اتر پردیش میں انکاؤنٹر کرنے کی ہوڑ کیوں لگی ہے؟

سُمیت کی عمر محض 19 سال تھی حالانکہ اس گاؤ ں میں ایک دوسرا سُمیت ہے جس کے خلاف 6 مقدمات درج ہیں۔ پولس نے بغیر جانچ کئے نام ایک جیسے ہونے کی وجہ سے غلط سُمیت کو مار دیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز تجزیہ

سال 2011 میں جب سہارنپور پولس نے انکاؤنٹر میں مصطفیٰ عرف کگہ کو مار گرایا تھا تو بڑی تعداد میں اسے دیکھنے بھیڑ امڑی تھی اور یہ وہ زمانہ تھا جب ریاست میں اکھلیش یادو کی حکومت تھی۔ کگہ کے سر پر دو لاکھ کا انعام تھا اور علاقہ میں اس کی زبرد ست دہشت تھی۔ پولس مڈ بھیڑ میں مارے جانے کے وقت اس نے7 قتل کی سپاری لی ہوئی تھی۔ اس میں ایک بڑے رہنما کا بھی نام تھا ۔ سال 2015 میں یہاں ایک اور بڑا انکاؤنٹر راہل کھٹہ کا ہوا باغپت کے کھٹہ پر بھی دو لاکھ کا انعام تھا۔ الگ الگ وقت پر ان دونوں کی موت کے بعد عوام میں خوشی کا ماحول تھا اور پولس کی تعریف بھی ہوئی تھی۔ ان کے خاندان کے لوگوں نے بھی ان کی موت کو خاموشی سے برداشت کر لیا تھا۔

ریاست میں بی جے پی کے بعد سے اب تک1900 سے زیادہ مڈ بھیڑ ہو چکی ہیں اور ان میں 41 بدمعاش مارے جا چکے ہیں۔ لیکن عوام میں ایک یا دو معاملوں کے علاوہ کسی بھی معاملے میں خوشی کا ماحول نظر نہیں آتا اور نہ ہی عوام نے اس کو بڑی خبر کی طرح لیا ۔ یہ ضرور ہے کہ کچھ پولس افسران کو اعزاز ضرور ملے لیکن اعزاز کے لئے منعقد کی گئیں تقریبات میں عوام کی شمولیت نہ کے برابر تھی اور اس ک وجہ یہ تھی کہ مارے گئے سبھی بدمعاشوں کی مجرمانہ تاریخ تھی۔ مظفر نگر کے وکیل اعظم شمسی کہتے ہیں ’’اس میں یہ جاننا ضروری ہے کہ پولس نے جن بدمعاشوں کو مارا ہے ان کے خلاف آخری معاملہ کب درج ہوا تھا اور ان کے پرانے معاملے اور نئے معاملے میں کتنے وقت کی مدت کا فرق ہے اور وہ جرم کی دنیا چھوڑ چکے تھے یا اس سے ابھی تک جڑے ہوئے تھے‘‘۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا

دراصل اس سوال کی اہمیت اس لئے بڑھ گئی ہے کیونکہ مغربی اتر پردیش میں ہوئے کئی انکاؤنٹر میں مارے گئے بدمعاشوں کے عزیز الگ الگ دعوے کر رہے ہیں۔ پولس اور ایس ٹی ایف کی مشترکہ ٹیم نے تیتر واڑا کے جس فرقان کو انکاؤنٹر میں مار گرایا تھا اس کی بیوی نسرین کا دعوی ہے کی جب فرقان7 سال سے جیل میں بند تھا تو وہ ڈکیتی کیسے کر سکتا تھا۔

ایک دوسر انکاؤنٹر مظفر نگر کے ککرولی تھانے کا ہے یہاں باغووالی گاؤں کے ندیم کو پولس نے مار دیا تھا ۔ 32سالہ ندیم کی چاچی سمرین کہتی ہیں کہ وہ8 سال بعد تہاڑ جیل سے واپس آیا تھا اور آنے کے بعد اسے ایک معمولی معاملے میں اسے پھر گرفتار کر لیا گیا اور پولس نے بتایا کہ وہ کچہری سے فرار ہو گیا اور بعد میں خبر آئی کہ پولس نے اسے مار دیا۔ اسی گاؤ ں کے یونس کہتے ہیں’’ اس سے اچھا تو وہ جیل میں ہی تھا‘‘۔ فرقان کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی کہا گیا۔فرقان کے اور بھائی جیل میں بند ہیں۔ فرقان کے والد میر حسن کہتے ہیں ’’اچھا ہے وہ جیل میں ہی رہیں باہر آئے تو پولس مار دے گی‘‘۔

ویسے کیرانہ میں افواہ یہ بھی ہے کہ پولس نے خود ہی فرقان کو جیل سے باہر نکلوایا اور بعد میں انکاؤنٹر کر دیا۔ اس طرح کی مڈبھیڑ کا تیسرا واقعہ بھوپی کا ہے۔ اس ایک معاملے میں سہارنپور پولس پھنس گئی ہے یہاں 41سالہ ذولفان رکشا چلاتا تھا۔ فروری ماہ میں سفید رنگ کی بولیرو گاڑی نے مورنا گاؤ ں میں اسے زبردستی سے بیٹھا لیا۔ مقامی لوگوں نے شور بھی مچایا۔ ذولفان کا بھائی گلفام نے مورنا کے پردھان شہزاد کی مدد لی اور100 نمبر پر پولس کو جانکاری دی۔ مقامی پولس چوکی میں بھی اس کی اطلاع دی گئی لیکن رپورٹ درج نہیں ہوئی ۔ گلفام بتاتے ہیں کہ اگلے دن انہیں وہاٹس ایپ سے پتہ چلا کہ ذلفان سہارنپور پولس کے ساتھ مڈبھیڑ میں زخمی ہو گیا اور اس کے پیر میں گولی لگی۔ گلفام بتاتے ہیں کہ ذلفان کے خلاف 10 سال قبل ایک مقدمہ درج ہوا تھا جس میں وہ بری بھی ہو گیا تھا۔ اب وہ جیل میں ہے اور لنگڑا ہو گیا ہے اب اس کی ٹانگ کبھی ٹھیک نہیں ہو پائے گی۔ پولس نے اس کے گھٹنے کے ٹھیک نیچے گولی ماری ہے ۔ گلفام نے انسانی حقوق کمیشن میں شکایت درج کی ہے۔ گلفام کہتے ہیں کہ پولس کو لگتا ہے کہ ان سے غلطی ہو گئی ہے اب ان کے لوگ سمجھوتے کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔

انکاؤنٹر کے خلاف اب تک کی سب سے سخت مخالفت نوئیڈا میں ہوئی ہے جہاں چرچٹا گاؤں کے سُمیت گوجر کی مڈبھیڑ میں مارے جانے کے واقعہ نے سیاسی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس کے خلاف لگاتار مظاہرہ ہو رہے ہیں اور گوجر سماج میں زبر دست ناراضگی ہے ۔ سماجوادی پارٹی کے رہنما اتل پردھان اس کے لئے جیل بھی گئے ۔ سُمیت کی عمر محض 19 سال تھی حالانکہ اس گاؤ ں میں ایک دوسرا سُمیت ہے جس کے خلاف 6 مقدمات درج ہیں ۔ سُمیت کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ پولس نے بغیر جانچ کئے نام ایک جیسے ہونے کی وجہ سے غلط سُمیت کو مار دیا ۔ مڈبھیڑ کے بعد انسپکٹر جتیندر سنگھ کو پرموشن ملا اور ان کو سی او بنا دیا گیا۔

خاص بات یہ بھی ہے کہ فرقان کو مڈبھیڑ میں مار نے والے بڑھانہ کے انسپکٹر چمن سنگھ چاوڑا اور جان محمد کو ڈھیر کرنے والے کھتولی کے انسپکٹر پی پی سنگھ کا بھی پرموشن ہو گیا ہے اور اب وہ سی او بنا دئیے گئے ہیں ۔

بہت ممکن ہے کہ پرموشن کا سیدھا تعلق انکاؤنٹر سے نہ ہو مگر جب کچھ ’کاپس‘ کو پرموشن ملتا ہے تو دل میں سب کے ہلوریں مارتی ہیں ۔ سہارنپور پولس مڈبھیڑ میں مارے گئے سلیم کی کہانی بھی بگڑ گئی ہے اس کے انکاؤنٹر کا سہرا منیندر سنگھ نام کے انسپکٹر کے سر باندھا گیا ہے ۔

واضح رہے انہیں شبیر پور میں دلت بنام ٹھاکر جھگڑے میں لاپرواہی برتنے کے لئے معطل کر دیا گیا تھا اور وہ اس وقت بڑگاؤ ں کے ذمہ دار تھے۔ مننیندر سنگھ ابھی بھی انسپکٹر ہی ہیں اور امید ہے کہ جلد ہی ان کے کندھے کے اسٹار بھی بدل جائیں گے

ویسے سلیم مڈبھیڑ معاملہ بھی طول پکڑ رہا ہے اور اس کے رشتہ داروں نے اس مڈبھیڑ کو فرضی مڈ بھیڑ بتایا ہے۔ سہارنپور کی سبزی منڈی میں یہ مڈبھیڑبتائی گئی ہے اور وہاں چوکیدار سمیت کئی افسران نے گولی کی آواز سننے سے انکار کیا ہے۔

پرموشن کی سب سے حیرت انگیز کہانی ککرولی کی ہے جہاں6 ماہ قبل انل سنگھ بطور تھانا انچارج تعینات تھے تب تک وہ سب انسپکٹر تھے اور ان کے کندھے پردو اسٹار لگے ہوئےتھے لیکن ندیم کی مڈبھیڑ کے بعد ان کو جانسٹھ کوتوالی کا چارج دیا گیا ہے جس کی ذمہ داری صرف تین اسٹار کو ہی دی جاتی ہے ویسے اب انل کمار سنگھ کا پرموشن ہو گیا ہے۔ ایک آنکڑے کے مطابق اب تک 88 پولس اہلکار وں کو بھی مڈبھیر میں گولی لگی ہے جس میں زیادہ تر کےگولی ہاتھ میں لگ کر نکل گئی اور لگ بھگ اتنے ہی بدمعاشوں کے پیر میں گولی لگی ہےجس میں ان کا لنگڑا ہونا طے ہے۔

میرٹھ زون میں سب سے زیادہ مڈبھیڑ ہوئیں ہیں اور اس کے لئے ہفتہ کو غازی آباد آئے اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے اے ڈی جی پی پرشانت کمار کی جم کر تعریف کی۔ اے ڈی جی پی پرشانت کمار کہتے ہیں کہ ہم گولی کا جواب گولی سے ہی دیتے ہیں حالانکہ یہاں کے کئی بڑے بدمعاش آسانی سے سرینڈر کر کے جیل چلے گئے ہیں ۔ جیسے بجنور کا آدتیہ، مظفر نگر کا روچن جاٹ ایک ایک لاکھ والے انعانی بدمعاش ہیں مگر انہوں نے عدالت میں سرینڈر کر دیا۔ اس پر مظفر نگر کے سماجوادی رہنما ساجد حسن کہتے ہیں کہ اب یہ وزیر اعلیٰ کو بتانا چاہئے کہ ان کی پولس19 سال کے سُمیت کی چھاتی میں، دس ہزار کے انعامی ندیم کے سر میں گولی مارتی ہے جبکہ ایک ایک لاکھ کے انعامی بدمعاش آسانی سے بچ جاتے ہیں ۔! ایسا کیوں ہوتا ہے ! مڈبھیڑ کی اس ہوڑ میں ایک ضلع کی پولس دوسرے ضلع کی پولس کے مابین ٹکراؤ بھی ہو رہا ہے جیسے میرٹھ میں سماجوادی رہنما بلندر اور اس کی والدہ کا قتل کرنے کا ملزم وکاس جاٹ کو مظفر نگر پولس نے مار دیا تو میرٹھ پولس کپتان سینی نے ناراض ہو کر اپنی پوری کرائم برانچ ٹیم کومعطل کر دیا ۔

ان مڈبھیڑوں کی ایک اور انسائڈ اسٹوری یہ ہے کہ ان میں پولس اہلکار دلچسپی نہیں لے رہے ہیں اور زیادہ تر مڈبھیڑ میں ایک جیسی ہی ٹیم ہے جو پہلے بھی مڈ بھیڑ کا تجربہ رکھتی ہے اور انہیں انکاؤنٹر اسپیشلسٹ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک اہم بات ہے کیونکہ اس سے ایک اور اشارہ ملتا ہے کہ مڈبھیڑ اچانک نہیں ہو رہے ہیں ۔

مڈبھیڑ میں مارے گئے بدمعاشوں کے رشتہ دار انسانی حقوق کمیشن پر دستک دینے کی تیاری کر رہے ہیں اور کچھ نے ایسا کر بھی دیا ہے اور کچھ کو پولس نے اپنے طریقہ سے روکنے کی کوشش بھی کی ہے ۔ انسانی حقوق کی لڑائی لڑنے والے راجیو یادو کہتے ہیں ’’یوگی حکومت ہمیشہ نہیں رہے گی ان فرضی مڈ بھیڑوں میں شامل رہے پولس اہلکار کو ایک دن پچھتانا پڑے گا‘‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 Apr 2018, 4:31 PM