حکومت نے الیکشن کے دوران جس رپورٹ کو خارج کیا، اب اسی کو کیا جاری

بے روزگاری کے اعداد و شمار کو دیکھنے پر اوسط طور پر تو 6.1 لگتے ہیں مگر رپورٹ کا وسیع مطالعہ کرنے پر حالات بالکل بر عکس نظر آتے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

آخرکار ایک بار پھر بی جے پی کے زیر قیادت این ڈی اے مرکزی اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ اس سلسلے میں جمعرات کو نریندر مودی نے اپنی دوسری مدت کے لئے وزیراعظم عہدے کاحلف لیا اس کے ساتھ ہی ان کے کابینی رفقاء کی بھی حلف برداری ہوئی اور وزراء کو قلمدان تقسیم کر دیئے گئے۔ مگر اسی دوران ایک خبر نے مرکزی حکومت کی نیند اڑا دیں ہیں- حلف برداری کے دوسرے ہی دن مودی حکومت کے لئے روزگار کے محاذ پر بری خبر آئی جس نے پچھلی این ڈی اے حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔

نیشنل سیمپل سروے آفس (این ایس ایس او) کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق سال2017 سے لے کرجون 2018 کے دوران ایک سال میں بے روزگاری 6.1 فی صد بڑھی ہے۔ تازہ اعداد و شمار کو سرکاری طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ یاد رہے جنوری ماہ میں مودی حکومت کی لیک ہوئی اسی سرکاری رپورٹ کو خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ بے روزگاری کے اعداد و شمار کو ابھی حتمی شکل نہیں دی گئی ہے۔ وجہ صاف ہے کہ جب رپورٹ لیک ہوئی تھی تب سیاسی پارٹیاں عام انتخابات کی تیاریوں میں مصروف تھیں۔ مودی حکومت 2014 میں کیے گئے وعدوں کو لے کر بری طرح گھری ہوئی تھی ان میں ہرسال پانچ ہزار نوجوانوں کو روزگار دینے کا بڑا وعدہ شامل تھا۔ انتخابات میں کسی ناراضگی کا خمیازہ بھگتنے سے بچ نکلنے والی بی جے پی حکومت اب جب کہ مستقبل قریب میں کوئی خطرہ (انتخابات) نہیں ہے، توحکومت نے جمعہ کو اسی رپورٹ کو جاری کر دیا۔


موجودہ وقت میں ملک میں بے روزگاری کی شرح 45 برس کی سب سے زیادہ اونچی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اس سے پہلے-731972 میں بے روزگاری کی شرح 6.1 فیصد تھی۔ انتخابات کے پیش نظر حکومت نے لیک ہوئی رپورٹ کو تصوراتی بتا کر مسترد کر دیا تھا کیونکہ انتخابات سر پر تھے اور ایسی حالت میں نوجوانوں کی ناراضگی مودی حکومت کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی تھی جس کا خمیازہ یقینی طور پر بی جے پی کو بھگتنا پڑسکتا تھا۔

تازہ اعداد و شمار کے مطابق جولائی2017 سے جون 2018 کی مدت میں مجموعی طور پر 12ہزار 800 بستیوں میں سروے کیا گیا۔ جن میں 7024 گاؤں اور 5776 شہرشامل ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ حکومت نے این ایس ایس او کی رپورٹ جاری کرنے پر روک لگا دی تھی۔ -182017 کے لئے سالانہ روزگار سروے منظور ہونے کے بعد بھی جاری نہیں کی گئی۔ اس وقت مرکزی حکومت کو بے حد اہم اعداد وشمار روکنے کے لئے اپوزیشن پارٹیوں کے الزامات کاجواب دینا مشکل ہوگیا تھا۔ اپوزیشن کا الزام تھا کہ حکومت اپنی ناکامی کوجان بوجھ کوچھپا رہی ہے۔ حکومت کے فیصلے کی مخالفت میں این ایس ایس او کے پی سی موہنن اور جی وی میناکشی نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ آج مرکزی حکومت کے اعداد و شمار وزارت شماریات نے جاری کر دیئے۔

31 مئی کو جاری رپورٹ میں شمار کیا گیا ہے کہ بے روزگاری کی شرح 6.1 فیصد ہو گئی ہے۔ شہروں میں روزگار کے لئے دستیاب نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 7.8 فیصد ہے۔ دیہات میں روزگار کے لئے موجود نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 5.3 فیصد ہے۔ یہ اوسط اعداد و شمار ہے لیکن الگ الگ دیکھنے پرصورتحال خوفناک نظر آتی ہے۔ دیہات میں جو بے روزگاری ہے اس کا ہمیں اندازہ بھی نہیں ہے۔ سردست بے روزگاری مسئلہ نہیں ہے کیونکہ نام نہاد ’راشٹربھکتوں‘ کے دل ودماغ پر اس وقت سیکولر پارٹیوں کی ہار اور بھگواپارٹی کی جیت کا بخار چڑھا ہوا ہے - پھر بھی چونکہ سرکاری رپورٹ میں لکھا ہے تو ذکر ضروری ہو جاتا ہے۔

بے روزگاری کے اعداد و شمار دیکھنے میں اوسط طور پر تو 6.1 لگتا ہے مگر رپورٹ کا وسیع مطالعہ کرنے پر حالات اور بھی بھیانک نظر آتے ہہیں۔ 2011-12 میں دیہات میں 15 سے 29 سال کے نوجوانوں میں بے روزگاری 5 فیصد تھی۔ 2017-18 میں دیہات میں لڑکوں کے درمیان بے روزگاری بڑھ کر 17.4 فیصد ہو گئی۔ 2011-12 میں دیہات میں 15 سے 29 سال کی لڑکیوں میں بے روزگاری 4.8 فیصد تھی وہیں 2017-18 میں یہ بے روزگاری بڑھ کر 13.6 فیصد ہو گئی۔


اسی طرح اگر آپ شہروں میں لڑکے اور لڑکیوں میں بے روزگاری کی شرح کو دیکھیں گے تو تصویر دھماکہ خیز نظر آئے گی۔ شہروں کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 2004-05 اور 2011-12 میں 7.5 اور 8.8 فیصد کے درمیان رہی ہے۔ 2017-18 میں 18.7 فیصد بے روزگاری کی شرح ہو گئی۔ 2004-05، 2011-12 کے درمیان شہری لڑکیوں میں بے روزگاری کی شرح 13.1 اور 14.9 فیصد کے درمیان ہوتی تھی۔ 2017-18 میں یہ بے روزگاری کی شرح 27.2 فیصد ہو گئی ہے۔ دسمبر میں جو رپورٹ جاری ہونی تھی اور نہیں ہوئی اس میں یہ بات تھی کہ 45 سال میں سب سے زیادہ بے روزگاری کی شرح ہے۔ اگر ہمارے پاس وہ پیمانہ نہ بھی ہو تو بھی شہروں میں اوسط بے روزگاری کی شرح 7.8 فیصد کافی زیادہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔