دہلی فساد معاملہ میں ہائی کورٹ نے پولیس سے تازہ رپورٹ طلب کی

صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کی عرضی پر سماعت ہوئی، جس میں جلد حقیقت سامنے لا کر اصل مجرموں کو بے نقاب کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

دہلی ہائی کورٹ، تصویر آئی اے این ایس
i
user

پریس ریلیز

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے منگل کے روز شمال مشرقی دہلی فسادات  2020 سے متعلق درج ایف آئی آر پر ہوئی تفتیش کی تازہ رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ جسٹس ویویک چوہدری اور جسٹس منوج جین پر مشتمل ڈویژن بنچ نے معاملے کی اگلی سماعت 21 نومبر مقرر کی ہے اور پولیس کے وکیل دھرو پانڈے سے تمام ایف آئی آر کی مکمل تفصیلات طلب کی ہیں۔

دہلی فساد سے متعلق فسادات کی غیر جانبدارانہ اور مؤثر تفتیش کے لیے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کی عرضی پر سماعت ہوئی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ پورے معاملے کی تفتیش ایک ریٹائرڈ سپریم کورٹ یا دہلی ہائی کورٹ کے جج کے زیر نگرانی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کے سپرد کی جائے اور اس ٹیم میں دہلی پولیس کا کوئی عملہ شامل نہ ہو۔


واضح ہو کہ جمعیۃ علماء ہند دہلی فساد متاثرین کی مدد کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے، اس وقت بھی فساد سے متعلق  267 مقدمات لڑ رہی ہے۔ جمعیۃ کی جدوجہد کی وجہ سے 586 ضمانتیں اور 90 افراد با عزت بری ہو چکے ہیں۔ متاثرین سے ملنے کے دوران جمعیۃ نے یہ محسوس کیا کہ اس فساد کے اصل مجرموں کو پردۂ خفا میں رکھا جا رہا ہے اور بے قصوروں کو بلی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ اس لیے جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء نے آج عدالت میں اپنا موقف شدت سے پیش کیا اور فسادات کے دوران ہونے والی ہلاکتوں اور تباہ کاریوں کی تفصیل پیش کی۔ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ چونکہ ایف آئی آر درج ہو چکی ہیں اور پولیس تفتیش کر رہی ہے، اس لیے اس مرحلے پر رِٹ کے ذریعے بہت کم ہدایات دی جا سکتی ہیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر تفتیش میں بے ضابطگی یا عدم شفافیت کا مسئلہ ہے تو متعلقہ جج کے سامنے معاملہ اٹھایا جائے جو نگرانی کا اختیار رکھتا ہے۔

اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے عدالت میں اپنے وکیل کے توسط سے یہ موقف رکھا کہ جمعیۃ علماء ہند کی بنیادی تشویش یہی ہے کہ تفتیش منصفانہ نہیں ہو رہی ہے اور اس میں تعصب کے شائبے پائے جاتے ہیں جیسا کہ عدالتوں نے اپنے متعدد فیصلوں میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جمعیۃ نے اس بات پر زور دیا کہ چونکہ معاملہ ملک کی راجدھانی سے وابستہ ہونے کی وجہ سے حساس نوعیت کا ہے، اس لیے ایک آزادانہ، شفاف اور عدالت کی نگرانی میں کی جانے والی تفتیش سے ہی انصاف امید جاگ سکتی ہے۔ عدالت نے یہ مشاہدہ بھی کیا کہ گزشتہ 6 سے 7 سال کے دوران ان عرضیوں میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی، باوجود اس کے کہ ایف آئی آر درج ہیں اور پولیس تفتیش کر رہی ہے۔ اس مقدمے میں جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے سینئر وکیل جون چودھری اور  ایڈووکیٹ طیب خاں مقدمات کی پیروی کر رہے ہیں، جب کہ مقدمے کی نگرانی ایڈووکیٹ نیاز احمد فاروقی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔