بھاگوت کو مسجد و مدرسہ جانے کی کیا ضرورت پڑ گئی!... سید خرم رضا

موہن بھاگوت کی مسلم رہنماؤں سے ملاقات اور مسجد و مدرسہ میں جانے پر مبصرین اپنی طرح سے تشریح کر رہے ہیں اور بہت سے مبصرین بھاگوت کے اس قدم کو بھارت جوڑو یاترا سے جوڑ کر بھی دیکھ رہے ہیں۔

عمیر احمد الیاسی اور موہن بھاگوت
عمیر احمد الیاسی اور موہن بھاگوت
user

سید خرم رضا

ملاقاتیں ہوتی رہنی چاہئیں، گفتگو کا سلسلہ چلتے رہنا چاہئے، لیکن کچھ ملاقاتیں ایسی ہوتی ہیں جس پر باتوں سے آگے بھی بات ہوتی ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ کی ویسے تو ہر ملاقات کی چرچا ہوتی ہے لیکن اگر ان کی وہ ملاقات مسلم رہنماؤں سے ہو تو عوام کی آنکھیں و بھویں اٹھنا لازمی ہیں۔ سنگھ سپریمو موہن بھاگوت کا مسجد میں پہنچنا اور وہاں کے امام کے ساتھ گفتگو کرنا تو خود ایسا عمل ہے جس پر ذرائع ابلاغ میں بات چیت ہونا فطری بات ہے، لیکن جس امام سے انہوں نے ملاقات کی یعنی امام عمیر احمد الیاسی سے، انہوں جو بیان دیا اس کے بعد بات ملاقات سے آگے نکلتی نظر آ رہی ہے۔

مولانا جمیل احمد الیاسی کے بڑے صاحب زادے اور متنازعہ ٹی وی اینکر صہیب الیاسی کے بڑے بھائی امام عمیر احمد الیاسی نے ملاقات کے بعد ایک ایسا بیان دے دیا جس نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ملک کو کیا کسی نئے راشٹر پتا یعنی بابائے قوم کی ضرورت ہے۔ عمیر الیاسی نے کہا کہ موہن بھاگوت راشٹر پتا یعنی بابائے قوم اور راشٹر رشی ہیں اور انہوں نے یہ بات بار بار کہی یعنی یہ جملہ ان کے منہ سے غلطی سے نہیں نکلا تھا یا ان کی زبان پھسل نہیں گئی تھی۔ سونے پے سہاگا یہ کہ سنگھ یا بی جے پی کی جانب سے اس بیان کے بعد کوئی تردیدی بیان بھی نہیں آیا کہ بابائے قوم یعنی راشٹر پتا تو مہاتما گاندھی ہیں جن کو پورا ملک باپو کے نام سے یاد کرتا ہے۔ ویسے ان کی جانب سے ایسے کسی بیان کی امید کرنا فضول تھی کیونکہ بی جے پی کی ایک رکن پارلیمنٹ ایسی ہیں جو باپو کے قاتل یعنی گوڈسے کی تعریف کرتی ہیں۔


جس دن عمیر الیاسی سے ملنے موہن بھاگوت مسجد پہنچے اسی دن وہ تجوید القران مدرسے بھی گئے اور انہوں نے وہاں پر مدرسوں کے طلباء سے بات چیت بھی کی۔ مدرسہ میں بھی موہن بھاگوت اس وقت پہنچے جب آسام میں مدارس پر بی جے پی کی بر سر اقتدار جماعت بلڈوزر چلا رہی ہے اور اتر پردیش کی حکومت مدارس کا سروے کرا رہی ہے۔ اچھا ہوتا کہ موہن بھاگوت اس وقت مدرسہ جاتے جب چل رہے سروے کے بعد مدارس کی شبیہ صاف ہو جاتی۔ بہرحال یہ ان کا فیصلہ ہے کہ کب کس سے ملنا ہے اور کب کہاں جانا ہے، کیونکہ وہ بہتر سمجھتے ہیں کہ ان کے کس قدم سے کس کو کتنا فائدہ اور کس کو کتنا نقصان ہوگا۔

عمیر الیاسی سے ملاقات سے ایک دن قبل موہن بھاگوت کی 22 اگست کو پانچ مسلم فکرمند شہریوں سے کیشو پورم میں ملاقات کے بارے میں ایک خبر اخبار میں شائع ہوئی یعنی تین ہفتوں بعد عوام کو اس ملاقات کے بارے میں اس وقت پتہ لگا جب ان پانچ افراد میں سے ایک رکن نے اخبار کو یہ خبر بتائی، اس کے بعد تو باقی ارکان نے بھی بتانا شروع کر دیا اور اپنے بیان میں انہوں اس بات پر زور دیا کہ موجودہ ماحول میں بات چیت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے موہن بھاگوت جیسے شخص کی سادگی کے بارے میں بھی بتایا۔


خاص طور سے ملاقات اور اس کی تشہیر کی کوئی ضرورت نہیں تھی نہ ہی عمیر الیاسی کو موہن بھاگوت کو راشٹر پتا کہنے کی کوئی ضرورت تھی، اگر ضرورت تھی تو بس اتنی تھی کہ ملک میں بھائی چارہ کیسے قائم ہو اور اس میں کس کو کیا کردار ادا کرنا چاہئے۔ موہن بھاگوت سے ان لوگوں کی کیا بات ہوئی اس کی تفصیلات تو دیر سویر سامنے آ جائیں گی، لیکن سنگھ سپریموں نے لنچنگ، گیان واپی تنازعہ، حجاب، ہندو شدت پسندی، مدارس پر بلڈوزر اور ان کے سروے پر کوئی بیان نہیں دیا، ہاں بقول فکرمند شہریوں کہ انہوں نے لفظ کافر اور جہاد پر اپنے تحفظات کا اظہار ضرور کیا۔

موہن بھاگوت کی مسلم رہنماؤں سے ملاقات اور مسجد و مدرسہ میں جانے پر مبصرین اپنی طرح سے تشریح کر رہے ہیں اور بہت سے مبصرین بھاگوت کے اس قدم کو بھارت جوڑو یاترا سے جوڑ کر بھی دیکھ رہے ہیں۔ دراصل بھارت جوڑو یاترا میں کچھ ہی چیزوں پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے جیسے آر ایس ایس کا ایجنڈا، ملک میں بڑھتی نفرت، بڑھتی مہنگائی، بڑھتی بے روزگاری اور ساتھ میں چند سرمایہ داروں کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ و میڈیا کا سرکاری ترجمان کا کردار ادا کرنا شامل ہے۔ کانگریس کے سابق صدر اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ بھارت جوڑو یاترا میں گفتگو ان موضوعات کے ارد گرد ہی رہے۔ بہرحال یہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ بھاگوت کو مسجد اور مدرسہ جانے کی ضرورت کیا ہے!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔