جب تیزی کے ساتھ سامنے آئے الیکشن کمیشن کے جھوٹ... یوگیندر یادو
گیانیش کمار کا ابتدائی بیان کسی آئینی ادارہ کے سربراہ کے بیان کی جگہ سیاسی لیڈر کی تقریر جیسا تھا۔ یہ قیاس لگانا فطری تھا کہ تقریر کہیں اور سے لکھ کر آئی ہے۔ وہ میچ کے امپائر کم، کھلاڑی زیادہ نظر آئے۔

الیکشن کمیشن کی خصوصی پریس کانفرنس نے صرف گیانیش کمار گپتا کا قد چھوٹا نہیں کیا، بلکہ اس سے الیکشن کمیشن نامی آئینی ادارہ کا وقار بھی مجروح ہوا۔ یہ نہ سمجھیے کہ اس معاملہ میں الیکشن کمیشن کی شکست اور اپوزیشن کی فتح ہوئی ہے۔ ایسا واقعہ ہر ہندوستانی کا سر شرم سے جھکا دیتا ہے، دہائیوں سے جمع قومی پونجی کو تباہ کر دیتا ہے۔ انتخابی جمہوریت کے ہمارے قائم کردہ نظام کو اس گڈھے کی طرف دھکیلتا ہے جہاں سے واپس اوپر لوٹنا آسان نہیں ہوتا۔
اپنے پچھلے جنم میں ایک پروفیسر اور ماہر رائے شماری ہونے کے ناطے میں دنیا بھر میں ہندوستان کے انتخابی نظام کی تعریف کرتا تھا۔ بڑے فخر سے بتاتا تھا کہ آزاد غیر جانبدار انتخاب منعقد کرنا صرف مغربی ممالک کی خاصیت نہیں ہے۔ نوآبادیاتی غلامی کی زنجیریں توڑنے والا ایک نہایت غریب ملک بھی انتخابی جمہوریت کی مثال بن سکتا ہے۔ انگلینڈ کو ہندوستانی الیکشن کمیشن سے طریقۂ کار سیکھنے کو کہا تھا۔ امریکہ کو نصیحت بھی دی تھی کہ بغیر جانبداری کے انتخاب کی تکمیل ہندوستان کے انتخابی نظام سے سیکھنا چاہیے۔ گزشتہ کچھ سالوں میں اسی الیکشن کمیشن کی کارستانیوں نے ہندوستانی انتخابی نظام کی ساکھ کو مٹی میں ملا دیا ہے۔ اس لیے آج یہ تحریر لکھتے ہوئے میرا سر شرم سے جھکا ہوا ہے۔
الیکشن کمیشن کے ذریعہ منعقد پریس کانفرنس کے پیچھے کی وجہ سمجھیے۔ اس سے کوئی 10 دن قبل پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے قائد راہل گاندھی پہلے مہاراشٹر میں ووٹر لسٹ کے فرضی واڑے کا الزام عائد کرنے کے بعد کرناٹک کے ایک اسمبلی حلقہ میں ووٹر لسٹ دھاندلی کے سنگین ثبوت ملک کے سامنے رکھ چکے تھے۔ بہار میں ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظرثانی پر سنگین سوال اٹھا چکے تھے۔ عوامی سروے دکھا رہے تھے کہ الیکشن کمیشن کی ساکھ اپنے تاریخی زوال سے نیچے گر چکی ہے۔ بہار کی سبھی اپوزیشن پارٹیوں کے سرکردہ لیڈران اتوار (17 اگست) کو ووٹ بندی کے خلاف ’ووٹر ادھیکار یاترا‘ کی شروعات کرنے والے تھے۔ الیکشن کمیشن نے ٹھیک اسی دن، اتوار کو سرکاری تعطیل کے باوجود پریس کانفرنس طلب کی۔ خبروں اور میڈیا کی چال سمجھنے والوں کو اسی وقت اندیشہ ہو گیا تھا کہ ہو نہ ہو یہ اپوزیشن کی ہیڈلائن ختم کرنے کا کھیل ہے۔
لیکن کہیں یہ امید بچی تھی کہ الیکشن کمیشن حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے انتخابی نظام کی ساکھ بچانے کے لیے کوئی بڑا اعلان کر سکتا ہے۔ ایسی جانچ کا اعلان ہو سکتا ہے جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ امید اس بات سے بھی بندھی کہ پریس کانفرنس میں سبھی میڈیا اہلکاروں کو آنے کی چھوٹ دی گئی، سوالوں کو سنسر نہیں کیا گیا۔ لیکن پریس کانفرنس میں جو کہا گیا اور جو نہیں کہا گیا، وہ الیکشن کمیشن کی تاریخ میں ایک شرمناک باب کی طرح درج کیا جائے گا۔
اس پریس کانفرنس میں چیف الیکشن کمشنر کی زبان اور چہرے کے آثار کو لے کر گزشتہ کچھ دنوں میں خوب مذاق ہو چکا ہے۔ گیانیش جی ان سبھی تنقیدوں کے اہل ہیں۔ ان کا ابتدائی بیان کسی آئینی ادارہ کے سربراہ کے بیان کی جگہ ایک سیاسی لیڈر کی تقریر جیسا تھا۔ یہ قیاس لگانا فطری تھا کہ ان کی تقریر کہیں اور سے لکھ کر آئی ہے۔ غنیمت سمجھیے کہ انھوں نے اپنے پیش رو راجیو کمار کی طرح تُک بندی کی کوشش نہیں کی، لیکن سستے فلمی ڈائیلاگ پر اپنا ہاتھ ضرور آزمایا۔ ناقدین سے اوپر اٹھنے کی جگہ وہ ناقدین سے جنگ کرنے پر آمادہ دکھائی دیے۔ میچ کے امپائر کم اور کھلاڑی زیادہ نظر آئے۔
اگر انداز بیاں کو چھوڑ بھی دیں تو بھی اس پریس کانفرنس میں جو ہوا، وہ عجوبہ تھا۔ بے شک صحافی اپنے سوال پوچھنے کے لیے آزاد تھے، لیکن چیف الیکشن کمشنر بھی کسی بھی سوال کا جواب دینے یا نہ دینے کے لیے آزاد تھے۔ کسی سوال کے جواب میں کچھ بھی صحیح یا غلط بولنے کے لیے آزاد تھے۔ مثال دیکھیے:
سوال: راہل گاندھی سے حلف نامہ طلب کیا، تو انوراگ ٹھاکر سے کیوں نہیں؟
جواب: صرف مقامی ووٹر ہی اعتراض درج کرا سکتے ہیں۔
(تو انوراگ ٹھاکر وائناڈ کے کب سے مقامی ووٹر ہیں؟)
سوال: اگر حلف نامہ دینے سے جواب ملتا ہے، تو سماجوادی پارٹی نے جو حلف نامہ دیا تھا، اس کا کوئی جواب کیوں نہیں ملا؟
جواب: ایسا کوئی حلف نامہ نہیں دیا گیا تھا۔
(یہ جواب سفید جھوٹ نکلا۔)
سوال: اگر ووٹر لسٹ میں خامی تھی، تو کیا مودی جی کی حکومت ووٹ دھاندلی کی بنیاد پر بنی ہے؟
جواب: الیکٹر ہونے اور ووٹر ہونے میں فرق ہے۔ جن کا ووٹر لسٹ میں غلط نام تھا، انھوں نے ووٹ نہیں دیا۔
(اس حیرت انگیز نتیجہ کی بنیاد ظاہر نہیں کی گئی۔)
سوال: ایس آئی آر سے قبل پارٹیوں سے رائے مشورہ کیوں نہیں ہوا؟
(اس سوال کا کوئی جواب نہیں ملا۔)
سوال: انتخاب والے سال میں گہری نظرثانی نہ کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن کے اپنے ہی تحریری ضابطے کو کیوں توڑا گیا؟
جواب: نظرثانی انتخاب سے پہلے کروائیں یا بعد میں؟
(ایک گھٹیا مذاق، اس الزام سے بچنے کے لیے جس سے بچ نہیں سکتے تھے۔)
سوال: اتنی جلدبازی میں بارش و سیلاب کے درمیان ایس آئی آر کیوں کروایا گیا؟
جواب: اسی مہینے میں 2003 میں بھی کرایا گیا تھا۔
(نوٹ: 2003 میں نظرثانی سے کئی ماہ پہلے تیاری کی گئی تھی، اور تب نہ فارم تھا، نہ دستاویز اکٹھے کرنے تھے۔)
مگر کون یاد دلائے؟ کئی صحافیوں نے سیدھے ثبوت کا مطالبہ کیا۔ کتنے لوگوں نے فارم کے ساتھ کوئی دستاویز نہیں جمع کروایا؟ بی ایل او نے کتنے فارم کو ’ناٹ ریکمنڈیڈ‘ زمرہ میں ڈالا؟ کس بنیاد پر؟ بہار میں ایس آئی آر کے دوران جون و جولائی کے درمیان کتنے نام جوڑے گئے؟ ایس آئی آر کے ذریعہ پرانی ووٹر لسٹ میں کتنے غیر ملکی درانداز نکلے؟ ان سب سوالات کے جواب میں ملا صرف سناٹا۔
بیچ بیچ میں سناٹے کو توڑتی تھی لفاظی۔ ’7 کروڑ ووٹرس الیکشن کمیشن کے ساتھ کھڑے ہیں‘ جیسے بے معنی ڈائیلاگ۔ شام کو دیر تک ووٹنگ کے ثبوت کی شکل میں مانگی گئی سی سی ٹی وی ویڈیو کو ماؤں و بہنوں کی عزت سے جوڑنے کی بے کار کوشش۔ مشیل ریڈیبل ڈاٹا کے مطالبہ کو خطرناک بتانے کی مضحکہ خیز کوشش۔ ملک کے سامنے اتنا بڑا جھوٹ بولنے کی حماقت کہ بہار کے ہر گاؤں و محلے میں بی ایل او نے مقامی پارٹی کارکنان کی میٹنگ بلا کر انھیں یہ فہرست دی کہ کون مہلوک ہیں، کون باہر چلے گئے ہیں۔
آدھا سچ اور مکمل جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک وہ شرمناک عبارت تھی، جو بولی نہیں گئی، بس جس کا احساس کروایا گیا۔ ووٹر بننا شہری کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمیشن کی نہیں۔ اگر ووٹر لسٹ میں کوئی گڑبڑی ہے تو پارٹیوں کا قصور ہے، الیکشن کمیشن کا نہیں۔ الزام چاہے جیسے بھی ہوں، جانچ نہیں کروائیں گے۔ جسے جو کرنا ہے، کر کے دیکھ لے۔ الیکشن کمیشن چٹان کی طرح کھڑا ہے۔
اب آپ خود سمجھ لیجیے کس کے ساتھ کھڑا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔