معاشی بدحالی، مسلمانوں کو اور خطرہ 

Getty Images
Getty Images
user

ظفر آغا

کھودا پہاڑ نکلی چوہیا! جی ہاں، نوٹ بندی ایک پہاڑ کھودنے سے کم بڑا پروجیکٹ نہیں تھا۔ لیکن اب یہ طے ہے کہ نوٹ بندی کے پہاڑ کو کھودنے کے بعد مودی حکومت کے ہاتھ محض مردہ چوہیا ہاتھ آئی اور اس بات کا اعتراف خود حکومت کر رہی ہے۔ محض نوٹ بندی ہی ناکام نہیں ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی کی پسندیدہ جی ایس ٹی ٹیکس ریفارم اسکیم نے ملک کی معیشت ہی ڈبا دی۔ لب لباب یہ کہ مشہور و معروف معاشی ’مودی ماڈل‘ بری طرح ناکام ہو گیا۔ وہ کیوں اور کیسے! یہ ذرا بعد میں۔ پہلے حقائق اور ڈاٹا پر ایک نظر ڈال لیں۔

سب سے پہلے ریزرو بینک آف انڈیا نے یہ اعلان کیا کہ مودی حکومت نے نومبر 2016 کو 500 اور 1000 روپے کے کرنسی نوٹ بند کرنے کا جو اعلان کیا تھا اس کے نتیجے میں کل سرکاری رَد نوٹوں کی تعداد کی 99 فیصد رقم ریزرو بینک کے پاس واپس آ چکی ہے۔ بس اس اعلان کا ہونا تھا کہ حزب اختلاف کی پارٹیوں نے ہنگامہ بپا کر دیا۔ کانگریس پارٹی نے نوٹ بندی معاملے کو ایک اسکیم یعنی زبردست گھپلہ بتایا۔ کانگریس کے بقول نوٹ بندی چند افراد کی بلیک منی کو شفاف اور ستھری منی بنانے کا ذریعہ تھا۔ سابق مرکزی وزیر خزانہ پی چدمبرم نے ٹوئٹ کر یہ اعلان کیا کہ نوٹ بندی میں ریزرو بینک کو کل 16000 کروڑ روپے کا خرچ بیٹھا جب کہ اس کو نئی کرنسی چھپوانے میں 25000 کروڑ روپیہ صرف ہوا۔ بقول چدمبرم ’’آخر ریزرو بینک آف انڈیا کس کو بے وقوف بنا رہا تھا۔‘‘

یعنی نوٹ بندی خود سرکاری اعتراف کے مطابق بری طرح ناکام ہو گئی۔ وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ اس عمل سے ہزاروں کروڑ کی بلیک منی کا راز کھل جائے گا۔ وہاں الٹا ہوا۔ ملک میں جو بلیک منی تھی وہ لوگوں نے نوٹ بندی کے دوران بینک میں جمع کر اس کو شفاف کر لیا۔ پھر نوٹ بندی نے غیر منظم اور چھوٹے کاروبار چوپٹ کر دیے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہو گئے۔ ابھی تک چھوٹے کاروبار سسک رہے ہیں اور جو غریب مزدور طبقہ بے روزگار ہوا تھا ان میں سے زیادہ تر ابھی تک روزی سے محروم ہے۔

یہ تو تھی قصہ نوٹ بندی کا جس کے کھاتے میں ریزرو بینک خود رقم طراز ہے ’فلاپ‘۔ اب ذرا قصہ جی ایس ٹی پر بھی ایک نگاہ ڈالیے۔ مرکزی حکومت کا ہر طرح کا ڈاٹا اکٹھا کرنے والی تنظیم سنٹرل اسٹیٹسٹکس آرگنائزیشن (سی ایس او) نے دو روز قبل ملک کی معاشی شرح کا جو اعلان کیا اس سے تو یہ راز کھلا کے ملک کی معیشت ڈوبنے کی کگار پر ہے۔ سی ایس او کے مطابق ملک کی معیشت میں پچھلی سہ ماہی کے دوران زبردست گراوٹ آئی ہے۔ سی ایس او کے تازہ ترین ڈاٹا کے مطابق ہندوستانی معیشت کا کل نرخ (یعنی گروتھ ریٹ) اپریل تا جون 2017 سہ ماہی کے دوران 5.7 پہنچ گیا جب کہ اس سے قبل کی سہ ماہی یعنی جنوری تا مارچ 2017 کے دوران 6.1 فیصد تھا۔ ملک کے زیادہ تر معاشی سیکٹر اس دوران بری طرح گھاٹے میں رہے۔ ماہرین معاشیات اور بقول خود وزیر خزانہ جیٹلی کے ایسا اس لیے ہوا کیونکہ بیوپاری جی ایس ٹی کے سبب اپنا اسٹاک ختم کرنے میں لگے تھے اس لیے کوئی نیا کام نہیں ہو رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس سے معیشت کو نقصان پہنچا ہی تھا جس کے سبب لاکھوں لوگ بے روزگار بھی ہوئے۔

لب و لباب یہ کہ مشہور و معروف ’مودی نومکس‘ یا ’گجرات ماڈل‘ ملک میں بری طرح پٹ گیا۔ ارے بھائی پٹنا تو درکنار، یہاں تو ملک کی معیشت ہی ڈوب گئی اور یہی حال رہا تو آئندہ دو سالوں میں ملک کنگالی کی کگار پر پہنچ جائے گا۔ یعنی سیدھی سی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خزانہ ارون جیٹلی دونوں کے پاس معاشی بصیرت نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ تو اب سوال یہ ہے کہ کیا مودی اور جیٹلی جواب دیں گے اور اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مستعفی ہوں گے۔

اس کا سیدھا سا جواب میرے پاس ہے اور وہ یہ کہ نہ مودی اور نہ جیٹلی دونوں ہرگز استعفیٰ نہیں دیں گے۔ ارے بھائی جب 2002 میں 2000 سے زیادہ افراد گجرات فسادات میں مر گئے تو کیا نریندر مودی نے استعفیٰ دیا تھا۔ ابھی چند روز قبل جب رام رحیم معاملے میں ہریانہ حکومت کی نااہلی کے سبب ہریانہ جل رہا تھا اور وہاں کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر سے استعفیٰ مانگا گیا تو انھوں نے ٹکا سا جواب دے دیا ’’کس بات کا استعفی‘‘۔ اسی طرح گورکھپور میں 72 بچوں کی موت کے بعد اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ نے بھی استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا اور بی جے پی صدر امت شاہ نے کہا ’’یہ سب ہوتا رہتا ہے۔‘‘

اس کے معنی یہ ہوئے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کسی قسم کی جوابدہی میں یقین نہیں رکھتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے فیصلے ہوتے رہیں گے اور ملک کنگال ہو جائے گا۔ لیکن نہ تو مودی کو اور نہ ہی بی جے پی کو اس بات کی فکر ہے کہ ملک کی معیشت خطرے میں ہے۔ کیونکہ ان کو ہندوتوا فلسفے میں یقین ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں جس قدر معاشی مشکلات بڑھیں اس قدر ہندوتوا کی آنچ تیز کر دو۔ اس طرح ملک کی اکثریت ہندو کے دلوں میں مسلم نفرت سیلاب کا امنڈتا رہے گا اور وہ اپنی تمام معاشی پریشانیاں بھول کر بی جے پی کو ووٹ ڈالتے رہیں گے۔ آخر نوٹ بندی میں مصیبت اٹھانے کے بعد بی جے پی نے اتر پردیش اسمبلی اور مختلف شہروں کے میونسپل انتخاب میں زبردست کامیابی حاصل کی تھی کہ نہیں!

ملک کی اقلیتوں اور بالخصوص مسلم اقلیت کے لیے یہی سبب سے پریشان کن بات ہے کیونکہ اب ایک بات طے ہے اور وہ یہ کہ ملک کی معیشت روز بہ روز بگڑتی جائے گی اور ملک میں معاشی پریشانیوں اور بے روزگاری کا بازار گرم ہوتا جائے گا۔ ان حالات میں سنگھ اور بی جے پی اقلیت منافرت کا ایجنڈا تیز کرتے جائیں گے۔ بہ الفاظ دیگر ملک میں موب لنچنگ، لو جہاد، رام مندر سیاست اور ایسے سیاسی حربے بڑھتے جائیں گے۔ یعنی ہندو کی جتنی معاشی پریشانی بڑھے گی اتنا ہی اس ملک کی مسلم اقلیت کو جان کا خطرہ بڑھے گا۔

بیچارہ مسلمان، جائے تو جائے کہاں!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔