کیا این آر سی کی حتمی لسٹ پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟... سہیل انجم

اب جبکہ حتمی فہرست شائع ہو گئی ہے تو بی جے پی اور اس کی حلیف جماعت آسام گن پریشد بھی مطمئن نہیں ہیں۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ غیر ملکیوں کو نکال باہر کرنے کا ہمارا خواب چکنا چور ہو گیا۔

تصیور سوشل میڈیا
تصیور سوشل میڈیا
user

سہیل انجم

آسام میں شہریوں سے متعلق قومی رجسٹر این آر سی کی حتمی فہرست کی اشاعت کے بعد ایک بہت بڑے حلقے میں بے چینی و اضطراب کی کیفیت ہے۔ جولائی 2018 میں شائع ہونے والی فہرست میں 40 لاکھ افراد کے نام شامل نہیں تھے۔ اب موجودہ فہرست میں جو کہ حتمی یعنی آخری ہے، تقریباً بیس لاکھ افراد کے نام غائب ہیں۔ کیا یہ تمام کے تمام غیر ملکی ہیں؟ جی نہیں۔ ان میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو ہندوستانی شہری ہیں۔

دراصل یہ پورا معاملہ سیاسی ہے۔ اس کا مقصد غیر ملکی دراندازوں کے نام پر اقلیتوں کو شہریت سے محروم کر دینا ہے۔ لیکن اب جبکہ حتمی فہرست شائع ہو گئی ہے تو بی جے پی اور اس کی حلیف جماعت آسام گن پریشد بھی مطمئن نہیں ہیں۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ غیر ملکیوں کو نکال باہر کرنے کا ہمارا خواب چکنا چور ہو گیا، امیدیں دم توڑ گئیں۔ ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما کا کہنا ہے کہ وہ فہرست پر نظر ثانی کی درخواست کریں گے۔


چونکہ مسلمانوں اور بنگلہ بولنے والوں کو غیر ملکی قرار دے کر ملک بدر کرنے کی بی جے پی کی کوشش پوری طرح کامیاب نہیں ہوئی، لہٰذا اب اس نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ لیکن کیا سبھی مسلمان فہرست میں شامل ہو گئے ہیں، نہیں ایسا بھی نہیں ہے۔ بہت سے مسلمانوں کو ان کے مذہب اور زبان کی بنیاد پر فہرست سے الگ رکھا گیا ہے۔

جبکہ بہت سے غیر مسلموں کے بھی نام اس میں شامل نہیں ہو سکے ہیں۔ بی جے پی کی خواہش تھی کہ تمام ہندووں کے نام اس میں شامل ہو جائیں اور ان مسلمانوں کے نام جو بنگلہ بولتے ہیں یا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مبینہ طور پر بنگلہ دیشی ہیں اور دراندازی کرکے ہندوستان میں آگئے ہیں، نکال باہر کیا جائے۔ لیکن شہریت ثابت کرنے کا جو پیمانہ بنایا گیا اس پر سارے اتر جائیں گے یہ ممکن نہیں تھا۔


جن لوگوں کے نام غائب ہیں ان میں اکثریت غریبوں اور مزدوروں کی ہے۔ جب اس ملک میں وزرا اپنی تعلیمی اسناد کے ثبوت پیش نہیں کر سکتے تو پھر بھلا غریب لوگ کہاں سے یہ ثابت کر پائیں گے کہ ان کے اجداد 1951 سے پہلے ہندوستان میں آگئے تھے۔ لہٰذا بہت بڑی تعداد شامل فہرست نہیں ہو سکی ہے۔

بی جے پی صدر اور موجودہ وزیر داخلہ امت شاہ نے دعویٰ کیا تھا کہ آسام میں چالیس لاکھ غیر ملکی تارکین وطن ہیں۔ انھوں نے الیکشن کے دوران ان لوگوں کو دیمک کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک ایک کو چن چن کر نکال باہر کیا جائے گا۔ ان کے اس اعلان کا مقصد ان لوگوں کے ووٹ حاصل کرنا تھا جو بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست سے متاثر ہیں۔


اس سے قبل کسی لیڈر نے تارکین وطن کی تعداد پچاس لاکھ بتائی تھی تو کسی نے تیس لاکھ۔ الگ الگ لوگوں نے الگ الگ اعداد و شمار بتائے تھے۔ لیکن حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آسام میں کتنے غیر ملکی ہیں اور اب جبکہ حتمی فہرست شائع ہو گئی ہے تو اس کی نشاندہی کرنا اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔ چونکہ بہت سے غیر مسلم بھی فہرست سے باہر ہیں اس لیے بی جے پی کو اپنی غلطی کا احساس ہو جانا چاہیے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنٹسی انٹرنیشنل نے تقریباً بیس لاکھ افراد کے حتمی فہرست سے باہر رہنے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ حتمی فہرست کی اشاعت کے بعد اتنی بڑی تعداد کی تقدیر غیر یقینی ہو گئی ہے۔ اس نے آسام حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ غیر ملکیوں سے متعلق ٹریبونل شفافیت کے ساتھ اور قومی و بین الاقوامی قوانین کے معیار کے مطابق کام کریں۔


ایمنٹسی انٹرنیشنل کے بھارت کے سربراہ آکار پٹیل نے کہا ہے کہ غیر ملکیوں سے متعلق ٹریبونل، جو کہ لاکھوں افراد کی بھارتی شہریت کا فیصلہ کریں گے، نیم عدالتی ادارے ہیں جہاں غیر ملکی قرار دیئے گئے لوگوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ وہ بھارتی شہری ہیں۔ ان کے مطابق متعدد رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان ٹربیونلس کی کارروائی من مانی ہے اور ان کے آرڈر جانبدارانہ اور امتیازی ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ کسی شخص کو من مانے ڈھنگ سے یا غیر واضح بنیادوں پر اس کی شہریت سے محروم نہ کیا جائے۔

انسانی حقوق کے ایک کارکن اور فورم فار سول رائٹس کے چیئرمین سید منصور آغا کے مطابق یہ پورا معاملہ سیاسی ہے اور اسے اقلیتوں کو ہدف بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ جن لوگوں کے نام شامل نہیں ہیں وہ غریب مزدور قسم کے لوگ ہیں۔ وہ ہر سال اجڑتے ہیں اور ہر سال بستے ہیں۔ وہ یہ بات کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ ان کے اجداد فلاں سنہ میں آئے تھے اور ان کے پاس اس کے ثبوت ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کا کوئی ملک اپنے شہریوں کے ساتھ ایسا رویہ اختیار نہیں کرتا جیسا کہ بھارتی حکومت نے کیا ہے۔ بیس لاکھ نہ سہی صرف بیس ہی افراد ہوں تب بھی ان کے ساتھ یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ جن کے نام باہر ہیں وہ سب مظلوم انسان ہیں خواہ وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں۔


غیر ملکیوں سے متعلق ٹربیونلس کے کام کاج میں شفافیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ ایک ہی گھر کے چار لوگوں کے نام آجائیں اور چار کے یا دو کے نہ آئیں۔ شیر خوار بچے کا نام آجائے اور اس کی ماں کا نہ آئے۔ ایک فوجی کا نام تو آجائے اور اس کے بھائیوں کے جو کہ خود بھی فوجی ہیں، نام نہ آئیں۔ جبکہ ایک خاندان کے لوگوں نے ایک ہی قسم کی دستاویزات جمع کرائے تھے۔

ایسی شکایت بھی ملی ہے کہ ٹریبونلس نے کچھ لوگوں کو ان کے کاغذات کی جانچ کے لیے بلایا اور کچھ لوگوں کو نہیں بلایا۔ مثال کے طور پر ایک گھر میں ساس اور سسر کو تو بلایا گیا مگر بہو کو نہیں بلایا گیا۔ جن کو نہیں بلایا ان کے نام شامل نہیں ہیں۔ جبکہ سب کے کاغذات یکساں تھے۔ متعدد سرکاری ملازموں کے بھی نام غائب ہیں۔ دس دس بیس بیس سال تک نوکری کرنے والے بھی فہرست سے باہر ہیں۔ ایسی بھی شکایتیں ملی ہیں کہ بہت سے لوگوں کے نام نہ منظور شدہ میں ہیں اور نہ ہی مسترد شدہ میں۔


ایک مسلم فوجی ثناء اللہ کا نام، جو کہ اب نیم مسلح دستے میں ملازمت کرتے ہیں، اس سے قبل کی فہرست میں نہیں آیا تھا مگر اس بار آگیا ہے۔ انھیں کچھ ماہ قبل گرفتار بھی کیا گیا تھا اور غیر ملکیوں کے ہوم میں رکھا گیا تھا۔ لیکن اس بار وہ خوش قسمت ثابت ہوئے۔

یہ پوری مشق بظاہر بے ترتیب اور من مانی سی لگتی ہے۔ متعدد سیاسی جماعتوں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اب جبکہ غیر متوقع طور پر یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے تو کہا جا رہا ہے کہ جن کے نام شامل نہیں ہیں انھیں اس وقت تک غیر ملکی قرار نہیں دیا جائے گا جب تک کہ تمام قانونی مراحل مکمل نہ ہو جائیں۔ یعنی انھیں 120 دنوں کا وقت دیا جا رہا ہے کہ وہ از سر نو اپنے کاغذات پیش کریں۔ اگر تب بھی وہ اپنی شہریت ثابت نہ کر سکیں تو سپریم کورٹ بھی جا سکتے ہیں۔


ہم سمجھتے ہیں کہ اگر جن لوگوں کے نام باہر ہیں وہ سب مسلمان ہوتے تو یہ بات نہیں کہی جاتی۔ چونکہ ان میں غیر مسلم بھی شامل ہیں تو حکومت انھیں کیسے غیر ملکی قرار دے۔ مجموعی طور پر یہ پورا معاملہ بڑا مشکوک ہے اور عدم شفافیت کا مظہر ہے۔ اس فہرست پر قطعی طور پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 Sep 2019, 10:10 PM