’گوپی چند نارنگ نے فکر کی نئی قندیلوں کو روشن کیا‘، تاجکستان میں ڈاکٹر مشتاق صدف کا اظہارِ خیال

ڈاکٹر مشتاق صدف نے کہا کہ نئے ذہن و فکر کو مابعد جدید فکر ہی سب سے زیادہ راس آتی ہے کیونکہ آج کی نئی سوچ اور نئی ادبی تھیوری تکثیریت پر استوار ہے، یہ اپنے تشخص، اپنی تہذیب اور ثقافت پراصرار کرتی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تاجکستان میں خصوصی لیکچر سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر مشتاق صدف</p></div>

تاجکستان میں خصوصی لیکچر سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر مشتاق صدف

user

پریس ریلیز

دوشنبہ، تاجکستان: ’’ہندوستانی ادبیات میں کسی مخصوص نظریے اور مخصوص ادبی تھیوری کی فہم و ادراک کی سعی سفارش کے خلاف ہمارے اردو کے کسی بھی نقاد نے کوئی نئی بحث شروع نہیں کی اور نہ ہی اس سمت میں کسی نے کچھ سوچا۔ یہ سہرا گوپی چند نارنگ کے سر جاتا ہے کہ انہوں نے اردو میں پہلی بار ادعائی رویوں سے انحراف کیا اور تھیوری سے ارتباط رکھنے والوں کو ایک ایسے کشادہ رجحان سے متعارف کرایا جسے آج ہم مابعد جدیدیت کا نام دیتے ہیں۔‘‘ یہ بیان آج تاجک نیشنل یونیورسٹی میں آئی سی سی آر کے وزیٹنگ پروفیسر ڈاکٹر مشتاق صدف نے اردو کے ممتاز نقاد و دانشور پروفیسر گوپی چند نارنگ کے 93ویں یوم پیدائش 11 فروری کے موقع پر شعبہ ہندی-اردو، تاجک نیشنل یونیورسٹی، دوشنبہ کے زیر اہتمام ’گوپی چند نارنگ اور نئی فکریات‘ کے موضوع پر ایک خصوصی لیکچر سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔

ڈاکٹر مشتاق صدف نے گوپی چند نارنگ کو مابعد جدیدیت کا امام قرار دیتے ہوئے کہا کہ مابعد جدیدیت کسی بھی نوع کی فارمولہ سازی اور نظریوں کی مطلقیت کے خلاف ہے۔ آج کی تخلیقی فضا میں جو تبدیلیاں آئی ہیں وہ زندگی کی ضرورتوں کا تقاضا ہیں۔ یہ اپنی تہذیبی، فکری اور ادبی ترجیحات کی پروردہ ہیں۔ ان تمام پہلوؤں پر اردو میں پہلی بار گوپی چند نارنگ نے سوچا اور غور و فکر کی نئی قندیلوں کو روشن کیا۔

’گوپی چند نارنگ نے فکر کی نئی قندیلوں کو روشن کیا‘، تاجکستان میں ڈاکٹر مشتاق صدف کا اظہارِ خیال

پروفیسر ڈاکٹر مشتاق صدف کا کہنا ہے کہ نئے ذہن و فکر کو مابعد جدید فکر ہی سب سے زیادہ راس آتی ہے کیونکہ آج کی نئی سوچ اور نئی ادبی تھیوری تکثیریت پر استوار ہے اور یہ اپنے تشخص، اپنی تہذیب اور ثقافت پراصرار کرتی ہے۔ اس لیے تھیوری اب نئی فکریات کے لیے عام ہو چکی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ گوپی چند نارنگ کی شاہکار کتابیں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ وہ میرے محسن بھی تھے اور مربی بھی۔ ان کے ساتھ دو دہائیوں کے گہرے رشتے کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی بے شمار یادیں سینے میں آج بھی روشن ہیں۔

اس جلسہ کی صدارت پدم شری پروفیسر ڈاکٹر رجب حبیب اللہ نے کی۔ انہوں نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ ’’پروفیسر گوپی چند نارنگ جیسے دانشور اور ادیب صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اردو، ہندی اور انگریزی میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ تینوں زبانوں پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔ اس محفل میں ایشین اور یوروپین لینگویجز کے ڈین پروفیسر سید علی زادہ شادمان نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ ابتدائی کلمات کے طور پر صدر شعبہ ڈاکٹر قربان حیدر نے گوپی چند نارنگ کا مختصر تعارف پیش کیا۔ اس موقع پرڈاکٹر زرینہ، ڈاکٹر علی خان، شیرین کے علاوہ ہندی-اردو کے طلبا و طالبات کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔