جمعیۃ علماء ہند نے مولانا محمود مدنی کے حوالہ سے بعض اخبارات میں شائع خبر کو بتایا غلط
مولانا مدنی نے کہا کہ جہاں تک مسجدوں کا معاملہ ہے تو اصل حقیقت یہ ہے کہ گیان واپی اور متھرا وغیرہ جیسے معاملات میں فیصلہ کن اختیار متعلقہ مسجد کمیٹیوں کا ہے۔

نئی دہلی: ٹی وی نیوز ایجنسی اے این آئی کے حوالے سے بعض اخبارات میں یہ خبر شائع کی گئی ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’گیان واپی مسجد یا متھرا کے سلسلے میں دونوں کمیونٹی کے لوگ آپس میں بیٹھ کر بات کریں۔‘‘ یہ خبر سراسر بے بنیاد اور غلط ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے اس خبر کی مکمل طور پر تردید کی ہے۔
جمعیۃ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مولانا مدنی نے اپنے پورے انٹرویو میں نہ تو ایسا کوئی بیان دیا ہے اور نہ ہی اس تعلق سے کوئی سوال یا جواب آیا ہے۔ مولانا مدنی نے دوران انٹرویو ایک سوال کے جواب میں آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت جی کی طرف سے دو کمیونٹیز کے مابین اچھے اور خوشگوار روابط اور باہمی رشتوں کو استوار کرنے کے لیے ڈائیلاگ سے متعلق کسی بھی پیش رفت کی تحسین کی ہے۔ مولانا مدنی نے اس تناظر میں 2023 میں منعقد جمعیۃ علماء ہند کے 34ویں اجلاس عام کے خطبہ صدارت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہماری جماعت نے اس سے متعلق پہلے ہی تجویز منظوری کی تھی جس میں باہمی گفت و شنید کو ہی تمام مسائل کا حل بتایا تھا اور آرایس ایس کے سرسنگھ چالک اور ان کے متبعین کو گرم جوشی کے ساتھ دعوت دی گئی تھی کہ آئیے آپسی تفریق اور بغض و عناد کو بھول کر ایک دوسرے کو گلے لگائیں۔
مولانا مدنی نے کہا کہ جہاں تک مسجدوں کا معاملہ ہے تو اصل حقیقت یہ ہے کہ گیانواپی اور متھرا وغیرہ جیسے معاملات میں فیصلہ کن اختیار متعلقہ مسجد کمیٹیوں کا ہے، جو ان مقدمات میں شرعی اور قانونی طور پر فریق ہیں اور وہ شرعی حد میں رہتے ہوئے کسی سے ڈائیلاگ کا حق رکھتی ہیں۔ جہاں تک متھرا تنازعہ کا تعلق ہے، وہاں 1968 میں باضابطہ طور پر عدالت کی نگرانی میں شاہی عیدگاہ کمیٹی اور شری کرشن جنم استھان سیوا سنگھ کے درمیان تصفیہ پر مبنی معاہدہ ہو چکا ہے۔ اس لیے وہاں کوئی حقیقی تنازع نہیں ہے اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔