ہندوستانی مسلمان ذات پر مبنی مردم شماری میں جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیں: مولانا ارشد قاسمی میل کھیڑلا
’آل انڈیا میواتی ذات پر مبنی مردم شماری بیداری مہم‘ کے عنوان پر عمائدین قوم کی ایک اہم میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ میں دہلی، ہریانہ اور راجستھان کے علماء سمیت سرکردہ سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔

تحریک کے صدر و قائد مولانا ارشد قاسمی میل کھیڑلا اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے
17 جولائی کو فیروز پور جھرکہ تحصیل میں واقع مدرسہ جامعۃ الشيخ محمد قاسم میں آل انڈیا ذات پر مبنی مردم شماری بیداری مہم کمیٹی کے سرکردہ افراد کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اس میٹنگ میں دہلی، ہریانہ اور راجستھان کے علماء سمیت سیاسی اور سماجی سرکردہ شخصیات و عمائدین قوم نے شرکت کی۔ یہ اجلاس مولانا ارشد میل کھیڑلا کی صدارت میں منعقد ہوا۔
اس اجلاس میں حکومت کی طرف سے کرائی جا رہی ذات پر مبنی مردم شماری کا خیر مقدم کرتے ہوئے مولانا ارشد میل کھیڑلا نے کہا کہ ذات پر مبنی مردم شماری ہر ہندوستانی کا حق ہے۔ اگرچہ حکومت کا یہ فیصلہ دیر سے ہی صحیح لیکن ملک کے غریبوں اور مظلوموں کی مدد کرنے والا ہے۔ انہوں نے ملک بھر کے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اگلے سال یعنی یکم اپریل 2026 سے شروع ہونے والی ذات پر مبنی مردم شماری میں جوش و خروش سے حصہ لیں۔ انھوں نے کہا کہ ’آل انڈیا میواتی ذات مردم شماری بیداری کمیٹی‘ ملک بھر میں ایک مہم چلائے گی تاکہ مسلمانوں کو ذات پات پر مبنی مردم شماری میں حصہ لینے کے لیے قبل از وقت بیدار کر سکے۔ مولانا ارشد نے کہا کہ اس مہم کو مکمل کرنے کے لیے میوات اور دیگر ریاستوں سے 21 اراکین کی ٹیم تشکیل دی گئی ہے، جو ملک کے مختلف حصوں میں رہنے والے میو اور دیگر مسلم کمیونٹیز کو ذات کی مردم شماری میں حصہ لینے کے لیے آگاہ کرے گی۔
اس موقع پر سابق وزیر اور نوح کے ایم ایل اے آفتاب احمد نے بیداری کمیٹی کے ذمہ دار علمائے کرام کے اس قدم کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ کام ملک میں بسنے والے تمام مسلمانوں کی تعمیر و ترقی کے لیے سنگ میل ثابت ہوگا۔ وہ تمام مسلمان جو ذات پات کی مردم شماری میں حصہ لیں گے ان کی آنے والی نسلوں کو فائدہ پہنچے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اپوزیشن نے ذات پر مبنی مردم شماری کا مسئلہ زور سے اٹھایا تھا، جس کے بعد مرکزی حکومت نے ذات پات کی مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیٹی انہیں جو بھی ڈیوٹی سونپے گی وہ ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

اس موقع پر کمیٹی ممبر ریٹائرڈ منیجر شفاعت خان الوری نے ذات پات کی مردم شماری کے حوالے سے اہم معلومات دیتے ہوئے کہا کہ اپریل 2026 میں شروع ہونے والی ذات کی مردم شماری 2027 میں مکمل ہو جائے گی۔ اس بار یہ مردم شماری مکمل طور پر ڈیجیٹل یعنی آن لائن ہوگی۔ جس میں شہری خود بھی معلومات بھر سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 2011 میں کی گئی مردم شماری میں بہت سی خامیاں تھیں جنہیں مرکزی حکومت اس بار دہرانا نہیں چاہتی۔ پچھلی مردم شماری میں ذاتوں کی کوئی فہرست نہیں بنائی گئی، جس نے ذات بتائی اس کا ریکارڈ رکھا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں 46 لاکھ سے زیادہ ذاتیں رجسٹرڈ ہوئیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہماری خصوصی توجہ اس بات پر ہے کہ ملک بھر میں مسلمانوں کی ذات پات کی مردم شماری کو صحیح طریقے سے مکمل کیا جائے۔ یہ کمیٹی اس مقصد کے ساتھ کام کر رہی ہے کہ جس برادری اور ذات سے لوگ تعلق رکھتے ہیں ان کا صحیح طریقے سے ریکارڈنگ کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ذات پات کی مردم شماری کے پچھلے فارمیٹ میں میو ذات کے ہندی اور انگریزی کالموں میں خرابی تھی جس کی وجہ سے ذات کا صحیح طور پر ذکر نہیں کیا جا سکا۔ ہم اس موضوع پر جمعیۃ علماء ہند اور مسلم پرسنل لا بورڈ سے بات چیت کر رہے ہیں کہ ذات پات کے کالم کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت سے درخواست کی جائے کہ مذہب کے کالم میں مسلمانوں کی جگہ اسلام کو شامل کیا جائے۔
شفاعت خان نے بتایا کہ اس بار ذات کی مردم شماری میں حکومت عام لوگوں کو یہ اختیار دینے جا رہی ہے کہ وہ 1931 کی ہنٹن رپورٹ کی ذات پات کی فہرست کی بنیاد پر اپنی ذات کا اظہار کر سکیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو 26 جنوری 1950 کی ایس سی اور ایس ٹی کی فہرست کو مسلم طبقہ سے بحال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ریزرویشن کے فوائد کا انحصار حکومت کی نیت پر ہوگا۔
اس جلسہ کی کی نظامت مفتی سلیم احمد ساکرس نے کی۔ اہم شرکاء میں مولانا ارشد قاسمی میل کھیڑلا، شیخ الحدیث مولانا راشد، شیخ الحدیث مفتی زاہد حسین، مولانا یحییٰ کریمی، مولانا حکیم الدین، مولانا حنیف الوری، مولانا شیر محمد امینی، منیجر شفاعت، مفتی سلیم، مولانا شیر محمد تاؤڑو، مولانا محمد صابر قاسمی، مولانا دلشاد قاسمی، ایم ایل اے آفتاب احمد، عمر محمد پاڈلا، ابراہیم بیسرو، عارف پردھان، مفتی رضوان، مولانا آزاد، رشید میو، اسلم گوروال، قاسم میواتی، ماسٹر قاسم مہوں، مینیجر شاہود بادلی، ایڈوکیٹ یوسف باگھوڑیا، حاجی عثمان بھادس وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔