صحافی رضوان اللہ کی حیات و خدمات پر مبنی کتاب ’ذکرِ رضوان اللہ‘ کا اجرا

رضوان اللہ بیباک صحافی اور کھرے انسان تھے۔ وہ مسائل پر ناقدانہ نظر ڈالتے اور جرأتمندی کے ساتھ اپنی بات کہتے تھے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر: پریس ریلیز</p></div>

تصویر: پریس ریلیز

user

پریس ریلیز

اوکھلا پریس کلب کے زیر اہتمام تسمیہ آڈیٹوریم اوکھلا میں منعقدہ تقریب رونمائی میں بزرگ صحافی رضوان اللہ کی صحافتی و ادبی خدمات پر مبنی کتاب ’ذکرِ رضوان اللہ‘ کا اجرا عمل میں آیا۔ یہ کتاب ان کی دختر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ فارسی میں استاد ڈاکٹر زہرہ خاتون اور معروف صحافی سہیل انجم نے مشترکہ طور پر ترتیب دی ہے۔

ڈاکٹر سید فاروق کی زیر صدارت منعقدہ تقریب کے مہمان خصوصی ہفت روزہ ’ملی گزٹ‘ کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں نے رضوان اللہ سے اپنے ذاتی اور پیشہ ورانہ مراسم کو یاد کرتے ہوئے انھیں ایک جرأتمند صحافی قرار دیا۔ ناسازیئ طبع کی وجہ سے وہ تقریب میں شریک نہیں ہو سکے تاہم انھوں نے اسپتال سے اپنے پیغام میں کہا کہ رضوان اللہ بیباک صحافی اور کھرے انسان تھے۔ وہ مسائل پر ناقدانہ نظر ڈالتے اور جرأتمندی کے ساتھ اپنی بات کہتے تھے۔ یاد رہے کہ رضوان اللہ ملی گزٹ میں ہفت روزہ کالم لکھا کرتے تھے۔ ڈاکٹر سید فاروق نے ڈاکٹر زہرہ خاتون کو کتاب کی ترتیب پر مبارکباد پیش کی او رکہا کہ اولاد کو اپنے والدین کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ان کے حق میں دعائیں کرتے رہنا چاہیے۔ مہمان اعزازی پروفیسر محسن عثمانی ندوی نے رضوان اللہ کی یاد میں کتاب خوانی کی تحریک شروع کرنے پر زور دیا اور اوکھلا پریس کلب سے اپیل کی کہ وہ اس سلسلے میں پہل کرے۔ ان کے بقول آج کتابیں پڑھنے کا ذوق ختم ہوتا جا رہا ہے، اس کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔


ڈاکٹر زہرہ خاتون نے اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر محسن عثمانی کی توجہ دہانی پر مرحوم کا فارسی کلام کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ انھوں نے کتاب کی تیاری میں معاونین کا شکریہ ادا کیا۔ معروف ادیب و نقاد حقانی القاسمی نے رضوان اللہ کی ادبی و صحافتی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے خاص طور پر ان کی فارسی شاعری کا ذکر کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ان کی حیات و خدمات پر پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جانے چاہئیں۔ پروفیسر کلیم اصغر، صدر شعبہئ فارسی جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اعلان کیا کہ وہ رضوان اللہ کی فارسی شاعری پر فارسی میں مضمون لکھ کر کسی معیاری رسالے میں شائع کروائیں گے۔

پروفیسر سلیم قدوائی نے رضوان اللہ سے اپنے ذاتی مراسم کو یاد کرتے ہوئے ان کی صحافتی و ادبی خدمات کو اجاگر کرنے پر زور دیا۔ معروف داستان گو محمود فاروقی نے جو کہ رشتے میں رضوان اللہ کے پوتے ہوتے ہیں، کہا کہ رضوان دادا ان لوگوں کے بزرگ دوست تھے۔ ان کی خودنوشت ’اوراق ہستی‘ پر شمس الرحمن فاروقی صاحب پیش لفظ لکھناچاہتے تھے لیکن اسی دوران وہ کرونا سے متاثر ہوئے اور پھر جاں بر نہ ہو سکے۔ یو این آئی اردو کے سابق ایڈیٹر عبد السلام عاصم نے کلکتہ کی صحافت کے حوالے سے رضوان اللہ سے اپنے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے ان کے شخصی اوصاف بیان کیے۔ پروگرام کے کنوینر اور اوکھلا پریس کلب کے نائب صدر سہیل انجم نے کتاب کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ اس میں دو قسم کے مضامین ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو دوسروں نے ان کی صحافت، شاعری اور فن پر لکھے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو ان کے اعزا و اقربا نے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر تحریر کیے ہیں۔ کتاب کا یہ دوسرا حصہ حاصل کتاب ہے۔ انھوں نے مرحوم کی صحافتی و ادبی حیثیت پر بھی گفتگو کی۔اوکھلا پریس کلب کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر مظفر حسین غزالی نے پروگرام کا تعارف پیش کیا اور اوکھلا پریس کلب کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے شرکا کا شکریہ ادا کیا۔ اس تقریب میں رضوان اللہ کے اعزا و اقربا کے علاوہ بڑی تعداد صحافیوں اور ادیبوں نے شرکت کی۔ جن میں انقلاب کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر یامین انصاری، سینئر صحافی جاوید اختر، ڈاکٹر سید احمد خاں، امریکی سفارت خانے میں سابق اردو ایڈیٹر عبدالحئی فلاحی، اشرف بستوی، امتنان احمد، محمد عارف، ڈاکٹر سلمان فیصل، ڈاکٹر اسرار احمد، ڈاکٹر مامون عبد العزیز، ڈاکٹر امتیاز احمد، ڈاکٹر نوشاد منظر، پرویز اختر، ڈاکٹر قرۃ العین، ڈاکٹر زاہد احسن، ڈاکٹر محمد یاسر، ابو طلحہ فاروقی، قاضی محمد طارق، ثمرہ صدیقی اور اسجد ضیا صدیقی قابل ذکر ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔