سادھوی پَرگیہ پر اتنی مہربانیاں کیوں؟... سہیل انجم

مودی اور شاہ کسی کے خلاف تادیبی کارروائی کریں تو اسے اعزاز کے لائق سمجھا جاتا ہے جیسے پارلیمانی امور کی وزارت نے سادھوی کو دفاعی کمیٹی کا رکن نامزد کرکے مودی اور شاہ کی خواہشوں کا احترام کیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سہیل انجم

جب پارلیمانی انتخابات کے دوران بھوپال سے بی جے پی کی امیدوار سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے شہید ہیمنت کرکرے کی شان میں گستاخی کی تھی اور کہا تھا کہ ان کے ’شراپ‘ کی وجہ سے ان کی موت ہوئی اور پھر انھوں نے گاندھی جی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کو دیش بھکت قرار دیا تھا تو اپنی ایک انتخابی تقریر میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ وہ دل سے پرگیہ ٹھاکر کو معاف نہیں کر پائیں گے۔ ان کے علاوہ بی جے پی صدر امت شاہ نے بھی سادھوی کے بیان کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ ان کے خلاف پارٹی تادیبی کارروائی کرے گی۔

اب جا کر معلوم ہوا کہ وزیر اعظم کے نزدیک دل سے معاف نہ کرنے اور امت شاہ کے نزدیک تادیبی کارروائی کرنے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ وزیر اعظم اگر کسی کو دل سے معاف نہ کر سکیں اور امت شاہ کسی کے خلاف تادیبی کارروائی کریں تو اسے کسی اعزاز کے لائق سمجھا جاتا ہے۔ پارلیمانی امور کی وزارت نے سادھوی کو پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹی کا رکن نامزد کرکے مودی اور شاہ کی خواہشوں کا احترام کیا ہے۔


سادھوی کے بارے میں کچھ زیادہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ 2008 میں مالیگاؤں میں ایک بم دھماکہ ہوا تھا جس میں 6 افراد ہلاک اور بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے تھے۔ دھماکہ میں ایک موٹر سائیکل استعمال کی گئی تھی۔ بعد میں جب فورنسک لیبوریٹریز نے اس کی جانچ کی تو پتہ چلا کہ وہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی تھی۔ ان کا یہ بیان بھی کئی اخباروں میں شائع ہوا تھا کہ وہ اتنے کم لوگوں کے ہلاک ہونے سے دکھی ہیں۔ انھیں گرفتار کیا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ تقریباً دس سال جیل میں گزارنے کے بعد انھیں ضمانت پر رہا کیا گیا۔

جب سادھوی نے دیکھا کہ ان کی رہائی کے امکانات معدوم ہوتے چلے جا رہے ہیں تو انھوں نے ایک چال چلی اور عدالت میں یہ بیان دیا کہ وہ بیمار ہیں، ان کو کینسر ہوا ہے۔ لہٰذا صحت کی بنیاد پر انھیں ضمانت دی جائے تاکہ وہ اپنا علاج کرا سکیں۔ عدالت نے انھیں ضمانت دے دی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ انھیں کینسر نہیں تھا۔ انھوں نے دروغ گوئی سے کام لیا۔


لیکن انھوں نے اپنی دروغ بیانی کو اس دعوے کے ساتھ صدق بیانی میں بدلنے کی کوشش کی کہ انھوں نے گائے کے گوبر اور پیشاب سے اپنے کینسر کا علاج کر لیا ہے۔ ان کے اس دعوے پر دنیا بھر کے ڈاکٹرو ں نے حیرت ظاہر کی تھی اور کہا تھا ایسا ناممکن ہے۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ ان کے علاوہ کسی اور نے اپنا کینسر گائے کے پیشاب اور گوبر سے ٹھیک نہیں کیا۔ حالانکہ اس کے بعد تو لائن لگ جانی چاہیے تھی اور ہر گائے کو ’’کینسر روگ اپچار جانور‘‘ کا درجہ مل جانا چاہیے تھا۔

بہر حال وہ رہا ہوئیں اور بی جے پی نے اپنے ہندوتو ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے انھیں بھوپال سے کانگریس کے سینئر لیڈر دگ وجے سنگھ کے مقابلے میں اپنا امیدوار بنا لیا۔ اس پر زبردست ہنگامہ ہوا لیکن بی جے پی اپنے فیصلے پر قائم رہی اور سادھوی ہندوتو وادی لہر پر سوار ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچ گئیں۔ پھر تو ان کے متنازعہ بیانات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔


لیکن حیرت ہے کہ ایک جھوٹ کے سہارے ضمانت حاصل کرنے والی دہشت گردی کی ایک ملزمہ سے عدالت یہ نہیں پوچھ رہی ہے کہ تم تو اب ٹھیک ہو گئی ہو تمھاری ضمانت کیوں نہ کالعدم کر دی جائے۔ عدالت یہ بھی پوچھ سکتی ہے کہ تم نے ایک جھوٹ بولا تھا ضمانت حاصل کرنے کے لیے۔ لہٰذا تمھاری ضمانت کیوں نہ خارج کر دی جائے۔ لیکن عدالت کیوں پوچھے گی۔ وہ تو اب پارلیمنٹ کی معزز رکن بن گئی ہیں۔

صرف پارلیمنٹ ہی کی معزز رکن نہیں بنی ہیں بلکہ اب تو وہ پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹی کی بھی رکن بن گئی ہیں۔ یہ دفاعی کمیٹی وزارت دفاع سے متعلق ہے۔ ’’کیا حکومت نے دہشت گردی کی ایک ملزمہ کو دفاعی کمیٹی کا رکن بنا کر ہماری مسلح افواج کی شان میں گستاخی نہیں کی ہے‘‘۔ اس نوعیت کے کئی سوالات منظر عام پر آچکے ہیں۔ حکومت کے اس فیصلے پر متواتر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔


حالانکہ ممبران پارلیمنٹ کا کسی کمیٹی میں شامل ہونا ایک عام بات ہے۔ منتخب ممبران کو کسی نہ کسی کمیٹی میں شامل کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ تو دیکھنا چاہیے تھا کہ سادھوی پرگیہ پر سے دہشت گردی کا کیس ختم نہیں ہوا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ضمانت پر باہر ہیں لیکن عدالت چاہے تو انھیں پھر سے جیل میں ڈال سکتی ہے۔ چلیے انھیں کسی کمیٹی میں شامل ہی کرنا تھا تو کسی اور کمیٹی میں شامل کر دیتے۔ کیا ضروری تھا کہ وزارت دفاع سے متعلق کمیٹی میں شامل کیا جائے۔

پھر حکومت اس سے کیا پیغام دینا چاہتی ہے۔ کیا وہ یہ بتانا چاہتی ہے کہ سادھوی کو غلط پھنسایا گیا تھا جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے۔ کیا اس قدم سے عدالتی کارروائی کو متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا اس کا مذکورہ فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ متعدد سوالات ہیں مگر کسی بھی سوال کا کوئی جواب کہیں سے نہیں مل رہا ہے۔


در اصل یہ قدم بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت انھیں پہلے امیدوار بنایا گیا اور پھر کامیاب کروایا گیا۔ اس کا مقصد ہندوتو وادی سیاست کو فروغ دینا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتانا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی اور بجرنگ دل اور ان جیسی سنگھ پریوار سے وابستہ تنظیمیں بہت پاک صاف ہیں۔ ان سے کوئی غلط کام کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ تو سابقہ کانگریسی حکومت تھی جس نے ان کے لوگوں کو پھنسایا۔ خواہ وہ سوامی اسیمانند ہوں یا سادھوی پرگیہ۔

اس قدم کے تحت حکومت اپنی ہندتووادی سیاست کو اور مستحکم کرنا چاہتی ہے۔ اس کی بنیاد پر عوام کو مذہبی اور فرقہ وارانہ خطوط پر مزید تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس طرح سوامی اسیمانند کو رہا کرایا گیا سادھوی کو بھی رہا کرایا جائے۔ ممکن ہے کہ اب آگے چل کر کرنل پروہت اور دوسرے مقدمات میں ملوث دوسرے لوگوں کو بھی رہا کرانے کی اسی قسم کی کوئی کوشش کی جائے۔ کیونکہ بی جے پی جس قسم کی سیاست کر رہی ہے اس میں اس کی بہت گنجائش ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 24 Nov 2019, 8:11 PM
/* */