سرسید کی تعلیمات کو ہر وقت سینے سے لگائے رکھیں: پروفیسر ابن کنول

تصویر پریس ریلیز
تصویر پریس ریلیز
user

پریس ریلیز

شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی میں سرسید کی ولادت کے دو سو سال مکمل ہونے پر ایک سمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں پروفیسر ابن کنول صدر شعبۂ اردو نے اپنے صدارتی خطاب میں سرسید کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج مسلمانوں میں جو تعلیمی بیداری ہے وہ سرسید ہی کی مرہون منت ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں ہزاروں لاکھوں لوگ پیدا ہوتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ان کا کوئی نام لیوا نہیں ہوتا ہے مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے کارناموں کی وجہ سے زند ہ و جاوید ہوجاتے ہیںانہی شخصیات میں ایک سرسید بھی تھے۔ انہوں نے ملک وقوم کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ سرسید اپنے مشن میں ہندومسلم کی تفریق کے قائل نہ تھے۔ وہ دونوں قوموں کی ترقی چاہتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرسید کو یاد کرنے کے لیے ان کی ولادت اور وفات کی تاریخوں کی ضرورت نہیں ہے ہمیں ہر وقت ان کے ارشادات وفرمودات کو سینے سے لگائے رکھنا چاہئے۔ آپ نے جواہر لعل نہرو کے حوالے سے کہا کہ اگر سرسید نہ ہوتے تو ہندوستانی مسلمان تعلیم میں پچاس سال پیچھے ہوتے۔

سرسید کی تعلیمات کو ہر وقت سینے سے لگائے رکھیں: پروفیسر ابن کنول

اس موقع پر ڈاکٹر علی جاوید نے اپنی تقریر میں شخصیات کے ذکر میں اعتدال کا رویہ اپنانے پر زور دیتے ہوئے کہا ہمیں ان کو داستان کے ہیرو کی طرح نہیں پیش کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اردو ادب میں سرسیدایک نثر نگار کے طور پر ہمیشہ زندہ وجاوید رہیں گے۔ داکٹر مشتاق احمد قادری نے کہا کہ سرسید نے خود کو قوم وملت کے لیے وقف کردیا تھا۔ ان کی جلائی ہوئی شمع آج پورے ملک خصوصاً کشمیر کے کونے کونے میں روشن ہے۔ ڈاکٹر محمد کاظم نے سرسید کے خطوط کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان میں ادبی چاشنی پائی جاتی ہے۔ ان خطوط کو بھی غالب کے خطوط کے ساتھ پڑھایا جانے چاہئے۔ ڈاکٹر احمد امتیاز نے اپنے مقالہ میں سرسید کی خدمات پر روشنی ڈالی اور ان کے مشن کو آگے بڑھانے پر زور دیا۔ ڈاکٹر شہلا نواب نے اپنے مقالہ میں سرسید کے مختلف نظریات پر روشنی ڈالی ۔ ڈاکٹر شاذیہ عمیر نے عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں سرسید پر کیے گیے اعتراضات کا جواب دیا۔ اس سلسلے میں انہوں سرسید کی مختلف تحریروں کے حوالے سے سرسید کے تعلیمی نظریات کو واضح کیا۔ اس موقع پر شعبۂ اردو کے ریسرچ اسکالر محمد شاداب شمیم نے ’مکاتیب سرسید میں تایخی وتہذیبی عناصر‘؛ امیر حمزہ نے ’تہذیب الاخلاق ملت کا اکسیر‘ اور علی ریحان ترابی نے ’سرسید کے اردو نثر کا تنقیدی مطالعہ‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالے پیش کیے۔ پروگرام کا اختتام ترانۂ علی گڑھ پر ہوا جس کو ڈاکٹر دانش حسین خان نے پیش کیا۔ پروگرام میں ڈاکٹر ابو بکر عباد، ڈاکٹر ارشاد نیازی، ڈاکٹر علی احمد ادریسی اور ڈاکٹر سرفراز جاوید کے علاوہ طلبا اور ریسرچ اسکالرس کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 25 Oct 2017, 9:59 PM