وزیر داخلہ ہی سنی سنائی باتیں پھیلانے لگیں تو وہ ’لنچنگ‘ پر کیسے قابو پائیں گے!

تیز رفتار سوشل میڈیا نہیں تھا تب سویم سیوکوں کے ذریعہ زبانی افواہ پھیلائی جاتی تھی۔ اسی لیے تو ایک بچہ یہ پوچھتا ہوا نظر آتا ہے کہ گاندھی جی کا قتل گوڈسے نے نہیں، جھاڑی میں چھپے کسی شخص نے کی تھی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اپوروانند

سوامی اگنیویش پر حملے کے اگلے دن پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ نے ملک میں پیٹ پیٹ کر لوگوں کو مار ڈالنے کے واقعات کو افسوسناک بتایا۔ نہ تو وزیر داخلہ نے اور نہ کسی دیگر وزیر نے سوامی جی پر ہوئے حملے کی مذمت کی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ نظامِ قانون برقرار رکھنا ریاستی حکومتوں کا معاملہ ہے۔ پھر بھی مرکزی حکومت سوشل میڈیا کمپنیوں کو افواہ پھیلانے سے روکنے کے اقدام کرنے کو کہہ رہی ہے۔ وزیر قانون نے کہا کہ اگر افواہ سوشل میڈیا کے ذریعہ پھیلتی ہے تو ذمہ داری ان کی بھی اتنی ہی ہے۔

سوامی اگنیویش پر حملہ کسی افواہ کی وجہ سے ان سے ناراض ہو کر اپنے آپ اکٹھا ہو گئی بھیڑ نے نہیں کی تھی۔ یہ پہلے سے منصوبہ بند اور منظم حملہ تھا۔ بی جے پی یوتھ مورچہ نے سوامی جی کے پاکوڑ آنے پر پہلے سے ہی احتجاج کا اعلان کر رکھا تھا۔ وہاں وہ پہاڑیہ قبائلی گروپ کے ایک ادارہ کی دعوت پر گئے تھے۔ بی جے پی یوتھ مورچہ اور بی جے پی نے کہا کہ وہ بھولے بھالے پہاڑیہ لوگوں کو ورغلانے گئے تھے، ان کو عیسائی بنانے کی سازش میں شامل تھے، وہ نکسل حامی ہیں اس لیے ہم نے ان کی مخالفت کا عزم کیا تھا، لیکن حملہ ہم نے نہیں کیا۔ یہ بہت دلچسپ ہے۔ سوامی جی کو کالے جھنڈے دکھانے والے اور ان پر ٹوٹ پڑنے والے ایک ہی ہیں۔ یہ آپ ویڈیو میں بھی صاف دیکھ سکتے ہیں۔ پھر بی جے پی یوتھ مورچہ کے دعوے کو کس طرح درست مانیں؟

بی جے پی کی ڈھٹائی یہ ہے کہ جھارکھنڈ ریاست میں اس کے ایک وزیر نے کہا کہ یہ حملہ سوامی جی نے خود ہی کروایا تھا۔ لگاتار سوامی جی کے خلاف زہر پھیلانے، ان پر ہوئے حملے کی کوئی مذمت نہیں اور اسی سانس میں خود کو اس سے بری کر لینا، یہ ہے بی جے پی کی پالیسی جو وہ برسوں سے استعمال کرتی آئی ہے۔

لیکن ہم وزیر داخلہ کے بیان پر لوٹتے ہیں۔ وہ افواہ یا جھوٹی خبر کو اس طرح کے واقعات کے لیے ذمہ دارمانتے ہیں۔ یعنی جھوٹی خبریں پھیلا کر لوگوں میں فکر، انجان یا دوسرے لوگوں کو لے کر اندیشہ، ان کے خلاف تعصب پیدا کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے کسی بھی ’دوسرے‘ کو دیکھتے ہی لوگ مشتعل ہو جاتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔

وزیر داخلہ غلط نہیں کر رہے، حالانکہ وہ کوئی بنیادی بات بھی نہیں بتا رہے۔ لیکن جھوٹی خبر کا اصل سوشل میڈیا نہیں ہے، وہ محض ذریعہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسے ذریعہ بناتا کون ہے؟ وزیر داخلہ اس ضمن میں خود اپنا کردار یاد کریں سال 2016 میں۔ 9 فروری کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں افضل گرو کی پھانسی کی برسی پر ہوئی تقریب میں ہنگامے کے بعد راج ناتھ سنگھ نے الٰہ آباد میں ایک تقریب میں کہا ’’میں صاف کر دینا چاہتا ہوں کہ جو بھی جے این یو میں ہوا اس کو لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ سعید کی حمایت حاصل تھی اور اس دلیل کو سبھی ہندوستانیوں کو سمجھ لینا چاہیے۔ لشکر طیبہ نے اس واقعہ کے تئیں اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے۔‘‘

جو راج ناتھ سنگھ کہہ رہے تھے، جس پر ملک کے باشندوں کو یقین کرنے اور جسے صاف صاف سمجھ لینے کو بار بار کہہ رہے تھے، وہ بات بہت سنگین تھی۔ آخر ملک کا وزیر داخلہ یہ کہہ رہا تھا۔ ان کے اس بیان کے بعد عمر عبداللہ نے کہا کہ وزیر داخلہ نے جے این یو کے طلبا پر بہت سنگین الزام عائد کیا ہے اور انھیں اس کے لیے ان کے پاس جو ثبوت ہیں وہ برسرعام کرنے چاہئیں۔ دوسری سیاسی پارٹیوں نے بھی وزیر داخلہ کو ثبوت پیش کرنے کو کہا۔

راج ناتھ سنگھ نے جس بات کو ایک ہی جملے میں دو بار کہہ کر ہندوستان کے لوگوں کو صاف صاف اسے سمجھنے کو کہا تھا، اس کے حق میں ثبوت دینے کی ضرورت انھوں نے محسوس نہیں کی۔ ان کے ترجمانوں نے کہا کہ حکومت کو مختلف ایجنسیوں سے خبر ملتی ہے اور وہ نہ تو اپنے ذرائع اور نہ ثبوت ظاہر کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ اس کی ذمہ داری عوام کو خطروں سے محتاط کرنا ہے اور وزیر داخلہ وہی کر رہے تھے۔

راج ناتھ سنگھ جو کہہ رہے تھے وہ سفید جھوٹ تھا۔ وہ اپنے عہدہ کا سہارا لے کر عوام پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ اس جھوٹ پر وہ یقین کرے۔ دوسرے لفظوں میں وہ افواہ پھیلا رہے تھے۔

بی جے پی، آر ایس ایس کی دوسری تنظیموں کی زہر افشانی کو چھوڑ دیں تو راج ناتھ سنگھ کے اس بیان کی وجہ سے پورے ہندوستان میں جے این یو کے طلبا، خصوصاً کنہیا اور عمر خالد کے خلاف نفرت کا ماحول بنا۔ کنہیا پر دن دہاڑے دہلی کی ایک عدالت میں وکیلوں کی ایک بھیڑ نے حملہ کیا جس میں ان کی جان جا سکتی تھی۔ آج تک انھیں اور ان کے دوستوں کو ہندوؤں کے ایک بڑے حصے میں ملک غدار تصور کیا جاتا ہے۔ آج تک کنہیا کسی عوامی جگہ پر غیر محفوظ ہے کیونکہ انھیں ملک دشمن مان کر ان پر حملہ کرنے کو اپنا قومی فریضہ ماننے والوں کی تعداد کم نہیں ہے۔ مجھے ایک دوست ٹرین میں ان کے ساتھ سرزد ایک حادثہ بتا رہے تھے۔ اپنے ساتھی مسافر کے ساتھ بات چیت میں جب انھوں نے کنہیا کے تئیں ہمدردی ظاہر کی تو اس نے فوراً اپنی پستول نکال لی۔ کیا عوام میں کنہیا کے خلاف اتنی نفرت اور زہر بھرنے کا ایک سبب وزیر داخلہ کا غیر ذمہ دارانہ جھوٹا بیان نہیں؟

اگر وزیر داخلہ جیسے اہم عہدہ پر فائز شخص اس کے کان میں پڑی کسی بات کو بغیر سچائی کی جانچ کیے مشتہر کرنے لگتا ہے تو عام لوگوں کو ایسا کرنے سے وہ شخص کیسے روک سکتا ہے؟ راج ناتھ سنگھ کی جانب سے بعد میں ان کی پارٹی کے لوگوں نے صفائی دی کہ انھیں ایسا بتایا گیا تھا، اس وجہ سے انھیں یہ لگا کہ عوام کو مستعد کرنا چاہیے۔

راج ناتھ سنگھ نے اپنے اس بیان سے جے این یو کے طلبا کو غیر محفوظ کر دیا۔ لیکن جو انھوں نے کہا وہ اس لیے کہ یہ ان کی سیاسی سوچ کے بہت موافق تھا۔ اس بات کا سچ ہونا ضروری نہیں تھا۔ ایک جھوٹ کو اپنے عہدہ کا سہارا لے کر سچ کا جامہ پہنا دینے میں انھیں جھجک نہیں تھی۔

جے این یو کے طلبا پر ان کے اس بیان کے بعد میٹرو یا دوسری جگہوں پر حملے کی خبریں سنی گئیں۔ پڑوسی منریکا کے باشندوں میں ان کے خلاف غصہ بھر گیا۔ انھوں نے کئی طلبا کو مکان خالی کرنے کو کہہ دیا۔ یہ سب کس نے کیا؟

اس طرح کا جھوٹ پھیلا کر، یا افواہ پھیلا کر بی جے پی کے لیڈر خصوصاً ہندوؤں کے اندر کچھ طبقوں اور کچھ سیاسی لیڈروں کے خلاف نفرت بھر دینا چاہتے ہیں۔ جب آج کا تیز طرار سوشل میڈیا نہیں تھا تب سویم سیوکوں کے اور شاخوں کے جال کے ذریعہ زبانی افواہ پھیلائی جاتی تھی۔ ورنہ گاندھی جی کا قتل گوڈسے نے نہیں، جھاڑی میں چھپے کسی دیگر شخص نے کی تھی، یہ بات ان کے قتل کے 70 سال بعد بھی ایک 17 سال کا بچہ کس طرح پوچھ سکتا ہے؟ افواہ کی عمر لمبی ہوتی ہے اور وہ سیاسی مقصد کی فراہمی کے لیے پھیلائی جاتی ہے۔ یہ کام ہندوستان میں ایک پارٹی اور تنظیم اور اس کے رکن ڈھٹائی سے برسرعام کرتے ہیں۔

بھلے ہی سوشل میڈیا پر سارا ذمہ ڈال کر وزیر داخلہ پلّہ جھاڑنا چاہیں، لیکن وہ خود جانتے ہیں کہ وہ ایک ’نظامِ افواہ‘ کے سرے پر ہیں جس کا مقصد سماج میں مسلمانوں، عیسائیوں کے خلاف نفرت بھر دینا ہے اور ان سے ایک پرتشدد الگاؤ بڑھانا ہے۔ جب تک یہ وجہ رہے گی، افواہ پھیلانے والا نظام بھی رہے گا اور اگر اسی کے ہاتھ میں اقتدار رہا تو اس کے سبب قتل بھی ہوتے رہیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔