نریندر مودی: زمین کھسکنے لگی لیکن اپوزیشن ندارد — ظفر آغا

Getty Images
Getty Images
user

ظفر آغا

فضا بدل رہی ہے اور تیزی سے بدل رہی ہے۔ وہ مودی طوفان جس نے پچھلے تین برسوں میں ہندوستان کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا ، وہ طوفان اب تھمنے لگا ہے۔ اس کے آثار بھی اب صاف نظر آ رہے ہیں۔مثلاً ، وہ نوجوان جو سن 2014 سے مودی کو اپنا مسیحا سمجھ رہا تھا اب اس کا نشہ ہرن ہو گیا اور وہی اب مودی سے منہ موڑ رہا ہے۔ دہلی یونیورسٹی ، جے این یو، راجستھان یونیورسٹی، جے پور یونیورسٹی ، گوہاٹی یونیورسٹی اور تریپورا یونیورسٹی ان تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سنگھ کی ودیارتھی پریشد چناؤ ہار گئی ہے۔ آخر کب تک بھوکا پیٹ نوجوان مودی جی کے ہندوتوا راج کو سر پر اٹھائے گھومتا رہے؟ کہیں روزگار نہیں، جو روز گار سے لگے ہیں ان کی بھی روزی روٹی کا کوئی بھرسہ نہیں بچا۔ جب پیٹ پر پڑی تو مودی کے ’اچھے دن ‘ کا خواب چکنا چور ہو گیا اور نوجوانوں نے مودی سے منہ موڑنا شروع کر دیا۔

ایک نوجوان ہی کیا مودی کی معاشی بد نظمی نے ہندوستان کے ہر طبقہ کی زندگی دوبھر کر دی۔ نوٹ بندی کی مارنے چھوٹے اور اوسط درجے کی تجارت کا خاتمہ کر دیا۔ وہ چھوٹی موٹی دکانیں ہوں یا کارخانے سب کا دھندا نوٹ بندی نے چوپٹ کردیا۔ دکانوں میں مال بھرا پڑا ہے لیکن خریدار نہیں ہیں ۔ فیکٹریوں میں مشینیں خاموش پڑی ہیں اور مزدوروں کی نوکریوں سے چھٹنی ہو رہی ہے ۔جو رہی سہی کثر بچی تھی وہ جی ایس ٹی ٹیکس ریفارم نے پوری کر دی ۔ دکاندار رسیدیں بناتے بناتے تھکے جا رہے ہیں ، کار خندار کو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس وقت کار خانہ چلائے اور کس وقت ٹیکس کے کاغذات بھرے ۔ تب ہی تو ملک کی جی ڈی پی 5.7 فی صد پہنچ گئی۔ ادھر کسانوں نے یا تو خود کشی کا راستہ اختیار کر لیا یا پھر مظاہروں میں مصروف ہو گیا۔کھیت کھلیان فصلوں سے لہلہا رہے ہیں، لیکن ان کی فصل خریدنے والے ندارد ہیں۔

الغرض مودی سرکار نے تین برسوں کے اندر ملک کی معیشت کا بھٹّا بیٹھا دیا ۔ وہ’ اچھے دن ‘ کے خواب جب ہرن ہوئے تو لوگوں کو مودی کا رنگ روپ نظر آنے لگا ۔ بلیک منی کے پندرہ لاکھ بینک کھاتےمیں آنا تو دور کی بات وہاں تو خود کی جیب بھی کٹ گئی اور اس معاشی بد حالی نے عام ہندوستانی کو ’مودی بھگت‘ سے مودی دشمن بنا دیا۔

لیکن ٹھہرئیے، یہ سب حقیقت ہے پر مودی کو بھی کچھ کم مت سمجھیے ۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ مودی معاشی فرنٹ پر ناکام ہو گیا ۔ لیکن مودی سیاست ابھی بھی کامیاب ہے ۔ ہندوتوا کا نشہ ہے کہ کسی طرح بھنگ نہیں ہونے کو آتا ہے ۔ کبھی گئو رکشا تو کبھی لو جہاد اور اگر کچھ نہیں تو پھر محرم اور درگا پوجا کا دنگل، سنگھ اور اس کے میڈیا میں بیٹھے بھگت آج بھی ’مودی آستھا ‘ کو بر قرار رکھے ہوئے ہیں۔

اس کا سب سے اہم سبب یہ ہے کہ مودی تو ختم ہوئے لیکن اس سوال کا ابھی بھی کوئی واضح جواب نہیں کہ ان کی جگہ لاؤ کس کو! اپوزیشن پارٹیاں ہیں کہ خرگوش کی نیند سو رہی ہیں، کہیں کوئی فرنٹ نہیں، کوئی اپوزیشن نہیں، کوئی دھرنا و مظاہرہ نہیں۔ بولے تو بولے کون ! مودی نے سی بی آئی کا ڈنڈا اٹھا رکھا ہے۔ کبھی لالو کے گھر چھاپہ تو کبھی چدمبرم کے بیٹے کو بیٹھا کر انکم ٹیکس والوں کے گھنٹوں سوال جواب ۔ہر کسی کو فائل دیکھا کر ہر مخالف کو ڈرانے کی مودی سیاست کامیاب دکھائی دیتی ہے ، تب ہی تو اپوزیشن خاموش ہے۔

ان حالات میں راہل گاندھی کی امریکہ میں ہونے والی تقریروں نے امید کی کرن جگائی ہے۔ لیکن راہل گاندھی کے اپنے مسائل ہیں ۔ ان کی پارٹی میں سینئر لیڈر راہل کے خلاف پھن کاڑھے بیٹھے ہیں۔ جب بھی راہل کو کانگریس صدر بنانے کی بات ہو تی ہے تو پارٹی میں کچھ ہو تا ہے اور راہل کی تاجپوشی کی تاریخ ٹل جاتی ہے ۔ اس روکاوٹ کو صاف کرنے کا محض ایک راستہ ہے اور وہ راستہ ان کی دادی اندرا گاندھی نے اپوزیشن کے دور میں تلاش کیا تھا۔

جب 1977 میں اندرا گاندھی چناؤ ہار گئیں اور دہلی میں جنتا پارٹی سرکا ر نے ان کو جیل بھیجنے کا پلان بنا نا شروع کر دیا تو دہلی میں ان کا کوئی یارو مددگار نظر نہ آیا ۔ بس انہوں نے ٹھان لی کہ اب تو ہندوستانی عوام کے پاس چلو ۔ اندرا گاندھی نے ایک مہینے مین 20 سے 25 دن دہلی کے باہر عوام کے درمیان گزارنے لگیں ۔بس کیا تھا وہی ہندوستانی جس نے خود اندرا گاندھی کو سن 1977 میں چناؤ ہرایا تھا وہی لوگ راتوں رات ’اندرا بھگت‘ ہو گئے۔ دیکھتے دیکھتے جنتا پارٹی ٹوٹی اور پھر چار مہینوں میں چرن سنگھ کی سرکار بھی گئی اور پھرسن 1980 میں اندرا گاندھی واپس اقتدار میں۔

راہل گاندھی کے لئے بھی یہی راستہ ہے ۔ وہی پارٹی ممبران جو ابھی نوجوان لیڈر کو ماننے کو تیار نہیں ،کل اگر عوام راہل گاندھی کے پیچھے ہو تو وہی راہل کے آگے ہاتھ جوڑے کھڑے ہو ں گیں، جہاں راہل کی ریلی سے میدان بھرے ویسے ہی اپوزیشن مورچہ بھی کھڑا ہو جائے گا۔ اور مودی کےخلاف پنپتا غصّہ ایک طوفان بن جائے گا۔ جب تک میدان کی سیاست نہیں ہو گی تب تک مودی ایسے ہی بادشاہ بنے رہیں گے۔ اس لئے بس اٹھیے اور عوام کا رخ کیجئے۔پھر دیکھئے مودی کی معاشی نا کامی کیسے ان کی سیاسی ناکامی میں تبدیل ہو تی ہے۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 23 Sep 2017, 9:26 PM