اس زہر کا کیا کریں!

مظفر نگر کے اسکول میں ایک مسلم طالب علم کے ساتھ پیش آئے واقعہ کو تنہا واقعہ کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے، یہ ’گولی مارو سالوں کو‘، ’کپڑوں سے پہچان لیتے ہیں‘ جیسے جملوں پر خاموشی کا نتیجہ ہے۔

<div class="paragraphs"><p>مظفر نگر کے اسکول میں ظلم کے شکار مسلم طالب علم کے والد</p></div>

مظفر نگر کے اسکول میں ظلم کے شکار مسلم طالب علم کے والد

user

ناگیندر

سماج میں پیش آ رہے واقعات کو جب ہم ’یونہی‘ یا ’ہوتا ہے‘ کہہ کر ٹالنے یا نظر انداز کرنے لگتے ہیں تو ویسے رویے اور واقعات بڑھ جاتے ہیں جنھیں قطعی نہیں ہونا چاہیے۔ یہ واقعات کبھی اِس حادثہ کے طور پر پیش آتے ہیں، کبھی اُس حادثہ کے طور پر۔ سب کچھ اس لیے ہوتا یا چلتا رہتا ہے کہ سماج کے ایک بڑے طبقہ نے بولنا چھوڑ دیا ہے، جبکہ بولنا بہت ضروری ہے۔ حجاب سے لے کر لو جہاد، سنسکرت آچاریہ کے عہدہ پر ایک اہل مسلم کی تقرری سے لے کر مظفر نگر کے اسکول مین ایک طالب علم کے گال پر اسی درجہ کے دیگر طلبا سے خود ٹیچر کے ذریعہ لگوائے گئے تھپڑ یہی کہانی دہرا رہے ہیں۔ یہ ملک اور سماج میں پھیلے اسی زہر کے اثر کا عکاس ہے کہ ’کچھ بھی کر لیں، کوئی کچھ کہے گا نہیں!‘ یہ ’کوئی کچھ نہیں کہے گا‘ ہی اصل نبض ہے جس کی پڑتال کی ضرورت ہے۔ اس پڑتال کی ضرورت ہے کہ وہ نہیں کہہ رہے جنھیں کہنا ہی چاہیے، لیکن ہم کیوں نہیں کہہ رہے جن کا بولنا اب بہت ضروری ہو چکا ہے۔

مظفر نگر کے اسکول میں ایک مسلم طالب علم کے ساتھ پیش آئے واقعہ کو ایک تنہا واقعہ کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ یہ اسٹیج سے ’گولی مارو سالوں کو‘، ’کپڑوں سے پہچان لیتے ہیں‘، بریلی سے لے کر ودیشا تک مدارس میں پڑھائی جانے والی اقبال کی مشہور زمانہ نظم ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ پر مچے ہنگامے اور اسے روک دیے جانے، بنارس کی عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹی بی ایچ یو کے سبھی امتحانات پاس کر آچاریہ بنے فیروز خان کو احاطہ چھوڑ چلے جانے کی حد تک مچے ہنگامے پر ہماری خاموشی کا نتیجہ ہے۔ یہ اسی خاموشی کا نتیجہ ہے جس نے ہمیں اتنا بونا (پستہ قد) بنا دیا ہے کہ اب ہم کسی بات پر رد عمل نہیں دیتے۔ ہم اپنے بڑے بزرگوں کے ساتھ پڑوس کے پارک میں ان کی چھوٹی سی سمجھانے کے انداز میں کہی گئی بات پر ہوئی بے ادبی پر بھی خاموشی اوڑھ لیتے ہیں اور ایسے کسی واقعہ میں بچ کر بغل سے نکل جانے میں ہی ’بھلائی‘ سمجھنے لگے ہیں۔ آخر بزدلی کو بھلائی سمجھنے لگنے کی حد تک یہ تبدیلی آئی کیسے! کب آئی! کیا اچانک راتوں رات یہ تبدیلی ہوگئی! شاید نہیں!


ہم تو ایسے نہ تھے

یاد کیجیے 2019 کے وہ آخری مہینے۔ شاید نومبر تھا۔ بی ایچ یو کے طلبا کو کسی فیروز خان نام کے شخص سے سنسکرت پڑھنا پسند نہیں آیا تھا اور انھوں نے اتنا ہنگامہ کیا تھا کہ فیروز احاطہ چھوڑ کر ہی چلے گئے۔ آج کہاں ہیں، بتانے والا مجھے تو نہیں ملا کوئی۔ یہ وہی فیروز خان تھےجنھوں نے شروع سے اپنی پڑھائی سنسکرت میں اس طرح کی تھی کہ ساری شرطیں پوری کرتے ہوئے آگے بڑھے، بی ایچ یو کے سنسکرت ودیا دھرم وگیان فیکلٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے لیے درخواست کی۔ انٹرویو ہوا اور یونیورسٹی کے پینل نے آخر میں آچاریہ کے عہدہ کے لیے منتخب بھی کر لیا۔ لیکن بعد میں جو ہوا سب جانتے ہیں۔ ایک مسلم کے سنسکرت ودیا دھرم پڑھانے کو لے کر طلبا نے کسی اشارے پر اس قدر ہنگامہ کیا کہ فیروز کو احاطہ چھوڑ کر چلے جانا پڑا۔ لیکن وائس چانسلر سے لے کر یوپی کے اقتدار میں بیٹھے سرکردہ لوگ اور بنارس کے رکن پارلیمنٹ سے پی ایم بنے مودی جی کے وارانسی کیمپ دفتر تک سے کوئی یہ کہنے نہیں آیا کہ سب کچھ ضابطہ کے مطابق ہے تو پھر یہ ہنگامہ کیوں؟ کوئی یہ بتانے آگے نہیں آیا کہ آئین سے چلنے والے اس ملک میں سناتن اور غیر سناتن کے نام پر یہ سب نہ صرف غیر مدلل بلکہ بے حد غیر سائنسی بھی ہے۔ یہ وہی فیروز خان تھے جس نے بچپن میں ہی روایتی اسکول میں عدم دلچسپی دکھائی تھی اور والد سے کہہ کر ایسے اسکول میں داخلہ لیا تھا جہاں سنسکرت پڑھائی جاتی تھی۔ ان کے والد نے بھی سنسکرت کی نہ صرف پڑھائی کی تھی بلکہ شاستریہ بھی پاس کیا تھا۔ والد نہ صرف موسیقی پڑھاتے ہیں بلکہ اپنے والد کی طرح مندروں میں بھجن بھی گاتے ہیں۔ یہ فیملی جئے پور سے تعلق رکھتی ہے۔ فیروز ابھی کہاں ہیں، پتہ نہیں۔ کبھی وہ بھی والد کے ساتھ مندروں میں گاتے تھے۔

موجودہ دور میں ملک اور سماج میں پھیلتے زہر کا نمونہ دیکھنے کے لیے فیروز خان کا معاملہ محض ایک مثال ہے۔ یہ معاملہ اس لیے بھی زیادہ موزوں ہے کیونکہ یہاں ’شکار‘ اور ’شکاری‘ سب پڑھے لکھے، بلکہ دانشور تھے۔ زیادہ سچ ہوگا یہ کہنا کہ یہ سب دانشوروں کے اشارے پر ہی ہوا ہوگا! ویسے بھی حال کے دنوں، بلکہ حال کے کچھ سالوں میں جو بھی واقعات سامنے آئے ہوں، ان کا شکار جیسے بھی لوگ بنے ہوں گے، وہ سب کرنے-کروانے یا ہوا دینے والے کم از کم ناخواندہ تو نہیں ہی تھے۔ وہ چاہے کسی پہلو خان کا معاملہ ہو، اخلاق کا، سڑکوں پر گئو رکشا کے نام پر کچھ بھی کر گزرنے کا یا ٹرین میں ذرا سی کہا سنی کے بعد نیم فوجی دستہ کے کسی جوان کے ذریعہ گن گن کر کچھ دوسرے مذہب والوں کو گولی مار دینے کا، مسلم نوجوان کے ہندو لڑکی سے شادی کو ’لو جہاد‘ اور ہندو لڑکے کے مسلم لڑکی سے شادی کو ’شدھی کرن‘ بنا دینے کے معاملے رہے ہوں یا مسلم لڑکی کے چہرہ ڈھکنے کو حجاب اور ہندو لڑکی کے اسی طرح چہرہ ڈھکنے کو اسکارف نام دینے جیسے پاگل پن کے معاملے۔ لکھنؤ کے لولو مال کی اوپری منزل پر ایک خالی کونے میں چند نوجوانوں کے نماز پڑھ لینے پر مچا ہنگامہ رہا ہو یا کسی رہائشی اپارٹمنٹ کے آر ڈبلیو اے کے ذریعہ کسی مسلم کو مکان کرایہ پر ہی نہیں، اسے فروخت کرنے پر بھی بیچ میں روڑا بن کر کھڑے ہو جانے جیسے معاملے۔ دموہ (مدھیہ پردیش) کے اسکول میں اسکارف پہننے کے حکم کو حجاب کا نام دے کر ہنگامہ مچانے اور پھر اسکول پر بلڈوزر چلوا دینے کا معاملہ ہو یا باندہ میں لڑکی سے چھیڑخانی کرنے والے کا گھر بلڈوزر سے منہدم کر دینے کا معاملہ۔ فہرست بہت طویل ہے، ارادوں کی فہرست اس سے بھی طویل۔


لیکن مظفر نگر کے اسکول میں ایک مسلم طالب علم کے گال پر دیگر ہندو طلبا سے تھپڑ لگوانے والی ٹیچر نہ تو گرفتار ہوتی ہے نہ اس کے آس پاس کوئی بلڈوزر بھی پھٹکتا ہے۔ بلکہ اس کو تو بچانے والے آگے آ گئے ہیں۔ یہ بچانا، اصل واقعہ سے بھی زیادہ افسوسناک ہے۔ بچانے والے کہنے لگے کہ ٹیچر معذور ہے، لیکن انھیں یہ نہیں نظر آیا کہ جسمانی معذوریت سے زیادہ وہ ذہنی معذوریت کی شکار ہے۔ ایسی معذوریت جو نسلوں کو بیمار کر سکتی ہے اور جس کا علاج جیل میں ہی ممکن ہے۔ لیکن اس پر انتہائی معمولی، فوراً ضمانت دینے والی دفعات لگائی گئیں، جبکہ یوپی کے سابق ڈی جی پی وکرم سنگھ کے الفاظ میں کہیں تو ’’اس پر تو از خود نوٹس لے کر بہیمانہ جرم کی دفعات میں مقدمہ درج کر فوراً جیل بھیج دینا تھا، کیونکہ یہ ایک ٹیچر کے معذور ہونے کا نہیں، اس کے اُگلے زہر کے اثر سے پورے سماج کے بیمار ہو جانے کا معاملہ بھی ہے۔‘‘

اسے الگ طرح سے کیوں دیکھا جانا چاہیے

اس واقعہ کو الگ طرح سے اور زیادہ سنجیدگی کے ساتھ اس لیے بھی دیکھے جانے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک اسکول اور ٹیچر کا معاملہ ہے۔ جہاں سے تعلیم اور تہذیب کی بنیاد پڑتی ہے۔ اسکولوں میں یونیفارم کا تصور ہی اس لیے آیا کہ ایک جیسا لباس سبھی تفریق کو مٹا دیتا ہے۔ سچ یہی ہے کہ شہر کے پرانے علاقے میں پیدائش اور شروعاتی پچیس سال اسی علاقے میں گزارنے کے باوجود ہمیں کبھی ہندو-مسلم کا احساس نہیں ہوا۔ میرے دونوں بچوں کو بھی ان کے مذہب اور ان کی ذات کا احساس اس وقت ہوا جب وہ آگے کی پڑھائی کے لیے دوسرے شہر کے ہاسٹل میں رہنے گئے۔ انھیں اچانک وہیں احساس ہوا کہ 11 سال سے ان کے ساتھ پڑھ رہے معید اور سکینہ مسلمان ہیں، اور یہ بھی کہ ذات کیا ہوتی ہے۔ خوشی بس اتنی ہے کہ ان بچوں کے حلق سے کوئی زہر نیچے نہیں اترا اور معید یا سکینہ یا ایسے کئی پرانے دوست اب بھی دوست بنے ہوئے ہیں، بلکہ گہرے ہو گئے ہیں۔


مظفر نگر کے اسکول کے اس واقعہ کو اس لیے بھی الگ طرح سے دیکھے جانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک نسل یا نسلوں کے بننے بگڑنے کا معاملہ بھی ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہاں سوال صرف اس بچے کا نہیں ہے جسے پٹوایا گیا، ان بچوں کا بھی ہے جن سے اسے تھپڑ لگوائے گئے۔ سوال اس زہر کا ہے جو ان تھپڑوں کے ذریعہ ان ’ہندو‘ بچوں کے دل و دماغ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سرایت کر دیا گیا۔ سوال اس زہر کا ہے جسے وہ بچہ تو کبھی اپنے ذہن سے نکال نہیں سکے گا اور یہ بھی کہ یہ باقی بچے بھی کہیں آگے کی اپنی راہ انہی تھپڑوں میں پوشیدہ پیغامات کے سہارے تو نہیں طے کر جائیں گے۔ یہاں یوپی پولیس کے اس موجودہ آئی پی ایس کی اس بات سے عدم اتفاق کی کوئی وجہ نہیں نظر آتی کہ سب سے پہلے تو اس ٹیچر کو گرفتار کر جیل بھیجنا ہی تھا، اس سے بھی زیادہ ضرور یہ کہ سماج کو اس بچے کے ساتھ اور اسکول کے خلاف کھڑے ہو جانا تھا۔ ضروری تو یہ بھی تھا کہ اس معاملے میں انتظامیہ آگے آ کر ایسا ماحول بناتا کہ عوام اور انتظامیہ مل کر اس بچے کے لیے اگلے پانچ سے دس سال کی فیس بھرنے کا انتظام کر اس کی آگے کی پڑھائی یقینی کرتے۔ بات تو یہی سابق ڈی جی پی وکرم سنگھ بھی کہتے ہیں اور این سی ای آر ٹی کے ڈائریکٹر رہ چکے جگموہن سنگھ راجپوت بھی۔ راجپوت ایک نیوز چینل سے بات چیت میں کہتے ہیں ’’میں شرمندہ ہوں کہ میں نے اپنی زندگی کی تقریباً چھ دہائی جس تعلیم کے شعبہ میں لگا دیے، اس تعلیم کا آج یہ حال ہے۔‘‘ راجپوت اس کے لیے تعلیمی نظام کے اس ڈھانچے کو قصوروار مانتے ہیں جہاں ڈگریاں تھوک کے بھاؤ میں خریدی اور بیچی جا رہی ہیں اور جن کی طاقت پر ترپتی تیاگی جیسے لوگ تعلیمی شعبہ میں آ رہے ہیں۔

لیکن راجپوت کے پاس شاید انٹر میں پڑھنے والی وِشاکھا کے اس سوال کا جواب نہ ہو کہ ’’اگر مظفر نگر میں منصور پور کے اس کھباپور گاؤں کا یہ بچہ وویک یا رمیش رہا ہوتا اور ٹیچر کوئی سکینہ یا زلیخا، تو کیا ہمارے سماج اور اقتدار کا تب بھی ایسا ہی رفع دفع کرو والا کردار ہوتا۔‘‘ اس سوال میں تمام دیگر سوالات چھپے ہوئے ہیں۔ وہ سوال بھی کہ گال پر تھپڑ کھانے والا اگر میرا بچہ ہوتا تو میں کس طرح سوچ یا رد عمل دے رہا ہوتا! سوال تو اور بھی بہت سارے ہیں!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔