکس کو لیکر آج عدالت میں جو کچھ ہوا اس پر مولانا مدنی نے سخت افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ آج عدالت میں فریق مخالف کے وکلاء نے جس طرح ہنگامہ آرائی کی یہاں تک کے انہوں نے عدالت کے احترام کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا اور عدالت کے باربارکہنے پر بھی خاموش نہیں ہوئے ، جس پر مجبورہوکر چیف جسٹس کو انہیں عدالت سے زبردستی باہر نکلوانا پڑا ، ایک افسوناک واقعہ ہے، جس کی ہم سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں جس طرح ان لوگوں نے ہنگامہ کیا وہ یہ بتاتا ہے کہ یہ سب ایک طے شدہ منصوبہ اور حکمت عملی کا حصہ ہے مولانا مدنی نے کہا کہ اگرسپریم کورٹ جیسی عدالت کے اندریہ وکلاء اس طرح ہنگامہ آرائی کرسکتے ہیں تو پھر سمجھا جاسکتا ہے کہ عدالت کے باہر یہ لوگ کیا کچھ نہیں کرسکتے ؟ ۔

بابری مسجد -رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ کی سپریم کورٹ میں گذشتہ سال5 دسمبر سے چلنے والی سماعت کاآج بالآخیر اختتام عمل میں آیا ۔جس کے بعد چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی تین رکنی بنچ نے جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون اور مسلم فریقین کے دیگر وکلاء کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا جس میں انہو ں نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ معاملے کی نوعیت اور سنگینی کے مد نظر اس کی سماعت کثیر رکنی بنچ کے ذریعہ کرائی جائے۔

قابل ذکر ہے کہ گذشتہ 8؍ماہ سے چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا کی سربراہی والی اس تین رکنی بنچ میں جسٹس عبدالنظر اور جسٹس بھوشن شامل ہیں بنچ کے روبرو جاری جمعیۃ علماء کے وکلاء ڈاکٹر راجیو دھون اور ان کی معاونت کرنے والے سینئر وکیل راجو رام چندرن کی بحث کا آج اختتام عمل میں آیا تھا جس کے بعد عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ۔بابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لےکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت پٹیشن نمبر 10866-10867/2010 پر بحث میں سینئر وکلاء کی معاونت کے لیے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ جارج، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے ، ایڈوکیٹ قرۃ العین، ایڈوکیٹ واصف رحمن خان،ایڈوکیٹ مجاہد احمد، ایڈوکیٹ زین مقبول، ایڈوکیٹ ایوانی مقبول،ایڈوکیٹ کنور ادتیہ، ایڈوکیٹ ہمسینی شنکر، ایڈوکیٹ پریانشی جیسوال و دیگر موجود تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 Jul 2018, 6:15 PM