’ایودھیا میں ہندو طالبان نے بابری مسجد کو جبراً شہید کیا‘

عدالت میں بابری مسجد معاملے کی سماعت کے دوران جمعیۃ علماء ہند کے وکیل نے کہا کہ ’’جس طرح افغانستان میں طالبان کے ذریعہ مہاتما بودھ کے مجسمے کو جبراً توڑا گیا تھا اسی طرح ہندوطالبان نے بابری مسجد توڑا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

پریس ریلیز

نئی دہلی: آج سپریم کورٹ میں بابری مسجد ملکیت کا مقدمہ پیش ہوا تو چیف جسٹس آف انڈیا کی ہدایت کے مطابق جمعیۃعلماء ہند کے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیو دھون ہندوفریقین کی بحث کا جواب دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو سب سے پہلے انہوں نے یہ کہا کہ ججوں نے پچھلی سماعت پر مجھ سے میراعقیدہ پوچھاتھا اور آج میرے ایک مسلمان وکیل دوست نے کہا کہ آپ آدھے مسلمان ہیں اور ہمارے ہندو دوست وکیل سوچتے ہیں کہ میں آدھا ہندوبھی نہیں ہوں۔ لیکن جج صاحب ہندوستانی آئین ہی ہمارا عقیدہ اور مذہب ہے۔ انہوں نے کسی لاگ لپیٹ کے بغیر کہا کہ ’’جس طرح افغانستان کے شہر بامیان میں طالبان کے ذریعہ مہاتما بودھ کے قدیم مجسمے اور دیگر مجسموں کو جبراً توڑا گیا تھا ٹھیک اسی طرح اجودھیا میں ہندوطالبان نے بابری مسجد کو جبراشہید کیا ۔‘‘

ڈاکٹر راجیو دھون نے نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس معاملہ میں شیعہ سینٹرل وقف بورڈ کو بولنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ بابری مسجد سنی وقف بورڈ کی ہے جس کا فیصلہ 1946میں ہوچکا ہے ۔ اترپردیش حکومت کی جانب سے گزشتہ سماعت میں ایڈیشنل سالیسٹر جنرل تشار مہتا نہ صرف عدالت میں پیش ہوئے تھے بلکہ انہوں نے بحث میں حصہ بھی لیا تھا ۔ ڈاکٹر راجیودھون نے آج اس پر اپنا احتجاج درج کراتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ’’بابری مسجد کی شہادت کے بعد حکومت اترپردیش نے اس معاملہ میں غیر جانب دار رہنے کا عندیہ دیا تھا لیکن اب حکومت اپنے اس وعدے سے پلٹ گئی ہے جس کا واضح ثبوت ایڈیشنل سالیسٹر جنرل تشار مہتاکی گزشتہ سماعت کے دوران کی کی گئی وہ بحث ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مسلم فریقین کا یہ مطالبہ کہ معاملہ کی سماعت ایک کثیر رکنی بنچ کرے، غیر ضروری ہے۔‘‘

واضح رہے کہ گذشتہ سماعت پر ایڈیشنل سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے اتر پردیشن حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے مسلم فریقین کی جانب سے ڈاکٹر اسماعیل فاروقی فیصلہ سمیت دیگر موضوعات پر اٹھائے جانے والے سوالات پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسماعیل فاروقی کا فیصلہ جس وقت آیا تھا اس وقت یہ فریقین کہاں تھے جو اب اس پر نظر ثانی کی درخواست کررہے ہیں۔ نیز ایڈوکیٹ تشار مہتا نے بابری مسجد رام جنم بھومی مقدمہ کی سماعت تین رکنی بنچ کے ذریعہ ہی کرائے جانے پر اصرارکیا تھا، اور یہ بھی کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس قدیم مقدمہ کا فیصلہ کیا جائے۔

اس دلیل کا مدلل جواب دیتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیودھون نے عدالت کو بتایا کہ ایڈوکیٹ کا یہ کہنا کہ اسماعیل فاروقی کے فیصلہ پر اب اعتراض کیوں کیا جارہا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ فیصلہ آنے کے بعدایسا کوئی موقع پڑا ہی نہیں کہ اس پر بحث کی جائے ۔ آج جبکہ سپریم کورٹ بابری مسجد معاملے کی سماعت کررہی ہے، اس موضوع پر بحث کرنا نہایت ضروری ہے۔ راجیو دھون نے حکومت اترپردیش کے موقف پر ہی سوال کھڑے کئے اور عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں حکومت فریق ہی نہیں ہے۔ لہذا ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کی کوئی بھی بحث قابل قبول نہیں ہوسکتی ہے۔اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے ڈاکٹر راجیودھون نے کہا کہ شیعہ سینٹرل وقف بورڈ کا یہ کہنا کہ وہ اپنا حصہ ہندوؤں کو دینے کے لئے تیارہے، مضحکہ خیز ہے کیونکہ اس میں (بابری مسجد آراضی )ان کا کوئی حصہ ہے ہی نہیں ۔

ڈاکٹر راجیو دھون نے ہندو فریقین کی جانب سے بحث کرنے والے وکلاء پی این مشراء، سی ایس ویدناتھن، سشیل کمار جین اورسینئر وکیل پراسارن ویگر کے دلائل پر تفصیل سے عدالت کو بتایا کہ بابری مسجد رام جنم بھومی مقدمہ کوئی عام مقدمہ نہیں جیسا کہ ہندو فریقین نے عدالت کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ اسماعیل فاروقی فیصلہ کا الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ دیئے گئے فیصلہ پر بہت اثر پڑا ہے جس کا خمیازہ مسلم فریقین کو بھگتنا پڑا ہے۔

واضح ہو کہ آج بھی شیعہ وقف بورڈ اور دیگر ہندوفریقین نے معاملہ کی سماعت کثیر رکنی بنچ کے ذریعہ کرائے جانے کی مخالفت کی جس کے جواب میں ڈاکٹر راجیودھون نے مدلل بحث کی اور عدالت کو یہ قائل کرنے کی کوشش کی کہ معاملہ کو کثیر رکنی بنچ کے حوالے کیا جانا کیوں ضروری ہے ۔قابل ذکر ہے کہ ہندوفریقین کی جانب سے وکلاء کی سربراہی سینئر وکیل پراسارن کررہے ہیں۔ جبکہ شیعہ وقف بورڈ کی نمائندگی سینئر ایڈوکیٹ سنگھ نے کی۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے آج کی قانونی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے وکلاء پوری تیاری اور محنت سے مقدمہ لڑرہے ہیں اور میں ان کی اس رائے سے پوری طرح متفق ہوں کہ مقدمہ کی حساسیت اور اہمیت کو دیکھتے ہوئے اس کی سماعت ایک کثیر رکنی بنچ کے حوالہ کی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اہم مقدمہ ہے اور الہ آباد ہائی کورٹ میں ایک سہ رکنی بنچ پہلے ہی اس کی سماعت کرچکی ہے۔ لہذا سپریم کورٹ میں اس کی سماعت ایک کثیر رکنی بنچ کے ذریعہ ہی کرائی جانی چاہئے۔ مولانا مدنی نے ایک بار پھر کہا کہ ہمیں امید ہے کہ فاضل عدالت معاملہ کے تمام پہلوؤں کا مفصل جائزہ لے کر ثبوت و شواہد کی بنیادپر اپنا فیصلہ دے گی۔

ڈاکٹر راجیودھون نے کہا کہ ہندوفریقین کا یہ کہنا ہے کہ اب جبکہ مسجد شہید ہوگئی ہے تو اب ہمیں اس سے آگے بڑھ کر سوچنا چاہئے، یہ غلط ہے۔ اور اگر اس روایت کو تسلیم کیا گیا تو پھر مسجد ، مندر ، چرچ اور گرودوارے ودیگر عبادت گاہیں کچھ بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گی۔ واضح ہو کہ آج جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیودھون نے تقریبا دیڑھ گھنٹے تک بحث کی جو نامکمل رہی۔ اب معاملہ کی اگلی سماعت کے لئے عدالت نے 20 جوالائی کی تاریخ مقررکی ہے۔ واضح ہوکہ بابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت پٹیشن نمبر 10866-10867/2010 پر بحث میں سینئر وکلاء کی معاونت کے لئے سینئر ایڈوکیٹ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ جارج، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ آکرتی چوبے ، ایڈوکیٹ قراۃ العین، ایڈوکیٹ مجاہد احمد و دیگر موجود تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */