راہل، عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

راہل ’نہرو-گاندھی‘ خاندان کے وہ واحد شخص ہیں جن کو قیادت کا موقع نہ صرف سب سے مشکل حالات میں ملا بلکہ وہ اپنے خاندان کی واحد شخصیت ہیں جن کو شروعات سے ہی انتہائی مخالفت کا سامنا رہا

Getty Images
Getty Images
user

ظفر آغا

راہل گاندھی نے اپنے امریکی دورے کے درمیان ایک بڑا امتحان پاس کر لیا۔ راہل نے اپنی نپی تلی لیکن پرمغز تقاریر سے یہ ثابت کر دیا کہ اب وہ ہندوستان کے ایک سنجیدہ لیڈر ہیں جو ملک کی خدمت کرنے کو نہ صرف تیار ہیں بلکہ وہ اس کے لیے اپنا خود ایک ’ویژن‘ (بصیرت) بھی رکھتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ راہل نے اپنے امریکی دورے سے ہندوستانی سیاست میں اپنے لیے راہیں ہموار کر لیں ہیں تو قطعاً غلط نہ ہوگا اور یہی راہل گاندھی کی اب تک کی سب سے اہم کامیابی ہے۔

راہل ’نہرو-گاندھی‘ خاندان کے وہ واحد شخص ہیں جن کو قیادت کا موقع نہ صرف سب سے مشکل حالات میں ملا بلکہ وہ اپنے خاندان کی واحد شخصیت ہیں جن کو شروعات سے ہی انتہائی مخالفت کا سامنا رہا۔ ان کے پرنانااور ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو آزادی کے بعد جب وزیر اعظم بنے تو ان کو اس وقت گاندھی جی کی پشت پناہی حاصل تھی۔ گاندھی اس وقت کا اتنا بڑا نام تھا کہ کوئی ان کے آگے منھ کھولنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ پھر نہرو خود کسی معمولی شخصیت کے حامل نہیں تھے۔ جلد ہی جواہر لال کے جدید ویژن نے جواہر لال کو ملک کی سب سے قدآور شخصیت بنا دیا اور پھر ان کو اپنی پوری زندگی میں کسی قسم کا چیلنج نہیں رہا۔ بلکہ جواہر لال کے آگے سب بونے تھے جو ان کو کوئی چیلنج نہیں دے سکے۔

پھر سنہ 1965 میں اندرا گاندھی کو خود ان کی پارٹی نے منتخب کیا۔ یعنی اندرا گاندھی کو وزارت عظمیٰ کے عہدے تک پہنچنے کے لیے کوئی مشقت نہیں کرنی پڑی۔ اقتدار حاصل ہونے کے بعد پھر اندرا گاندھی نے خود اپنے کو اس مقام پر پہنچا لیا جہاں سے کانگریس کے اندر اور کانگریس کے باہر سب ان کے آگے بونے ہو گئے۔ ایسی ہی کچھ صورت حال راجیو گاندھی کے ساتھ پیش آئی۔ ماں اندرا کے قتل کے بعد سارے ہندوستان کی یہی مرضی تھی کہ اقتدار صرف راجیو کو ہی ملے۔ اس لیے وہ اندرا گاندھی کے بعد نہ صرف وزیر اعظم بنے بلکہ انھوں نے فوراً ہی انتخابات میں ایسی اکثریت حاصل کی جو جواہر لال کو بھی نہیں ملی تھی۔

اس اعتبار سے راہل گاندھی اپنے خاندان کے سب سے بدنصیب شخص ہیں۔ کیونکہ راہل گاندھی کا کانگریس صدارت کے لیے نام اس وقت شروع ہوا جب کانگریس اپنی تاریخ کے سب سے زوال پذیر دور میں تھی۔ سنہ 2014 میں کانگریس کے ہاتھوں سے نہ صرف اقتدار نکل چکا تھا بلکہ جب راہل کانگریس کے نائب صدر منتخب ہوئے تو اس وقت کانگریس کے پاس لوک سبھا میں محض 44 سیٹیں تھیں جو کانگریس کی تاریخ کا سب سے کم شمار تھا۔ پھر اس وقت ہندوستان سنگھ کے گیروے رنگ میں رنگ چکا تھا۔ ساتھ ہی ملک پر مودی کا نشہ سوار ہو چکا تھا۔

نریندر مودی محض ایک کامیاب ہی نہیں بلکہ انتہائی ہوشیار سیاستداں بھی ہیں۔ ان کو پہلے دن سے ہی یہ اندازہ تھا کہ قومی سیاست میں راہل گاندھی ہی ان کے حریف ہیں۔ اس لیے انھوں نے سنہ 2014 لوک سبھا انتخابی تشہیر کے دوران ہی راہل کو ’شہزادہ‘ کہنا شروع کر دیا۔ مقصد شروع سے ہی راہل کو نشانہ بنا کر ان کی ساکھ بگاڑنا تھا۔ پھر اقتدار میں آتے ہی مودی اور ان کی ایک ہزار کمپیوٹر ٹیم نے راہل کو سوشل میڈیا میں ’پپو‘ بنا کر نہ صرف پیش کیا بلکہ اس میں بہت حد تک کامیاب بھی رہے۔

بالفاظ دیگر راہل گاندھی ’نہرو-گاندھی‘ خاندان کے وہ بدنصیب شخص تھے جن کا کانگریس سیاست میں اعلیٰ سطح پر داخلہ بہت خراب حالات میں ہوا۔ پھر کانگریس کی 2014 کی شکست نے پارٹی پر بھی ان کی گرفت کو کمزور بنا دیا۔ خود کانگریس کے اندر پرانی نسل اور سینئر کانگریس لیڈران بھی ان کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے۔ کچھ سینئر لیڈران کے ساتھ ان کے رویہ نے بھی پارٹی کے اندر ان کے لیے مشکلات پیدا کیں جن کا سامنا ابھی بھی درپیش ہے۔

لیکن ایک امریکی دورے نے ان کے لیے جادو کا کام کیا۔ سب سے پہلے تو راہل گاندھی نے اپنی نپی تلی اور انتہائی سنجیدہ اور شائستہ تقریروں سے یہ طے کر دیا کہ وہ کوئی ’پپو‘ نہیں ہیں۔ راہل نے اپنی تقریروں سے محض امریکہ میں بسے ہندوستانیوں اور امریکی نظام کے اہم افراد کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ خود ہندوستان کے لبرل گروہ میں بھی ایک سنجیدہ لیڈر کی امیج بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ اسی کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر بی جے پی مخالفین میں راہل کی قیادت پر بھروسہ بھی پیدا ہوا۔ اس اعتبار سے راہل کا دورہ امریکہ محض کامیاب ہی نہیں بلکہ بے حد کامیاب رہا۔

اب راہل گاندھی کے لیے کانگریس کی کمان سنبھالنے کے راستے ہموار ہیں۔ پارٹی کو جلد از جلد اس سلسلے میں فیصلہ کر راہل کو باقاعدہ پارٹی صدر منتخب کر اگلے لوک سبھا انتخابات کی قیادت باقاعدہ ان کے ہاتھوں میں دے دینی چاہیے۔ کیونکہ ملک کے بنیادی نظریہ کو اس وقت جو چیلنج درپیش ہے اس کے مدنظر ملک کے بی جے پی مخالفین اور خود کانگریس کے سینئر ممبران راہل کی قیادت کو منظور کرنے پر مجبور ہیں۔ ان حالات میں راہل کو اب ملک کی اندرونی سیاست میں خود کو نہ صرف مقبول کرنے کی ضرورت ہے بلکہ خود کو ایک بار پھر سے ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔

اب ملک کا مزاج بدل رہا ہے۔ مودی کا موہ چھٹ رہا ہے۔ ایسے حالات میں راہل کے لیے ہندوستانی سیاست کی راہیں ہموار ہیں۔ لیکن سیاست میں کب کیا ہو جائے یہ کہنا مشکل ہے۔ پھر بھی یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ امریکہ کے بعد راہل گاندھی کے لیے ’ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 21 Sep 2017, 9:21 PM