کیا رام بی جے پی کا بیڑا پار لگائیں گے؟ لگتا تو نہیں…

شری شری روی شنکر کا مقصد رام مندر-بابری مسجد کا تنازعہ حل کرنا تو شاید نہیں تھا، تو کیا مندر کے نام پر جذبات بھڑکانے کی کوشش ان کا مقصد تھا؟ اگر ایسا تھا تو یہ مشن پوری طرح ناکام ہو چکا ہے۔

شری شری روی شنکر ایودھیا میں ہندو رہنماؤں اور سادھؤں سے ملاقات کرتے ہوئے/UNI
شری شری روی شنکر ایودھیا میں ہندو رہنماؤں اور سادھؤں سے ملاقات کرتے ہوئے/UNI
user

ظفر آغا

ہے رام! بی جے پی پھر سے بھگوان رام کی پناہ میں ہے۔ شری شری لکھنؤ اور ایودھیا کے درمیان چکر لگا رہے ہیں۔ بلاشبہ شری شری کی رام مندر کے لئے اچانک جاگی اس محبت سے بی جے پی کو امید نظر آنے لگی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے تو خود ہی دیوالی پر ایودھیا میں عظیم الشان تقریب کا انعقاد کیا تھا۔ تو کیا بی جے پی بھگوان رام کو لوگوں کے سامنے لانے کے لئے بے چین ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا بی جے پی کسی مصیبت میں ہے جو بھگوان رام کو یاد کر رہی ہے۔ کیوں کہ کبیر نے بھی کہا تھا :

دکھ میں سمرن سب کریں، سکھ میں کرے نہ کوئے..

حقیقت یہی ہے کہ بی جے پی اس وقت پریشانی میں ہے۔ ان کے خود ساختہ ’دیوتا ‘ نریندر مودی کا جادو پھیکا پڑ چکا ہے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے غلط اثرات سے نہ صرف کام دھندے بیٹھ گئے ہیں بلکہ عام لوگوں کا صبر بھی جواب دے گیا ہے۔ اب وہ بی جے پی کے جھانسے میں نہیں آنے والے۔ اس سال ستمبر کے بعد سے بی جے پی نے کوئی چناؤ نہیں جیتا ہے۔ گڑگاؤں اور ناندیڑ کا میونسپل چناؤ ہو، جے این یو سے لے کر بی ایچ یو تک طلباء یونین کا چناؤ ہو ، پنجاب میں لوک سبھا کا ضمنی چناؤ ہو یا پھر مدھیہ پردیش میں ضمنی چناؤ ، بی جے پی کو ہر جگہ منہ کی کھانی پڑی ہے۔

’مودی میجک ‘کام نہیں کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں صرف بھگوان رام ہی ہندو حقوق کی مبینہ محافظ بی جے پی کو بچا سکتے ہیں۔ آخر بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر تعمیر کا جھانسہ دے کر ہی تو بی جے پی 1991 میں اہم اپوزیشن پارٹی بنی تھی۔ اب خطرہ اتر پردیش اور گجرات دونون جگہوں پر ہے۔

گجرات مودی کا اپنا علاقہ ہے۔ 2003 سے مودی لگاتار وہاں سے چناؤ جیتتے رہے ہیں۔ گجرات نے ہی مودی کو ایک معمولی کارکن سے قومی سطح کا رہنما اور آخر میں وزیر اعظم بنا دیا۔لیکن بی جے پی کا مسئلہ یہ ہے کہ گجرات اب اس کا گڑھ نہیں رہ گیا ہے۔ راہل گاندھی نے اس کا راستہ کاٹ دیا ہے۔ کانگریس کے سخت مخالفین بھی یہی کہتے نظر آ رہے ہیں کہ گجرات میں بی جے پی کو کانگریس سے سخت مقابلے کا سامنا ہے ۔ اگر ذرا بھی گڑبڑی ہوتی ہے تو مودی کا دہلی کا قلعہ بھی ڈھہ سکتا ہے۔ یقینی طور پر مودی کو ذاتی طور پر پریشانی ہے اور پوری بھگوا بریگیڈ اس وقت مصیبت میں ہے۔

لیکن بی جے پی صرف گجرات کے حوالے سے ہی پریشان نہیں ہے۔ اس کے سامنے مصیبت تو اتر پردیش میں بھی ہے۔ بی جے پی کے لئے یہ اہم ترین ریاست ہے ۔ یہیں سے لوک سبھا میں سب سے بڑی تعداد میں یعنی 80 اراکین پارلیمنٹ جاتے ہیں۔ موجودہ لوک سبھا میں بھی بی جے پی کے 70 اراکین پارلیمنٹ اتر پردیش سے ہیں۔ جبکہ اتحادیوں کو بھی ملا لیا جائے تو یہ تعداد 73 پہنچ جاتی ہے۔ اس وقت بھگوان رام کی آبائی ریاست بلدیہ انتخابات میں مصروف ہے۔ وہاں سے جو اشارے مل رہے ہیں ان کے مطابق بی جے پی کی حالت خستہ ہے۔ اگر نتائج بھی اشاروں کے مطابق ہی رہتے ہیں تو بی جے پی کے لئے شرمندگی کی اس سے بڑی وجہ نہیں ہو سکتی۔ ایسے میں بی جے پی کے پاس کامیابی کا ایک ہی فارمولہ ہے اور وہ ہے لوگوں کے جذبات کو بھڑکانا۔ بی جے پی رام مندر کے نام پر براہمنوں اور پدماوتی کے بہانے ٹھاکروں یا راجپوتوں کو بھڑکانے میں لگی ہے۔ لگتا ہے کہ بی جے پی ان دونوں مدوں سے اتر پردیش کے بلدیاتی اور گجرات اسمبلی انتخابات میں ہوا کا رخ اپنی طر ف کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

لیکن اس بار بی جے پی اسکرپٹ ٹھیک سے تیار نہیں کر پائی اور اس میں خامی رہ گئی ۔ ہندو جذبات کو بی جے پی تبھی کامیابی سے ہوا دے پاتی ہے جب مسلمان رام مندر تعمیر کی مخالفت میں کھل کر سامنے آئیں۔ لیکن اس بار ماحول 1990 جیسا نہیں ہے جب بابری مسجد ایکشن کمیٹی اور وشو ہندو پریشد آمنے سامنے ہوں۔ ایودھیا میں تنازعہ والی جگہ پر کیا تعمیر کیا جائے یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ مسلمان مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ ہوگا انہیں منظور ہوگا۔

تو پھر رام مندر تعمیر کے مدے کو بی جے پی ہندو غصے کو کس طرح بھنائے؟ ممکنہ طور پر اسی وجہ سے شری شری روی شنکر جس مشن پر اتر پردیش پہنچے ہیں وہ ناکام ہوتا نظر آ رہا ہے۔ نہ تو مسلمان اور نہ ہی ہندو فریقین نے اس حوالے سے شری شری روی شنکر سے ملنے میں گرم جوشی کا مظاہرہ کیا ہے۔

ایسے حالات میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھگوان رام بھی بی جے پی کا بیڑا پار کرانے کے خواہشمند نہیں ہیں۔ اب چناؤ جیتنے کی ساری ذمہ داری نریندر مودی پر ہے۔ مودی ایک چالاک رہنما ہیں اور کب کس کارڈ کو کھیلنا ہے اچھی طرح جانتے ہیں۔ اب نہ تو کوئی گودھرا ہو سکتا ہے اور نہ کوئی اکشر دھا م جس کے دم پر وہ ہندو محافظ کے طور پر سامنے آئیں ۔ اور اگر ایسا کچھ نہیں ہوتا تو پھر اتر پردیش کے بلدیاتی اور گجرات اسمبلی انتخابات کے نتائج بہار جیسے ہوں گے۔

ایک بار پھر وہی کبیر کا دوہا یاد آتا ہے۔

دکھ میں سمرن سب کریں، سکھ میں کرے نہ کوئے،

جو سکھ میں سمرن کریں، دکھ کاہے کو ہوئے۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔