منی پور کو نذرِ آتش کرنے والے ہاتھ کون؟

تشدد متاثرہ منی پور میں 50 ہزار لوگ اب بھی راحتی کیمپوں میں رہنے کو مجبور ہیں، ویسے تو یہاں یکم جولائی سے اسکولوں کو پھر سے کھولنے کا حکم دے دیا گیا ہے، لیکن وزیر اعظم کی خاموشی کا سبب کیا ہے؟

<div class="paragraphs"><p>تصویر آئی اے این ایس</p></div>

تصویر آئی اے این ایس

user

پیٹریشیا موکھم

ایک وقت تھا جب نریندر مودی تب کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کو ’مون موہن‘ سنگھ یعنی خاموش وزیر اعظم کہتے تھے۔ آج حالات یہ ہیں کہ خود مودی ہی ’مونی بابا‘ بن گئے ہیں۔ انھوں نے مشکل ایشوز پر خاموشی اختیار کر لینے کے فن میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ یوگا کے تازہ ماحول میں اسے ’مون آسن‘ کہہ سکتے ہیں۔

 منی پور کے ایشو پر وزیر اعظم خاموش ہیں۔ لیکن حیرانی کیسی؟ آخر کار انھوں نے ایک سال بعد کسان تحریک پر خاموشی توڑی تھی۔ پھر ایسے کئی دیگر موضوعات بھی ہیں، مثلاً گلوان میں چینی حملہ، وبا کی دوسری لہر کے دوران آکسیجن کی کمی، اڈانی گروپ سے قریبی تعلقات کے الزامات، ایک طاقتور بی جے پی رکن پارلیمنٹ کے ذریعہ جنسی استحصال کے خلاف خاتون پہلوانوں کی شکایتیں، یا پھر 2021 کی مردم شماری۔

لیکن منی پور میں حالات یقیناً بہت خراب ہیں۔ ڈیڑھ ماہ میں 130 سے زیادہ لوگوں کی موت، 50 ہزار سے زیادہ لوگوں کی نقل مکانی، 250 سے زیادہ کلیسا اور 25 سے زیادہ مندروں کو جلایا جانا۔ 40 ہزار فوجی اس ریاست میں تشدد روکنے میں جدوجہد کر رہے ہیں جس کی آبادی لکھنؤ سے بھی کم ہے۔ فوج کے 39 ٹرکوں کے قافلے کے ناقہ بندی کے سبب ہفتوں سے شاہراہ پر پھنسے رہنے کے بعد فوجیوں کے لیے ہیلی کاپٹروں سے کھانا گرانا پڑا۔ ریاست سے گزرنے والے دونوں شاہراہوں، این ایچ 2 اور این ایچ 37 بند ہیں۔

مرکزی وزیر داخلہ نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ منی پور میں آئین کے شق 355 کا استعمال کیا گیا ہے جو مرکز کو ریاست کا نظامِ قانون سیدھے اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں این بیرین سنگھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت ہی نظامِ قانون سنبھالے گی۔ لیکن یہ مرکزی وزارت داخلہ ہی ہے جس نے سبکدوش سی آر پی ایف افسر کلدیپ سنگھ کو وزیر اعلیٰ کا سیکورٹی مشیر مقرر کیا اور انھیں ریاست میں مربوط کمان کا چیف بنایا۔ یہ بھی امت شاہ کی وزارت ہے جس نے گورنر کی صدارت میں امن کمیٹی بنائی اور وزیر اعلیٰ کو اس میں بطور ایک رکن رکھا۔ میتئی اور کوکی دونوں نے اس کا بائیکاٹ کیا۔


اس لیے جب وزیر اعظم نے ریڈیو پروگرام ’من کی بات‘ کو مہینے کے آخری اتوار کی جگہ 18 جون کو کرنے کا فیصلہ لیا تو منی پور میں امیدیں بڑھ گئی تھیں۔ لیکن منی پور پر انھوں نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ منی پوریوں نے ریڈیو سیٹ توڑ کر اور احتجاجی مظاہرہ کر کے اپنا غصہ نکالا۔ کیا وزیر اعظم کو پروا نہیں ہے؟ کیا منی پور میں حالات بے حد سنگین نہیں ہیں؟

3 جون کو اڈیشہ کے بالاسور میں ہوئے ٹرین حادثہ کی جگہ پر وہ جس ہڑبڑی کے ساتھ پہنچے، اس سے منی پور کے معاملے میں ان کی خاموشی مزید چبھتی ہے۔ گردابی طوفان ’بپرجوئے‘ کے متاثرین کو راحت پہنچانے اور ان کی باز آبادکاری کی وزیر اعظم نے جس طرح نگرانی کی وہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ان کی ترجیح کیا ہے۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے یہ کہتے ہوئے منی پور کے لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑک دیا کہ وزیر اعظم کی رہنمائی اور فوری نگرانی کے سبب گردابی طوفان سے گجرات میں ایک بھی جان نہیں گئی۔ وزیر داخلہ جانتے ہوں گے کہ منی پور میں کتنے لوگوں کی جان گئی ہے۔ ویسے حکومت 130 ہلاکتوں کی بات کرتی ہے۔

رواں سال 3 مئی کے بعد کے تجرات سے منی پوریوں نے جانا ہے کہ سب کچھ گنوانے کا کیا مطلب ہے... نہ گھر، نہ ملازمت، نہ کاروبار، نہ ضروری اشیا، نہ طبی سہولیات اور نہ انٹرنیٹ۔ 50 ہزار نقل مکانی کو مجبور ہوئے جن میں بیشتر پہاڑوں سے ہیں۔ امپھال میں اسلحہ خانہ سے شہریوں کو تقسیم کیے گئے 4000 سے 4500 اسلحوں میں سے بیشتر، اور گولہ بارود کے 13 لاکھ راؤنڈ ابھی برآمد ہونے ہیں۔ اراکین اسمبلی، وزرا اور وزیر مملکت برائے خارجہ کے گھروں پر حملے ہو رہے ہیں، لوگوں کی سیکورٹی اللہ بھروسے ہے۔ لوگ سب دیکھ رہے ہیں۔

منی پور نے وہ دیکھا ہے جو کشمیر میں کبھی نہیں ہوا۔ یعنی فوج سے لوٹے گئے جدید اسلحوں اور گولہ بارود کو واپس کرنے کے لیے ڈراپ باکس اور قانونی کارروائی سے معافی کی پیشکش۔ مغربی بنگال کے ایک دو اضلاع میں انتخابی تشدد ہو جائے تو بی جے پی صدر راج نافذ کرنے کا مطالبہ کرنے لگتی ہے، لیکن منی پور میں مرکزی وزارت داخلہ کے لیے صدر راج اب بھی ’آخری متبادل‘ ہے۔ ’دی ہندو‘ نے حال ہی میں وزارت داخلہ کے ایک افسر کے حوالے سے لکھا کہ ’’ابھی انتظار کرو اور دیکھو والی حالت ہے۔ ہم سوچ کر چل رہے ہیں کہ اس میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔ 1990 کی دہائی میں جب کوکی-ناگا جدوجہد ہوا تھا تب 700 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے اور حالات معمول پر آنے میں سالوں لگے تھے۔‘‘ ایسے واقعات کشمیر یا کسی اپوزیشن حکمراں ریاست میں ہوتے تو کیا رد عمل ویسا ہی ہوتا؟


میزورم، ناگالینڈ، پنجاب یا کشمیر میں ایسے تشدد کے بعد ماضی میں کسی بھی مرکزی حکومت نے اس قدر طویل مدت تک اپنے پیر کھینچے نہیں رکھے۔ ریاستی حکومتوں کو برخواست کیا گیا، سخت اور پیشہ ور گورنر بھیجے گئے اور سیکورٹی فورسز اور فوج کو تشدد والے حالات کو قابو کرنے کے لیے کھلی چھوٹ دی گئی۔

میتئی (آبادی کا 53 فیصد) اور کوکی (آبادی کا 16 فیصد) دونوں کا کہنا ہے کہ انھیں ان سب میں سازش کی بو آتی ہے۔ میتئی طبقہ پناہ گزینوں کی دراندازی کو حوصلہ بخشنے اور ریاست کو غیر مستحکم کرنے کے پیچھے بین الاقوامی سازش تصور کرتے ہیں، تو کوکیوں کو لگتا ہے کہ یہ انھیں پہاڑوں سے بے دخل کرنے کے لیے ہے۔

میانمار سے پناہ گزیں آ رہے ہیں، حالانکہ تعداد پر تنازعہ ہے۔ میتئی اسے لاکھوں میں مانتے ہیں جبکہ کوکی ہزاروں میں۔ لیکن میانمار میں خانہ جنگی شروع ہونے اور ہندوستان کے ذریعہ مبینہ طور سے وہاں فوجی حکمراں کو اسلحہ کی فراہمی کرنے کی وہج سے حالات تھوڑے غیر واضح ہیں۔ کاغذ پر ہندوستان کے پاس دراندازی کو روکنے کے لیے ’جُنٹا‘ کی حمایت کا فائدہ ہے۔ لیکن میتئی کا دعویٰ ہے کہ میانمار کے ڈرگ مافیا میانمار میں عدم استحکام کے سبب کوکی کو منی پور میں افیم کی زراعت کے لیے حوصلہ بخش رہے ہیں۔

دوسری طرف کوکی تمام عجیب اتفاقات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ منی پور میں نسلی جدوجہد شروع ہونے سے بمشکل ایک ماہ پہلے امپھال وادی سے افسپا (مسلح فورس خصوصی اختیارات ایکٹ) واپس لے لیا گیا تھا۔ دہلی میں مرکزی وزیر داخلہ اور امپھال میں وزیر اعلیٰ نے اس کا ایک ساتھ اعلان کیا۔ یہ پوچھے جانے پر کہ پہاڑی ضلعوں سے افسپا کیوں نہیں ہٹایا گیا، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ایسا اس لیے ہوگا کہ وہ بین الاقوامی سرحد کے قریب ہیں۔ حیرانی کی بات ہے کہ ایک ماہ بعد امپھال میں سرکاری اسلحے لوٹ لیے جاتے ہیں۔


اپریل میں منی پور حکومت نے مرکزی وزارت داخلہ سے ان کوکی شورش پسندوں کے ساتھ بات چیت روکنے کی گزارش کی جن سے حکومت ہند نے ’ایس او او‘ (آپریشن کو معطل کرنا) معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ حالانکہ گزارش کو وزارت داخلہ نے ٹھکرا دیا۔

کوکیوں نے حال ہی میں سپریم کورٹ میں کہا کہ منی پور میں کوکیوں کے نسلی صفایہ کی مہم شروع کرنے میں مرکز اور منی پور کی حکومتوں کی ملی بھگت ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ عدالت عظمیٰ فوج کو ان کی سیکورٹی کے لیے کوکی گاؤں میں تعیناتی کی ہدایت دے اور کوکیوں کو واپسی کی اجازت دے۔ قبائلیوں کے گروپ کی نمائندگی کرنے والے کالن گونجالوس نے عدالت کو بتایا کہ منی پور کے پہاڑی علاقوں میں قدرتی گیس، پٹرولیم اور کوبالٹ جیسے معدنیات کا عظیم ذخیرہ ملا ہے، کوکیوں کا ماننا ہے کہ قبائلیوں کو دہشت زدہ کرنے اور انھیں پہاڑیوں سے بھگانے کی کوشش ہو رہی ہے تاکہ کرونی کیپٹلسٹ اور حکومت بغیر کسی جدوجہد کے وسائل پر قبضہ کر سکیں۔ حیدر آباد یونیورسٹی میں پالٹیکل سائنس ڈپارٹمنٹ کے چیف پروفیسر خام خان سوان ہوسنگ نے ’دی ڈپلومیٹ‘ کی جنوبی ایشیا ایڈیٹر سدھا رام چندرن سے بات چیت میں ایسی ہی ملی بھگت کا اندیشہ ظاہر کیا تھا۔

بیرین سنگھ کا پسندیدہ سیاسی پروجیکٹ ’گو ٹو دی ہلس‘ کا مقصد پہاڑی-وادی کی تقسیم کو ختم کرنا تھا۔ کئی مرکز کے اسپانسرڈ ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا گیا اور پہاڑیوں میں کابینہ کی میٹنگیں ہوئیں، لیکن ہوسنگ کے مطابق میتئی لیپون جیسی کٹرپسند تنظیموں نے پہاڑیوں پر مذہبی تیرتھ یاتراؤں کو جارحانہ طور پر فروغ دیا جبکہ ایک دیگر کٹرپسند گروپ ارامبائی ٹینگول کو اسلحہ ٹریننگ کیمپ منقعد کرنے دیا گیا۔

’پوتری کرن‘ پروجیکٹ کو آر ایس ایس کا آشیرواد حاصل تھا اور ریاستی حکومت نے ہندوؤں اور عیسائیوں کے درمیان فاصلہ پیدا کیا۔ ثبوت کے طور پر ہوسنگ بتاتے ہیں کہ حال کے سالوں میں 188 میتئی ہندو مندروں کو مستقل کیا گیا جبکہ ایک بھی قبائلی چرچ کو نہیں۔ ریاستی حکومت نے فروری-مارچ 2023 میں لائسنس کے ’رینوول‘ کے بہانے پہاڑوں میں مقیم لوگوں سے لائسنسی بندوقیں بھی لے لیں۔


مرکزی حکومت نے منی پور پر کل جماعتی میٹنگ بلانے کے مشوروں کو لگاتار نظر انداز کیا ہے۔ پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی کو ابھی اس بحران پر غور کرنا ہے اور فیکٹ فائنڈنگ کمیٹیوں کو منی پور کا دورہ کرنے کی اجازت اب تک نہیں دی گئی ہے۔

اس درمیان وزیر اعظم نریندر مودی، جنھوں نے مبینہ طور سے ایک ٹیلی فون کال سے یوکرین جنگ کو کچھ گھنٹوں کے لیے روک دیا تھا، منی پور میں جدوجہد کو ختم کرنے میں نااہل یا ناخواہاں ہیں۔ انھوں نے گزشتہ دنوں منی پور کے اراکین اسمبلی اور سابق اراکین اسمبلی کے تین الگ الگ نمائندہ وفود سے ملنے سے انکار کر دیا جن میں سے دو بی جے پی کے تھے۔

وزیر اعظم مودی نے ایک بار آٹھ شمال مشرقی ریاستوں کو ’اَشٹ لکشمی‘ یا ’دیوی لکشمی‘ کے آٹھ روپ کی شکل میں ظاہر کیا تھا۔ اب اگر منی پور جلتا رہا تو پورے علاقے کے استحکام کو خطرہ لاحق ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔