داعش مقدمہ: سپریم کورٹ کے ذریعہ سماعت جلد از جلد مکمل کرنے کا احکام جاری

ملزم اریب مجید کی ضمانت پر رہائی کے لیے درخواست داخل کی گئی تھی جس پر وکیل کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے بجائے ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کے ذیلی عدالت کو دیا کہ معاملے کی سماعت جلد مکمل کرے۔

سپریم کورٹ کی فائل تصویر 
سپریم کورٹ کی فائل تصویر
user

پریس ریلیز

ممبئی: ممنو ع تنظیم داعش کے رکن ہونے اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت کلیان کے ساکن اریب مجید کی ضمانت عرضداشت پر آج سپریم کورٹ آ ف انڈیا میں سماعت کی گئی۔ سماعت کے دوران ایک جانب جہاں عدالت عظمیٰ نے ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے سے انکار کردیا ، وہیں ذیلی عدالت کو حکم دیا کہ وہ مقدمہ کی جلد از جلد سماعت مکمل کرے۔ یہ اطلاع ملزم کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) کی قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے دی ۔

گلزار اعظمی نے بتایا کہ ممبئی ہائی کورٹ کی جانب سے ملزم اریب مجید کی ضمانت عرضداشت مسترد کیئے جانے کے بعد ایڈوکیٹ آن ریکارڈ فروخ رشید کے ذریعہ ضمانت عرضداشت سپریم کورٹ میں داخل کی گئی تھی ۔ سماعت کے دوران جمعیۃ علماء کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ حذیفہ احمد ی نے عدالت میں اپنے دلائل پیش کیے لیکن عدالت نے بجائے ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کے نچلی عدالت کو حکم دیا کہ معاملے کی سماعت جلد از جلد مکمل کرے۔

ایڈوکیٹ حذیفہ احمدی نے جسٹس ارون مشراء اور جسٹس عبدالنظیر کو بتایا کہ ملزم کو داعش تنظیم کا رکن بتایا گیا ہے جبکہ ملزم کی گرفتاری کے وقت داعش تنظیم پر ہندوستان میں پابندی عائد نہیں کی گئی تھی بلکہ ملزم کی گرفتاری کے تین ماہ بعد مرکزی حکومت نے17 فروری 2015ء کو نوٹیفکیشن جاری کر کے داعش تنظیم کو ہندوستان میں ممنوع قرار دیا تھا جبکہ ملزم کی گرفتاری 28 نومبر 2014ء کو عمل میں آئی تھی۔ لہٰذا ملزم کی گرفتاری ہی غیر قانونی ہے جس کاسپریم کورٹ کو نوٹس لینا چاہیے۔

ایڈوکیٹ حذیفہ احمدی نے عدالت کو مزید بتایا کہ استغاثہ نے ممبئی ہائی کورٹ میں اس بات کا دعوی کیا تھا کہ مقدمہ کی سماعت شروع ہوچکی ہے، لہٰذا ملزم کو ضمانت پررہا نہیں کیا جانا چاہئے۔ جبکہ حقیقت میں ایک سال سے زائد کا عرصہ گذر جانے کے باجود ابھی تک صرف 3 سرکاری گواہوں نے اپنے بیانات کا اندراج خصوصی عدالت میں کرایا ہے جبکہ قومی تفتیشی ایجنسی NIA نے اس معاملے میں ملزم اریب مجید کے خلاف گواہی دینے کے لیے 147 سرکاری گواہوں کو نامزد کیا ہے ۔

سپریم کورٹ نے دفاعی وکیل کے دلائل کی سماعت کے بعد کہا کہ اس معاملے میں بیرونی ممالک کے معاملات بھی جڑے ہوئے ہیں لہذا بجائے ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کے وہ نچلی عدالت کو حکم دیتے ہیں کہ وہ مقدمہ کی جلد از جلد سماعت کرے، نیز اگر مقدمہ کی سماعت مکمل ہونے میں تاخیر ہوتی ہے تو ملزم دوبارہ عدالت عظمی سے رجوع کر سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔