کیا ہم ہندو پاکستان کی طرف گامزن ہیں؟

موب لنچنگ کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے لوگ
موب لنچنگ کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے لوگ
user

ظفر آغا

نومبر 1992: دہلی میں گلابی سردیاں شروع ہو چکی تھیں ۔ لیکن ملک فرقہ پرستی کی آگ میں جھلس رہا تھا۔یہ وہ دور تھا جب ہندتوا سیاست نے انگڑائی لینی شروع کر دی تھی۔ جی ہاں، ایودھیامیں بابری مسجد کی جگہ رام مندر تحریک اپنے عروج پر تھی۔اس وقت بی جے پی کے صدر لال کرشن اڈوانی ہاتھوں میں تیر کمان سنبھالے اپنی رتھ یاترا پر نکل چکے تھے۔ ہندوستانی مسلمان کو سنگھ نے ’بابر کی سنتان‘ کا لقب دے دیا تھا۔ملک ’جئے سیا رام ‘ کے نعروں سے گونج رہا تھا۔

ظاہر ہے کہ ایسے حالات صحافیوں کے لئے زبردست مصروفیت کے ہوتے ہیں ۔ میں اس وقت ’ انڈیا ٹوڈے‘ کی سیاسی رپورٹنگ کا انچارج تھا۔ دہلی کے سیاسی گلیاروں میں یہ کانا پھوسی سنائی پڑنے لگ گئی تھی کہ بابری مسجد خطرے میں ہے۔ اس ماحول میں ہمارے ایڈیٹر نے ہم لوگوں کی ایک میٹنگ بلائی اور ہم سب سے سوال کیا کہ کیا بابری مسجد گرائی جا سکتی ہے؟ میٹنگ میں زیادہ تر صحافیوں کا خیال تھا کہ مسجد کو سنگین خطرہ ہے۔ ایک سینئر ایڈیٹر نے یہاں تک کہا کہ میرے پاس خفیہ ایجنسیوں کی خبر ہے کہ مسجد کو گرانے کا فیصلہ اور انتظام ہو چکا ہے۔

گفتگو کے دوران انڈیا ٹوڈے کے ایڈیٹر نے مجھ سے پوچھا ’’ظفر کیا مسجد واقعی گرا دی جائے گی۔‘‘ میں نے جواب دیا ’’کوئی سوال نہیں اٹھتا!‘‘ انھوں نے مجھ سے کہا ’’تم کو اتنا یقین کیوں ہے؟‘‘ میں نے فوراً جواب دیا کہ مجھ کو ہندوستان پر بھروسہ ہے۔ میرا خیال تھا کہ اس معتدل مزاج ملک میں ہندو کسی دوسرے عقیدے پر ایسا وار نہیں کر سکتے کہ ان کو دلی اذیت پہنچے۔

چھ دسمبر 1992 کو بابری مسجد گرا دی گئی اور میں غلط ثابت ہوا۔ وہ پہلا موقع تھا کہ میرا ہی نہیں بلکہ کروڑوں مسلمانوں کا بھروسہ ٹوٹا۔ میں نے خود کو پہلی بار مسلمان محسوس کیا۔ مسجد گرنے کے بعد دوسری صبح سے ملک کے کونے کونے سے فسادات کی خبریں آنے لگیں۔ اپنےاپنے گھروں میں بند ڈرا سہما مسلمان اپنی جان کی امان کی دعائیں مانگتا رہا۔ کچھ عر صے بعد زندگی پھرمعمول پر آگئی۔ لیکن ہندوتوا کی انگڑائی کے ساتھ اور بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندوستان میں کچھ واضح تبدیلی نظر آئی جو آہستہ آہستہ بڑھتی چلی گئی۔

————————

فروری 2002 : گجرات سے خبر آئی کہ مسلمانوں نے ایودھا سے لوٹ رہے کارسیوکوں کی ٹرین کو روک کر دو ڈبوں میں آگ لگا دی۔ پچاس سے زیادہ کارسیوک مارے گئے۔ دوسرے روز ایک احمد آباد کیا، سارے گجرات سے فساد کی خبریں آنی شروع ہو گئیں۔ دیکھتے دیکھتے گجرات میں مسلمانوں کی باقاعدہ نسل کشی شروع ہو گئی ۔ دو ہزار سے زیادہ بے گناہ اقلیتی فرقوں کے لوگ مارے گئے۔ اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی سے پوچھا گیا کہ ان کی ریاست میں کیا ہو رہا ہے؟ تو انھوں نے بغیر کسی کے جزبات کی پرواہ کئے جواب دیا ’’ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے۔‘‘ یعنی مسلمانوں نے کارسیوک مارے اب رد عمل میں ہندو مسلمان کو مار رہے ہیں۔

اس ملک کی مسلم اقلیت کا بھروسہ پھر ٹوٹا۔ ملک کی سیاست میں ایک اور تبدیلی آئی۔ اب مودی کھلے بندوں ’ہندو انگ رکشک‘ کہلائے جانے لگے۔ یعنی وزیر اعلیٰ گجرات صرف ہندوئوں کے محافظ تھے باقی دوسرے فرقوں سے ان کو کوئی مطلب نہیں تھا ۔ اب ملک میں ہندوتوا نظریہ کا ڈنکا بج رہا تھا اور اس ملک کا مسلمان خود کو بےیار و مددگار محسوس کر رہا تھا۔یہ ایک اور بڑی تبدیلی تھی جس کے سبب اقلیتوں کی حفاظت حکومتوں کا فرض نہیں رہ گیا تھا۔

————————

2014 : عام انتخابات میں مودی کی زبردست کامیابی نے جیسے اس ملک کو ایک نیا محور دے دیا۔ پچھلے لوک سبھا انتخاب میں مودی جی نے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کا نعرہ توبلند کیا لیکن سنگھ نے خاموش نفرت کی ایسی ا ٓگ پھیلائی کہ پچھلے لوک سبھا چناؤذہنی سطح پر ہندو-مسلم کھیل بن گیا ۔ اور مودی ہندوتوا کے کاندھوں پر سوار ہو کر وزیر اعظم بن گئے۔

————————

2017 : اب یہ عالم ہے کہ آئے دن موب لنچنگ کی خبریں آتی ہیں۔ کبھی اخلاق اپنے گھر میں کھانا کھاتے ہوئے مارا جاتا ہے اور کبھی جنید کو ٹرین سے اتار کر مار دیا جاتا ہے کیونکہ وہ سر پر گول ٹوپی لگائے تھا۔مسلمان خائف ہیں ۔ لیکن اس بات کو کہنے کی اجازت سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری کو بھی نہیں ہے۔

————————

1992سے 2017 تک کے درمیان ہندوستان بہت بدل چکا ہے۔ گنگا-جمنی تہذیب کا دامن چھوڑ کرہندوستان اتنی تیزی سے بدلا کہ یہاں اب سیکولرزم ایک معیوب لفظ ہو چکا ہے۔ اقلیتیں اپنے گھر اور باہر ہر جگہ ہروقت خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگیں ہیں۔ بقول مشہور صحافی کلدیپ نیر ’’اب مسلمان دوسرے درجے کا شہری ہے اور اس نے اس حقیقت کو تسلیم بھی کر لیا ہے۔‘‘

میں نہیں جانتا کہ اس بیان میں کتنی حقیقت ہے ۔ لیکن سنہ 1992 میں اس ملک میں مسجد گری اور مندر کو مسجد پر فوقیت حاصل ہو گئی ۔ سنہ 2002 میں گجرات میں مسلم نسل کشی ہوئی اور مودی ہندوؤں کے ’انگ رکشک ‘بن گئے۔ اس کے بعد اقلیتوں کا کوئی محافظ نہیں بچا۔ اب یہ عالم ہے کہ ہر دوسرا اقلیتی فرد اخلاق اور جنید کے خوف کے سائےتلے جی رہا ہے۔لیکن اس بات کا اظہار کرنا بھی جرم ہے۔

یقیناً سنہ 1992 سے 2017 کے درمیان ہندوستان بہت بدل گیا ہے۔ یہ ملک ابھی بھی باقاعدہ ایک ہندو راشٹر میں تبدیل نہیں ہوا ہے، لیکن اقلیتوں کے دل میں یہ احساس شدت سے گھر کرتا جا رہا ہے کہ وہ اب’ہندو پاکستان‘ میں جی رہے ہیں۔

آخر اس کا کیا انجام ہوگا ، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔لیکن ملک کے نظریاتی محور میں یہ تبدیلی نہ صرف ملک کی گنگا ۔جمنی تہذیب کے لئے خطرہ ہے بلکہ خود ملک کے لئے بھی ایک سنگین خطرہ ہے۔جس کا کو ئی ابھی حل نہیں نظر آرہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔