ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے ’خاص دوست‘ سے بچنے کیوں لگے ہیں؟... اشوک سوین
مودی میں یہ نیا رجحان دکھائی دے رہا ہے کہ وہ ٹرمپ سے ملنے سے کتراتے ہیں، اور یہ رویہ نہ صرف انہیں بزدل بنا رہا ہے بلکہ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ سب ہندوستان کے قومی مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے خود کو ایک سربراہِ اعلیٰ کے طور پر پیش کر کے بین الاقوامی شبیہ بنائی اور حکومت کی سفارت کاری کو اپنی منصوبہ بند، مبالغہ آمیز ساکھ پر اس طرح مرکوز کر دیا کہ وہ ایسے شخص ہیں جو کوئی کام شروع کرے تو مکمل کر کے ہی چھوڑتا ہے۔ وہ بڑے عالمی اسٹیج کے لیے بے تاب دکھائی دیتے، سربراہانِ مملکت کو گلے لگاتے اور کثیر فریقی سربراہی اجلاس کو اپنی تشہیر یا خود کو نمایاں کرنے کے سیاسی تھیٹر میں بدل دیتے تھے۔
لیکن فروری 2025 میں واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے ان کی آخری ملاقات کے بعد ان کی وہ اِتراتی ہوئی چال بدل گئی ہے۔ اب مودی میں یہ نیا رجحان دکھائی دے رہا ہے کہ وہ ٹرمپ سے ملنے سے کتراتے ہیں، اور یہ رویہ نہ صرف انہیں بزدل بنا رہا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ سب ہندوستان کے قومی مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
کناڈا میں جی-7 کی متوقع میٹنگ میں شامل نہ ہونا، غزہ امن معاہدے پر دستخط کے لیے مصر جانے سے انکار، اور اب آسیان اور مشرقی ایشیا کے سربراہی اجلاس کے لیے کوالالمپور سے بھی دوری بنانا، ان سب کے پیچھے ایک ہی وجہ ہے... ٹرمپ، اور ممکنہ طور پر مئی میں 4 دن تک جاری رہنے والے ہندوستان-پاکستان تصادم کے خاتمہ کے لیے امریکہ کی ثالثی سے ہوئی جنگ بندی کے متعلق ٹرمپ کے بار بار کیے گئے عوامی دعووں کا خوف۔ لیکن سمجھنا ہوگا کہ ٹرمپ کی بے باک باتوں کے اس خوف اور اس سے بچنے کی قیمت، بات چیت کے جوکھم سے کہیں زیادہ ہے۔
پہلی قیمت وقار کی ہے۔ یہ مودی ہی تھے جنہوں نے ایک دہائی تک عالمی رہنماؤں، خاص طور پر امریکی صدور کے ساتھ تصویر کھنچوانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ ’دکھائی دینا‘ ہی ان کا ’ترپ کا پتہ‘ تھا، یا یوں کہہ لیں کہ ’وشو گرو‘ ہونے کا ان کا دعویٰ۔ مودی کے منصوبے میں خود اور ملک، دونوں کے لیے یہی ایک نام تھا۔ ایسے میں عالمی اسٹیج سے پیچھے ہٹنا کمزوری کا اعتراف محسوس ہوتا ہے۔ یہ تضاد خاصا شرمناک ہے کیونکہ اس وقت ہندوستان اور امریکہ کے دو طرفہ تعلقات کافی کشیدہ ہیں۔
ٹرمپ نے نہ صرف ہندوستانی برآمدات پر بھاری ٹیرف عائد کیے ہیں، جس سے کئی اشیاء پر مجموعی محصول 50 فیصد تک بڑھ گیا ہے، بلکہ وہ بار بار یہ اشارے بھی دیتے رہتے ہیں کہ ہندوستان امریکی دباؤ میں خاموشی سے روسی خام تیل اور گیس کی درآمد محدود کرنے پر بھی رضامند ہو گیا ہے۔ جب ٹرمپ جنگ بندی میں امریکی ثالثی کی شیخی بگھارتے ہیں تو مودی براہ راست ان سے الجھنے کے بجائے ہندوستان کی طرف سے تردید جاری کرنے کے لیے وزارتِ خارجہ کے افسروں کو سامنے کر دیتے ہیں۔ ذمہ داری سے اس طرح منھ موڑنے کا نتیجہ یہ ہے کہ ٹرمپ کی باتیں ہی سرخیوں میں رہتی ہیں۔ جب وزیر اعظم کمرے میں موجود نہیں ہوتے، دوسرے لوگ کہانی لکھ دیتے ہیں۔
یہ دوسری قیمت کہیں زیادہ بڑی ہے۔ 3 اہم ہندوستانی مفادات کو نوکرشاہوں کے حوالے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ پہلا ہے پاکستان۔ مئی میں بھڑکے کشمیر تنازعہ کے بعد ہندوستان کا مستقل موقف یہی رہا ہے کہ کسی تیسرے فریق کو ثالثی نہیں کرنی چاہیے۔ پھر بھی ٹرمپ کے بار بار کے الزامات اس کے برعکس تاثر پیدا کرتے ہیں۔ جب تک مودی براہ راست، ’ذاتی طور پر‘ تردید نہیں کرتے، واشنگٹن یہی سمجھتا رہے گا کہ وہ جب چاہے خود کو ثالث مقرر کر سکتا ہے۔
ہندوستان نے ٹرمپ کے عائد کردہ ٹیرف واپس لینے، اپنی لیبر پر مبنی برآمدات کی حفاظت اور زرعی درآمدات کی سرخ لکیروں کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ لیکن ٹرمپ سودے بازی کے ماہر ہیں، وہ تبھی کوئی قدم اٹھاتے ہیں جب انہیں دوسرے فریق یا رہنما سے واضح رعایت ملتی ہے۔ مطلب صاف ہے، کوئی کامیابی تبھی ملے گی جب مودی خود مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر گفتگو کریں اور معاہدے کی بات عوامی طور پر قبول کریں۔
تیسری بات ہے، عوام۔ لاکھوں ہندوستانی امریکہ میں پڑھتے، کام کرتے اور کاروبار کرتے ہیں۔ ان کا مستقبل امریکی ویزا قوانین، خاص طور پر ایچ1بی ویزا، اس کی ڈیپورٹیشن پالیسی اور ان پالیسیوں پر ہندوستانی حکومت کے عوامی موقف پر منحصر ہے۔ سال کے آغاز میں جس طرح ایک امریکی فوجی گاڑی میں زنجیروں سے بندھے ہندوستانیوں کی واپسی کی تصویریں عام ہوئیں، اس نے ملک میں غصہ اور بیرونِ ملک شرمندگی پیدا کی۔ ظاہر ہے، ایسے مسائل کو صرف ایک وزیر اعظم ہی مؤثر طور پر اٹھا سکتا ہے اور سامنے والے سے مناسب یقین دہانی حاصل کر سکتا ہے۔
مودی کے حامی ان کی خاموشی میں دانائی دیکھتے ہیں، جبکہ درحقیقت یہ ٹال مٹول ہے، جس کی ملک کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے، کیونکہ ٹرمپ کا انداز کسی حد تک مودی کے اقتدار میں آنے سے پہلے والے انداز جیسا ہے۔ یعنی خود نمائی اور دکھاوے والا۔ اس لیے ان سے دوری اختیار کرنے سے ایسا لگتا ہے جیسے ہندوستان کسی دھونس جمانے والے شخص کا سامنا نہیں کر سکتا۔ ڈر کر کوئی بھی ’56 انچ کے سینے‘ والا لیڈر نہیں بنتا۔
آسیان اور مشرقی ایشیا کے سربراہی اجلاس کے تجربات اس غلطی کا ثبوت ہیں۔ مودی کی غیر موجودگی نے ہندوستان کو ایک اہم عالمی فورم سے محروم کر دیا۔ اس اجلاس میں نہ صرف جنوب مشرقی ایشیائی رہنما بلکہ کواڈ اور اس سے آگے کے اتحادی بھی شامل ہوتے ہیں۔ ہندوستان کی ’ایکٹ ایسٹ‘ پالیسی اس کے رہنما کی موجودگی پر منحصر ہے۔ ورچوئل موجودگی میں نہ لابی ڈپلومیسی ممکن ہوتی ہے، نہ فوٹو لائن کا اثر، اور نہ ہی خفیہ گفت و شنید کی کوئی گنجائش۔ اور دور رہ کر مودی نے ٹرمپ کی بے تکی باتوں کا جواب دینے کا ایک اور موقع گنوا دیا۔
اسی طرح شرم الشیخ میں مصر کے سربراہی اجلاس نے ہندوستان کو عالمی جنوبی اور غیر وابستہ دنیا کی آواز کے طور پر اپنی اخلاقی برتری دکھانے کا ایک موقع دیا تھا، جس سے وہ اسرائیل اور عرب ممالک دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن کر سکتا تھا۔ لیکن مصر کے صدر السیسی کی دعوت کو رد کرنے کے مودی کے فیصلہ نے ٹرمپ کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ’امن سفیر‘ کے طور پر خود کو پیش کرنے کا ایک بلامقابلہ موقع دے دیا، جس سے پاکستان کے وزیر اعظم سرخیوں میں آ گئے اور ہندوستان دور بیٹھا صرف ریکارڈ درست کرنے والا ایک تماشائی بن کر رہ گیا۔
جب تک مودی براہِ راست بات چیت سے گریز کرتے رہیں گے، واشنگٹن اسے خود سپردگی کے طور پر دیکھے گا۔ ٹرمپ صرف ظاہر ہوتی طاقت کا احترام کرتے ہیں، اور اگر اسے صحیح طرح نہ سمجھا گیا تو مودی کو اس کا حکمت عملی پر مبنی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
اب دوبارہ تعلقات کو سمت دینے کے لیے 3 حصولیابیوں اور 3 سرخ لکیروں کی ضرورت ہے۔ حصولیابیاں یہ ہیں: (1) محصولات کو مستقل سطح پر واپس لانے کی ٹائم لائن، (2) اس بات کی مشترکہ تصدیق کہ ہندوستان اور پاکستان اپنے تنازعات کو دو طرفہ طور پر حل کریں گے، (3) منصفانہ ویزا اور ڈپورٹیشن پالیسی کے ذریعہ ہندوستانی کارکنوں اور طلبا کے تحفظ کے لیے واضح عہد۔ اسی طرح سرخ لکیریں یوں ہیں: (1) کشمیر پر ثالثی کا کوئی امریکی دعویٰ نہیں، (2) ہندوستانی تیل پالیسی میں کوئی مداخلت نہیں، (3) ایسا کوئی اشارہ نہیں کہ دہلی نے کسی سمجھوتہ کے تحت ٹیرف کو قبول کیا ہے۔
ہیوسٹن میں ٹرمپ کےس اتھ ’ہاؤڈی مودی‘ کے شو سے لے کر احمد آباد میں ’نمستے ٹرمپ‘ ریلی تک، امریکی صدور کے ساتھ اپنی ’ذاتی دوستی‘ کا فخریہ اظہار کرنے کے برسوں بعد، مودی کا اچانک اس سب سے کنارہ کش ہو جانا افسوسناک دکھائی دیتا ہے۔ وہ شخص، جس نے کبھی ’اب کی بار، ٹرمپ سرکار‘ نعرہ کے ساتھ ٹرمپ کے لیے انتخابی مہم چلائی تھی، جب ان سے چھپنے لگتا ہے، تو دنیا اس کا مذاق اڑاتی ہے، ہنستی ہے، اور ہندوستان کی شبیہ کمزور ہو جاتی ہے۔
(اشوک سوین سویڈن واقع اوپسلا یونیورسٹی میں امن و جدوجہد ریسرچ کے پروفیسر ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔