یوروپ کچھ بھی کر لے، ٹرمپ کو خوش نہیں کر پائے گا... اشوک سوین
یوروپ کو کب سمجھ میں آئے گا کہ ٹرمپ کی سیاست تنوع کے خلاف ہے، جو شراکت داری کو بوجھ اور کثیر جہتی کو بے وفائی مانتی ہے۔

تقریباً ایک دہائی سے یوروپ مجموعی طور پر وہی سب کچھ کرتا آ رہا ہے جس کی توقع برسوں سے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت والا امریکہ کرتا رہا ہے۔ یوروپ نے ہر سال اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کیا ہے۔ بیرونی اور اندرونی دونوں سرحدوں پر جانچ پڑتال سخت کی ہے۔ پناہ دینے کے قوانین کو سخت کیا ہے اور مہاجرین کو یوروپ پہنچنے سے روکنے کے لیے آمرانہ حکومتوں کے ساتھ معاہدے تک کیے ہیں۔
روس کے یوکرین پر حملہ کے بعد سے یوروپ نے جس طرح خود کو ہتھیاروں سے لیس کرنا شروع کیا ہے، ویسا کئی نسلوں میں نہیں دیکھا گیا۔ اس کے باوجود، ان میں سے کسی بھی اقدام پر یوروپ کو امریکہ کی طرف سے تعریف نہیں ملی۔ اس کے برعکس، ٹرمپ کی نئی قومی سیکورٹی پالیسی میں یوروپ کو ایسے کمزور ساتھی کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
سوال یہ ہے کہ آخر اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی اس کا اثر یوروپی رہنماؤں کی توقعات کے مطابق کیوں نہیں ہوتا؟ جب زیادہ ٹینک، میزائل اور سرحد پر دیوار کا مطالبہ پورا بھی ہو جاتا ہے تو بھی یہ کافی کیوں نہیں ہوتا؟ اس کا جواب نہ تو بجٹ میں ہے اور نہ ہی پالیسیوں میں۔ اس کا جواب دنیا کو دیکھنے کے زاویے میں ہے۔ مغربی ممالک کو کن پیشین گوئیوں یا اقدار کی بنیاد پر فیصلے لینے چاہئیں، یا سیکورٹی کا مطلب کیا ہے، اس بارے میں ٹرمپ کی سمجھ سے یوروپ متفق نہیں۔ اسی لیے یوروپ کی فوج چاہے کتنی ہی بڑی اور مضبوط کیوں نہ ہو، یا وہ سرحدوں کو جتنی ہی سختی سے سیل کیوں نہ کر دے، ٹرمپ کو یہ ناکافی ہی لگے گا۔
یوروپی یونین اور اس کے رکن ممالک نے گزشتہ 10 برسوں کے دوران اپنے فوجی اخراجات میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔ یوکرین کی جنگ نے اس رجحان کو مزید تیز کر دیا ہے۔ 2025 میں یوروپ کے دفاعی اخراجات کے اوسطاً 2 فیصد جی ڈی پی کی سطح تک پہنچنے کا امکان ہے، جو ناٹو کے بنیادی معیار کو پورا کرے گا۔ آلات، گولہ بارود اور ڈرونز میں سرمایہ کاری نمایاں طور پر بڑھ رہی ہے۔
پولینڈ دفاع پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والوں میں شامل ہو گیا ہے۔ فرانس اور جرمنی کئی ارب یورو کی خریداری کی تیاری کر رہے ہیں۔ یوروپی کمیشن نے سرد جنگ کے بعد سکڑ گئی دفاعی صنعت کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے سینکڑوں ارب کے پروگرام شروع کیے ہیں۔ 200 برسوں سے کوئی جنگ نہ لڑنے والے سویڈن نے 2026 تک دفاعی اخراجات کو جی ڈی پی کے 2.8 فیصد اور 2030 تک 3.5 فیصد تک لے جانے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ لیکن ٹرمپ کے لیے یہ اب بھی کافی نہیں۔ وہ اور پنٹاگن کے ان کے افسران اب مطالبہ کر رہے ہیں کہ یوروپ 2027 تک ناٹو کی سیکورٹی کا زیادہ تر بوجھ خود سنبھال لے۔ یہ ایسی ڈیڈ لائن ہے جسے زیادہ تر یوروپی ماہرین ناممکن مانتے ہیں۔ اگر اس کے لیے وسائل بھی فراہم کر دیے جائیں، تب بھی یوروپ راتوں رات وہ فوجی قوت، انٹیلی جنس نیٹ ورک، کمانڈ اسٹرکچر یا اسٹریٹجک نیوکلیئر نظام نہیں بنا سکتا جو 1949 سے امریکہ فراہم کرتا آ رہا ہے۔ یوروپ وہی کر رہا ہے جو وہ کر سکتا ہے، لیکن ٹرمپ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یوروپی ممالک 2 سال کے اندر یوروپ کے دفاع کی بنیادی طاقت کے طور پر امریکہ کی جگہ لے لیں، ورنہ امریکہ ناٹو کی کوآرڈینیشن سے جزوی طور پر دستبردار ہو جائے گا۔
یہ کوئی اسٹریٹجک حقائق پر مبنی سودے بازی نہیں ہے۔ یہ ’امریکہ فرسٹ‘ کی سوچ پر مبنی ایک سیاسی نقطۂ نظر ہے جو اتحادوں کو بوجھ سمجھتا ہے۔ ٹرمپ ناٹو کو مشترکہ خطرات کا سامنا کرنے والے جمہوری ممالک کی برادری نہیں سمجھتے، بلکہ اسے امریکہ کی جانب سے فراہم کی جانے والی ایک ایسی سروس مانتے ہیں جس کے بدلے یوروپ کو فوراً اور بغیر چوں و چرا کے رقم ادا کرنی چاہیے۔ جب تک یوروپ اس بات پر زور دیتا رہے گا کہ ’ٹرانس اٹلانٹک دفاع‘ یوروپ اور امریکہ کا مشترکہ منصوبہ ہے، ٹرمپ یوروپ پر امریکہ کا فائدہ اٹھانے کا الزام لگاتے رہیں گے، چاہے وہ اپنی افواج میں زیادہ سے زیادہ وسائل کیوں نہ جھونک رہے ہوں۔
امیگریشن کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ 2015 کے پناہ گزیں بحران کے بعد سے یوروپی یونین نے تقریباً وہ سب کچھ کیا ہے جس کا مطالبہ انتہائی دائیں بازو کی قوتیں کرتی رہی ہیں۔ اس نے غیر منظم ہجرت کو کم کیا، نئے نگرانی کے نظام قائم کیے، سرحدی پولیسنگ کو ترکی اور لیبیا جیسے ممالک کو آؤٹ سورس کیا، اپنی سرحدوں پر اسکریننگ سخت کی۔ یہاں تک کہ شینگن علاقے میں بھی، جہاں آزادانہ نقل و حرکت قانون کا حصہ ہے، زیادہ سے زیادہ ممالک نے سرحدی کنٹرول دوبارہ نافذ کر دیے ہیں۔ کئی حکومتوں نے پناہ گزینوں کے قوانین سخت کر دیے ہیں تاکہ لوگوں کو آنے سے روکا جا سکے اور بے دخلی کے عمل کو بھی تیز کیا ہے۔ امیگریشن اور پناہ سے متعلق نئی یوروپی یونین معاہدہ داخلے کے عمل کو سخت بناتا ہے اور لوگوں کو تیزی سے واپس بھیجنے کو یقینی بناتا ہے۔ حالیہ برسوں میں یوروپی یونین نے امیگریشن کو زیادہ سیکورٹی پر مبنی بنا دیا ہے، سرحدی کنٹرول اور روک تھام کو ترجیح دی ہے، جس کے نتیجے میں اکثر بنیادی انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون سے جڑی ذمہ داریوں کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
اس کے باوجود ٹرمپ اب بھی یوروپ کو ایک زوال پذیر تہذیب کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کی سیکورٹی حکمتِ عملی کا دعویٰ ہے کہ امیگریشن اور کم ہوتی شرحِ پیدائش کی وجہ سے 2 دہائیوں میں یوروپ کو اپنی شناخت کھو دینے کا خطرہ ہے۔ یہ دائیں بازو کے سازشی بیانیے جیسا ہے جو دعویٰ کرتا ہے کہ یوروپیوں کی جگہ غیر یوروپی لے رہے ہیں۔ اس زاویے سے یوروپ کا مسئلہ سرحدی سیکورٹی کی کمی نہیں بلکہ نسلی و ثقافتی خالص پن کی کمی ہے۔ یہ بحث تعداد کے بارے میں نہیں بلکہ شناخت کے بارے میں ہے۔ اگر یوروپ کے مرکزی دھارے کے رہنما امیگریشن کو معاشی ضرورت سمجھتے ہیں یا تنوع کو لبرل جمہوریت کی اقدار کے مطابق پاتے ہیں تو وہ پہلے ہی ٹرمپ کی توقعات کے خلاف کھڑے ہیں۔
یوروپ کی سیاست اور سماج کی بنیاد میں امتیاز سے پاک اصول ہیں۔ حالیہ برسوں میں ان اصولوں پر شدید دباؤ پڑا ہے۔ ٹرمپ کی نظر میں یہ اصول کمزوری ہیں۔ وہ یوروپ کے انتہائی دائیں بازو کی تعریف اس لیے نہیں کرتے کہ وہ مؤثر امیگریشن حکمتِ عملی کی بات کرتے ہیں، بلکہ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ثقافتی یکسانیت اور نسلی قوم پرستی کی حمایت کرتے ہیں۔
یوکرین اسی تقسیم کی لکیر کو واضح کرتا ہے۔ یوروپ روس کو علاقائی سالمیت کے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور یوکرین-روس جنگ کو بین الاقوامی قانون کے امتحان کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ غزہ میں بین الاقوامی قانون کے دفاع میں اس نے ویسا جوش نہیں دکھایا۔ اس کے برعکس ٹرمپ یوکرین کے لیے یوروپی حمایت کو یوروپ کی کمزوری اور انحصار کی ایک اور مثال سمجھتے ہیں۔ ان کی حکمتِ عملی کا مقصد ماسکو کے ساتھ تعلقات میں دوبارہ استحکام لانا ہے، چاہے اس کے لیے کیف پر جھکنے کے لیے دباؤ ہی کیوں نہ ڈالنا پڑے۔
یوروپی یونین کا سیکورٹی ماڈل تعاون، مشترکہ خود مختاری اور قانونی قواعد و ضوابط پر مبنی ہے۔ ٹرمپ کے سیکورٹی تصورات ’ایک کا فائدہ دوسرے کا نقصان‘ والی حکمت عملی اور شناختی سیاست سے تشکیل پاتے ہیں۔ جب یوروپ کے رہنما کہتے ہیں کہ وہ اسٹریٹجک خودمختاری چاہتے ہیں تو ان کا مطلب ٹرانس اٹلانٹک اتحاد کے اندر ایک مضبوط یوروپ ہوتا ہے۔ جب ٹرمپ یوروپ کے لیے خود مختاری کی بات کرتے ہیں تو ان کا مطلب امریکہ کے بغیر، لیکن امریکی قوم پرستانہ ترجیحات سے جڑے سیاسی حالات میں سیکورٹی ہوتا ہے۔
امریکہ اور یوروپ ایک وقت نہ صرف ایک سیکورٹی معاہدے سے جڑے تھے بلکہ کھلے معاشروں اور جمہوری مضبوطی کے بارے میں ایک مشترکہ سوچ سے بھی بندھے ہوئے تھے۔ ٹرمپ نے اس کی جگہ ایسی سیاست متعارف کرائی ہے جو تنوع کے خلاف ہے، شراکت داری کو بوجھ اور کثیر جہتی کو بے وفائی سمجھتی ہے۔ یوروپ یہ بحث نہیں جیت سکتا۔ اس کے بجائے، اس کے لیے بہتر یہی ہوگا کہ وہ تعاون اور قانونی حیثیت پر مبنی سیکورٹی کے اپنے نقطۂ نظر کا دفاع کرے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔