ہندوتوادی مظاہرین کے ہاتھوں تریپورہ کی 16 مساجد میں توڑ پھوڑ، 3 مساجد نذر آتش

ہندوتوا ہجوم کی جانب سے مسلم علاقوں میں مساجد، گھروں اور افراد پر حملہ کرنے کے 27 واقعات ہوئے ہیں، ان میں 16 واقعات ایسے ہیں جہاں مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی اور جبراً وی ایچ پی کے جھنڈے لہرائے گئے۔

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

پریس ریلیز

نئی دہلی: تریپورہ کے حالات دن بدن شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف ہوئے تشدد کی مذمت میں کئی دنوں سے ریاست بھر میں مظاہرے اور ریلیاں جاری تھیں، لیکن یہ ریلیاں شدت اختیار کر گئیں اور ریاست کے مسلمانوں کے خلاف متشدد ہوگئیں۔ جس کے نتیجے میں مساجد میں توڑ پھوڑ، آگ زنی، مسلمانوں کی دُکانوں و مکانوں میں توڑ پھوڑ، مسلم مخالف نارے بازی جیسے واقعات روزانہ سامنے آ رہے ہیں۔ اس معاملے پر اے پی سی آر (اسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سِوِل رائٹس)، ایس آئی او (اسٹوڈنس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا) اور جماعت اسلامی ہند کے کارکنان کے ذریعے بروز بُدھ کو ایک مشترکہ پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ پریس کانفرنس کے حکومتِ ہند اور تریپورہ حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ جلد از جلد تریپورہ کے حالات پر قابو پانے کی کوشش کی جائے اور ریاست کے مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت کی جائے۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایڈووکیٹ فواز شاہین (مرکزی سیکریٹری، ایس آئی او آف انڈیا) نے بتایا کہ ’’تریپورہ میں گزشتہ ایک ہفتے سے فرقہ وارانہ تشدد اور مسلمانوں کے خلاف حملوں کے ایک خطرناک سلسلے سے گزر رہا ہے۔ مقامی کارکنوں اور رہائشیوں کی معلومات کے مطابق ہندوتوادی ہجوم کی جانب سے مسلم علاقوں میں مساجد، گھروں اور افراد پر حملہ کرنے کے کم از کم 27 واقعات ہوئے ہیں۔ ان میں 16 واقعات ایسے ہیں جہاں مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی اور ان پر زبردستی وی ایچ پی (وِشو ہندو پریشد) کے جھنڈے لہرائے گئے۔ کم از کم تین مساجد، اناکوٹی ضلع کی پالبازار مسجد، گومتی ضلع کی ڈوگرہ مسجد اور وِشال گڑھ میں نرولا ٹیلا کو نذر آتش کر دیا گیا۔ مسلمانوں کے گھروں پر پتھراؤ اور نشانہ بنانے اور توڑ پھوڑ کرنے کی بھی خبریں ہیں۔ تقریباً یہ تمام حملے ہندوتوا ہجوم کی طرف سے کیے گئے جو بظاہر بنگلہ دیش میں ہندو مخالف تشدد کے خلاف احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے۔‘‘


ندیم خان سکریٹری (اے پی سی آر) نے کہا کہ "حکومت اور ریاستی انتظامیہ کی جانب سے اب تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے، گویا ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے حکومت چاہتی ہی نہیں ہے کہ تشدد ختم ہو اور امن قائم ہو۔ کئی جگہ بنگلہ دیش کے واقعات کا حوالہ دے کر تریپورہ کی صورتحال کو درست بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن یہ بات بھی واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں تشدد کے واقعات پر چند ہی دنوں میں حکومت کی جانب سے سخت اقدامات کئے گئے جس میں تقریبا 500 گرفتاریاں بھی ہوچکی ہیں۔ لیکن تریپورہ میں اب تک حالات جوں کہ توں ہیں بلکہ مزید بگڑتے جا رہے ہیں۔"

سلطان حُسین (سکرٹری، ایس آئی او تریپورہ) نے بتایا، "کل بروز منگل نارتھ تریپورہ کے علاقے دھرمانگر اور کیلاشہر میں ریاست کے حالات کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کی جانب سے مظاہرے منقعد کئے گئے، بعد ازاں وہاں پولیس انتظامیہ کی جانب سے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی اور مظاہرے سے روک دیا گیا۔ لیکن جن مقامات پر شر پسندوں کے ذریعے دہشت کا ماحول بنایا جا رہا ہے، توڑ پھوڑ اور آگ زنی کی جا رہی ہے وہاں اب تک کوئی کاروائی نہیں کی گئی ہے۔ حکومت و ریاستی انتظامیہ کی جانب سے محض چند مقامات پر پولیس کی تعیناتی دِکھا کر یہ بتایا جا رہا ہے کہ حالات پر قابو پانے کی کوشش جاری ہے۔"


جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری ملک معتصم خان نے کہا کہ "حکومت سے یہ اپیل ہے کہ حالات پر جلد از جلد قابو پایا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ مساجد کا جو نقصان ہوا ہے اسکی بھرپائی کی جائے، مسلمانوں کو خصوصی تحفظ فراہم کیا جائے اور جو دہشت پھیلا رہے ہیں انکے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے تاکہ ریاست میں امن قائم ہو سکے۔" پریس کانفرنس میں نور الاسلام مظہربُھیا (امیر، جماعتِ اسلامی ہند، تریپورہ) اور شفیقُ الرحمان (صدر، ایس آئی او تریپورہ) بھی موجود تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔