کیا تریپورہ کے نتائج ایم پی-راجستھان کے انتخابات پر اثر ڈالیں گے؟

پانچ پارلیمانی نشستوں والے تریپورہ، میگھالیہ اور ناگالینڈ کے انتخابی نتائج کا اس سال ہونے جا رہے کرناتک، مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے انتخابات پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

سرور احمد

شمال مشرق کے تین صوبوں کے انتخابی نتائج سامنے آ چکے ہیں اور نتائج نے میڈیا کی طرف سے پھیلائی گئی اس غلط فہمی کو بھی دور کر دیا ہے کہ وہاں کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت متبادل کے لئے ہمیشہ مقام ہوتا ہے اور اگر زمین پر کوئی متبادل نظر نہیں آ رہا ہو تو عوام کوئی متبادل پیدا کر دیتے ہیں۔

تریپورہ کے نتائج سے بہتر اس کی کوئی اور مثال نہیں ہو سکتی جہاں سب سے ایماندار اور سادہ تصور کئے جانے والے اور ہندوستان کے وزرائے اعلیٰ میں سب سے غریب وزیر اعلیٰ مانک سرکار بائیں بازو کی جوت یقینی نہیں بنا پائے۔

ان تینوں صوبوں کی سیاست کا جائزہ ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلہ مختلف طرقہ سے کئے جانے کی ضرورت ہے۔ تریپورہ اور میگھالیہ کی سرحد بنگلہ دیش سے ملحق ہونے کے باوجود ہمسایہ صوبہ آسام کے مقابلہ یہاں کی مسلم آبادی کم ہے۔ اس صوبوں میں بی جے پی کی بہتر کارکردگی کے پیچھے ممکنہ طور پر بی جے پی کا تعاون کم ہے اور تبدیلی کے تئیں ووٹ دہندگان کی خواہش زیادہ ہے۔ بی جے پی کی طرف سے صوبوں اور مرکز میں ایک ہی پارٹی کی حکمرانی کے فائدہ کے لگاتار پیٹی گئے ڈھنڈورے نے بھی شاید بی جے پی کو کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔

موجودہ صورت حال میں المیہ یہ ہے کہ جہاں گزشتہ 15 سالوں سے اقتدار میں قائم بی جے پی کا راجستھان اور مدھیہ پردیش کا قلعہ ڈہہ رہا ہے اور اپنے سب سے مضبوط گڑھ گجرات میں جو مشکل سے جیت پائی وہ زعفرانی پارٹی شمال مشرق میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ خاص طور پر تریپورہ میں جہاں انہوں نے آدیواسی کارڈ کھیلا۔ تریپورہ میں بنگالی مسلمانوں کی تعداد کافی کم ہے پھر بھی سینئر بی جے پی رہنما ہیمنت بسوا سرما نے دھمکی دی تھی کہ ان کی پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد مانک سرکار کو بنگلہ دیش بھیج دیا جائے گا۔ اب جبکہ بی جے پی جیت چکی ہے تو دیکھنا ہوگا کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرتی ہے یا پھر یہ بھی ایک اور ’جملہ‘ ہی ثابت ہوگا۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نتائج کے بعد بی جے پی کو سبقت حاصل ہوئی ہے لیکن جہاں تک اگلے سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات کا سوال ہے تو شاید ہی ان نتائج سے کوئی خاص اثر پڑے گا کیوں ان تینوں ریاستوں میں محض 5 لوک سبھا نشستیں ہیں۔ میگھالیہ اور تریپورہ میں 2-2 اور ناگالینڈ میں ایک۔

ان صوبوں خاص طور سے عیسائی اکثریت والے ناگالینڈ اور میگھالیہ میں بی جے پی کی جو شاندار کارکردگی رہی ہے وہ بنیاد پرست ہندتوا کے نظریہ کی وجہ سے نہیں بلکہ علاقائی جماعتوں کے ساتھ اتحاد اور ان کے لئے مالی انتظام کی وجہ سے زیادہ ہے۔

حالانکہ بی جے پی اور میڈیا کا خاص طبقہ اسے کانگریس پر بی جے پی کی بڑی جیت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ میگھالیہ کو چھوڑ کر جہاں یہ سب سے بڑی پارٹی کے طور پر منظر عام پر آنے کے باوجود اقتدار کھونے کی کگار پر ہے دو دیگر صوبوں میں کانگریس کا کچھ خاص داؤ پر نہیں لگا ہوا تھا۔

یہاں سب سے زیادہ نقصان بائیں محاذ کا اور علاقائی پارٹیوں کا ہوا۔ تریپورہ میں چناؤ عام طور پر آنے سامنے کا ہوتا ہے اور اقتدار کے خلاف جو ماحول تھا وہ بائیں محاذ کے خلاف گیا ۔ چند سال پہلے تک صوبے میں کوئی وجود نہ رکھنے والی بی جے پی نے ترنمول کانگریس اور کانگریس کے ارکان اسمبلی کو اپنے پالے میں کر لیا اور آئی پی ایف ٹی کے تحت معاہدہ کر لیا۔

حالانکہ بی جے پی کے لئے ابھی جیت کا تناسب نکالنا جلدبازی ہوگی۔ اٹل بہاری واجپئی کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے بھی 2003 میں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخابات میں جیت سے پر جوش ہو کر جنوری 2004 میں قبل ازوقت عام انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا تھا۔

ان تین صوبوں (راجستھان، ایم پی اور چھتیس گڑھ)میں اس سال کے آخر میں پھر سے انتخابات ہونے ہیں ۔ اگر اقتدار مخالف لہر مانک سرکار جیسے بے داغ وزیر اعلیٰ کو باہر پھینک سکتی ہے تو پھر بی جے پی کے تین وزرائے اعلی کے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ اگر بی جے پی تریپورہ میں صفر سے اقتدار میں آ سکتی ہے تو کانگریس کو اس بات کا اطمینان ہونا چاہئے کہ وہ ابھی تک ان صوبوں میں ایک مؤثر طاقت بنی ہوئی ہے۔

ایم پی، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بایاں محاذ نہ کے برابر موجود ہے اس لئے ان صوبوں میں تریپورہ میں لیفٹ کی کراری ہار کا خاص فرق نہیں پڑنے والا۔

لیکن کیا تریپورہ میں سی پی ایم کو ہرانے کا جوش بی جے پی کو لوک سبھا چناؤ قبل از وقت تین صوبوں کے اسمبلی انتخابات کے ساتھ کرانے کے لئے راغب کرے گا؟ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا تاریخ پھر سے اپنے آپ کو دوہرائے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔