ہیکر کے دعوے ناقابل یقین، لیکن ای وی ایم پر اٹھ رہے سوالوں کے جواب ملنا بھی ضروری

ای وی ایم پھر سے زیر بحث ہے اور اس کے حامیوں اور مخالفوں میں جنگ جاری ہے، ایک طرف مشینوں کو مقدس ماننے والے لوگ ہیں تو دوسری طرف اسے جمہوریت کے لئے خطرناک کہنے والے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

گوہر رضا

گزشتہ دنوں لندن میں سید شجاع نے ان مشینوں کو لے کر جو کچھ کہا اس سے میڈیا بھی کچھ وقت کے لئے چکرا گئی ہے۔ مرکزی دھارے کا میڈیا بھی امریکہ میں مقیم اس شخص کے اثر میں آ گیا، لیکن جلد ہی اسے ہوش آگیا اور اس معاملہ کو ایک سیاسی موڑ دے دیا گیا۔ ہاں شجاع نے جو کچھ بھی کہا اس کی چیر پھاڑ کرنے میں میڈیا کو کچھ وقت ضرور لگا۔

لندن میں اسکائپ کے ذریعہ صحافیوں سے گفتگو کے دوران شجاع نے جو کچھ بھی کہا وہ گلے سے اترنے والا نہیں تھا کیونکہ اس کے الزامات میں نہ تو کوئی دلیل تھی اور نہ ہی کوئی ثبوت، تاہم اس نے جو کچھ بھی کہا وہ تشویش ناک ضرورت تھا۔ اس پریس کانفرنس میں کپل سبل کی موجودگی سے بھی ان الزامات کی شدت کم نہیں ہوتی۔ شجاع نے جتنا کہا یا دعوی کیا اس کی تصدیق ہو سکتی ہے اور ثبوت نہ ملنے پر اسے خارج بھی کیا جا سکتا ہے لیکن ان سب کی جانچ کرنے میں وقت لگے گا۔

یہاں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پہلی مرتبہ کسی شخص نے سامنے آکر دعوی کیا ہے کہ ہاں اس نے ای وی ایم کو ہیک کیا اور اس بنیاد پر انتخابی نتائج سے چھیڑ چھاڑ ہوئی۔ اس سے پہلے کوئی بھی ابھی تک سامنے نہیں آیا تھا۔ ابھی تک صرف الزامات ہی لگتے رہے تھے کہ مشینوں سے چھیڑ چھیڑ کرکے نتائج بدلے جا سکتے ہیں۔

بی جے پی تو خود بھی ای وی ایم کے خلاف باقاعدہ مہم چلا چکی تھی اور اس کے رہنماؤں نے مشینوں کو ہیک کرنے کا طریقہ بتانے کا بھی دعوی کیا ہے، لیکن 2011 کے بعد بی جے پی نے اس معاملہ پر مشتبہ طور پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اس دوران کئی مرتبہ دوسروں نے بی جے پی پر ای وی ایم ہیک کرنے کے الزامات عائد کیے تھے، لیکن یہ تمام الزامات بغیر کسی ثبوت کے لگائے گئے تھے۔

وجہ صاف ہے کہ اگر کوئی دعوی کرتا ہے کہ وہ ای وی ایم ہیک کر سکتا ہے اور ہندوستان میں رہتا ہے تو اسے فوراً حراست میں لے کر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ کوئی اگر عوامی طور پر یہ کہہ دے کہ اس کی پہنچ ای وی ایم تک ہے تو اسے سخت سزا ملنی طے ہے۔ آخر جیل توڑنے والے کو انعام تو نہیں دیا جاتا ہے!

اور اگر کسی کو جیل توڑنی ہی ہے تو بھی فطرتی طور پر وہ کسی سیاسی جماعت کے پاس جائے گا اور پیسے بنائے گا۔ شجاع نے بھی یہی دعوی کیا اور قبول کیا کہ اس نے اور اس کی ٹیم نے پیسہ بنایا لیکن اس کا انجام برا ہوا۔

بہر حال، اب اس کے دوسرے دعوے کی بات کرتے ہیں۔ اس نے دعوی کیا کہ وہ اور اس کی ٹیم الیکٹرانک کارپوریشن آف انڈیا (ای سی آئی ایل) کے لئے کام کرتے تھے۔ ای سی آئی ایل نے اسے ای وی ایم کی سیکورٹی میں نقب لگانے اور ایک ایسی مشین بنانے کو کہا جو موجودہ ای وی ایم سے رابطہ قائم کر سکے اور نتائج تبدیل کر سکے۔ شجاع نے یہ سب اتنے صاف الفاظوں میں نہیں کہا لیکن اس کا مفہوم یہی تھا کہ اس نے اور اس کی ٹیم نے ایک ایسی ڈیوائس (آلہ) بنائی جس سے ریموٹ کے ذریعہ ای وی ایم کو ہیک کیا جا سکتا تھا۔

شجاع نے ایک مرتبہ بھی یہ نہیں کہا کہ اسے ای وی ایم میں کچھ ایسا لگانا پڑا جس سے ای وی ایم سے نکلنے والی کم شدت کی ریڈیو فریکوینسی کو پکڑا جا سکتا ہو۔ اس نے تو دعوی کیا کہ اس کی ٹیم نے دہلی، راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے انتخابی نتائج کو متاثر کیا۔

میڈیا میں جو رپورٹس آئیں یا نقادوں نے جو کچھ کہا وہ محض اتنا ہے کہ ای وی ایم میں بغیر کوئی اینٹینا لگائے اسے ہیک کرنا ممکن نہیں ہے۔

یہاں یہ یاد رکھنا ضروریہے کہ 2003 میں بلجیم میں ایک ای وی ایم سے بہت عجیب و غریب نتائج ملے تھے۔ اس مشین میں ایک ہی امیدوار کے حق میں اتنے ووٹ آ گئے تھے کہ ان کی تعداد کل پولنگ سے بھی زیادہ ہو گئی تھی۔ اس معاملہ کی گہرائی سے سائنٹیفک تفتیش کی گئی اور سامنے آیا کہ ایک نامعلوم کوسمک پارٹیکل مشین میں لگی چپ کو چھوا تھا جس نے نتائج کو تبدیل کر دیا۔ اس معاملہ کا واحد معاملہ یا سائنس کی زبان میں کہیں تو ’سنگل ایونٹ اپ سیٹ‘ مانا گیا۔ بلجیم نے اس واقعہ اور اس کی سائنسی جانچ کو عوامی کیا تھا۔

لیکن ہمارے یہاں خواہ تمام سائنسی اداروں کو ’گائے کے پیشاب‘ پر تحقیق کرنے کو کہا جا رہا ہو لیکن جب بات ای وی ایم کی ہو تو شترمرغ کی مانند اپنی گردن ریت میں چھپالی جاتی ہے اور ای وی ایم کو مقدس گائے تصور کر لیا جاتا ہے۔

میری رائے میں شجاع کے دعووں کو سمجھنے کے دو طریقے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ اس کی مکمل کہانی کو خارج کر دیا جائے اور بھلا دیا جائے۔ دوسرا یہ کہ اس کے دعوں کی جانچ کے لئے ایک آزاد ماہرین کی کمیٹی تشکیل دی جائے۔

یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے کہ وہ جمہوریت کی حفاظت کرے۔ اگر شجاع کے دعووں میں ذرہ برابر بھی سچائی ہے تو بھی دھیان رکھیں کہ ای وی ایم ہیک کرنے کی تکنیک امریکہ کے ہاتھ لگ چکی ہے، کیونکہ شجاع نے دعوی کیا ہے کہ اس نے امرکہ کو تمام ضروری دستاویزات اور اپنے دعوے کے ثبوت پیش کر دیئے اور انہیں کی بنیاد پر اسے وہاں پناہ ملی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔