’ہندو راشٹرواد‘ کو اپنی شرطوں پر از سرنو متعارف کرائے گی بی جے پی

2019 انتخابات کے نتائج کا ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ کوئی متبادل نہ ہونے کے سبب دوبارہ وزیر اعظم بنے نریندر مودی اور بی جے پی لگاتار ’ہندو راشٹرواد‘ کو از سر نو متعارف کرتے رہیں گے، وہ بھی اپنی شرطوں پر۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

لوک سبھا انتخابی نتائج کے جو معنی مجھے سمجھ میں آتے ہیں، اس میں کچھ باتیں صاف ہیں۔ پہلی بات یہ کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی (دونوں نے ہی تین تین بار اپنی پارٹی کو اقتدار پر قابض کرایا، لوک سبھا انتخاب جیتے) کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی واحد ایسے لیڈر ہیں جو دو بار لوک سبھا انتخاب میں اپنی پارٹی کو کامیاب بنا چکے ہیں۔ غیر کانگریسی حکومت کا کوئی شخص ایک مدت کار مکمل کر دوسری مرتبہ نہ تو وزیر اعظم بن پایا نہ اپنی پارٹی کو اکثریت دلا پایا ہے۔

اٹل بہاری واجپئی پہلی بار 13 دنوں کے لیے وزیر اعظم بنے۔ پھر 13 مہینوں کے لیے اور انھیں انتخاب میں جانا پڑا۔ وہاں وہ جیت کر آئے تھے۔ لیکن مدت کار مکمل کرنے کے باوجود 2004 میں انھیں شکست ملی۔ لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ 2014 میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے اکثریت حاصل کی۔ 2019 میں بھی اپوزیشن پارٹیوں کو کافی امیدیں تھیں۔ لیکن وہ امیدیں منہدم ہو گئیں۔ اس لحاظ سے مودی کو نہرو اور اندرا کے بعد کرشمائی لیڈر کہا جا سکتا ہے۔ یہ ہندوستانی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی ہے۔


تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کو 1984 میں صرف دو لوک سبھا سیٹیں ملی تھیں۔ اس کے بعد سے ہی بی جے پی کا عروج شروع ہوا۔ لیکن اگر آپ 1989 کے بعد کے دور کو غور سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس وقت بی جے پی ایک ممکنہ دبدبے والی پارٹی دکھائی پڑتی تھی۔ لیکن تھی نہیں۔ 1999 میں مرکز میں اٹل بہاری واجپئی کی حکومت بنی۔ لیکن بی جے پی کا دبدبہ 2014 میں شروع ہوا۔ اور ان انتخابی نتائج نے یہ ثابت کر دیا کہ اب بی جے پی ایک طاقتور پارٹی بن چکی ہے۔

2019 میں بی جے پی کا یہ دبدبہ مزید بڑھا ہے۔ ان نتائج کا ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ متبادل کی کمی کے سبب دوبارہ وزیر اعظم بنے نریندر مودی اور بی جے پی لگاتار ہندو راشٹرواد کو از سر نو متعارف کرتے رہیں گے، وہ بھی اپنی شرطوں پر۔


2014 میں کہا جا رہا تھا کہ مرکز میں مضبوط حکومت کے بعد علاقائی پارٹیوں کا مستقبل بھی ختم ہو جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی اپنے ساتھ نتیش کمار اور رام ولاس پاسوان جیسے سماجوادیوں سے مہاراشٹر یا پنجاب، جھارکھنڈ یا آسام یا سکم میں اتحاد کرتی رہے گی۔ لہٰذا، یہ پورے اپوزیشن کے لیے سنجیدگی سے محاسبہ کرنے کا وقت ہے۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ آخر ان سے غلطی کہاں ہو رہی ہے۔ اور کانگریس کے لیے تو یہ خود احتسابی اور بھی ضروری ہے۔ ایسا کر کے ہی کانگریس اقتدار میں واپسی کے راستے تلاش کر پائے گی۔ اسے نئی توانائی، نئے نظریات کے ساتھ ہی نئی قیادت اور نئی پالیسی کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا۔

اگر ہندوستانی سیاست کو دھیان سے دیکھیں تو آپ پائیں گے کہ گزشتہ تقریباً ایک دہائی میں کچھ علاقوں میں اہم تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ کئی ریاستوں میں کمزور رہی پارٹیاں طاقتور ہوئیں تو کچھ جگہ طاقتور پارٹیاں کمزور ہوئیں۔ کبھی آسام میں طاقتور رہی آسام گن پریشد آج ایک کمزور پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔ دوسری طرف شیو سینا نے مہاراشٹر میں اپنی زمین مضبوط کی ہے۔ مہاراشٹر میں وہ بی جے پی کے بعد دوسری سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے۔ کانگریس یہاں تیسرے نمبر پر کھسک گئی ہے۔


ان لوک سبھا انتخابی نتائج میں یہ بھی صاف دکھائی دیا کہ ترنمول کانگریس بھی مغربی بنگال میں اپنی زمین گنوا رہی ہے۔ ابھی بے شک اس کے وجود پر خطرہ نہیں ہے، لیکن یہ خطرہ ان کے سامنے آ سکتا ہے۔ کم ہی سہی، لیکن اڈیشہ میں بھی بی جے ڈی (بیجو جنتا دل) کی زمین کمزور پڑ رہی ہے۔

ہاں، یہ سچ ہے کہ جنوب کی علاقائی پارٹیاں ڈی ایم کے پارٹی کے ساتھ مضبوط بنی ہوئی ہیں۔ لیکن علاقائی پارٹیوں کو یہ بات سمجھنی پڑے گی کہ اب وہ مرکزی حکومت کو اپنے مطابق نہیں چلا پائیں گی۔ انھیں مرکز میں ایک مضبوط قومی پارٹی سے معاہدہ کرنا ہوگا۔

(مہیش رنگا راجن کی رپورٹ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 25 May 2019, 11:10 PM
/* */