’ہندو پاکستان‘ میں آپ کا خیر مَقدم ہے!... ظفر آغا

مودی کے دور میں کچھ ہو نہ ہو، ہندوستان باقاعدہ ہندو راشٹر ضرور بنے گا، باقی کچھ اس لیے ممکن نہیں کیونکہ مودی، بھاگوت اور شاہ کی تکڑی کو دوسرے معاملات میں نہ تو دلچسپی اور نہ ہی ان میں اتنی صلاحیت ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

’مودی ہے تو ممکن ہے۔‘ جی ہاں، نریندر مودی کے دور حکومت میں ہر وہ بات جو ناممکن ہے، وہ ممکن ہے۔ طلاق ثلاثہ جس کا حق مسلمانوں کو آئینی طور پر آزادی کے وقت ملا تھا، وہ ختم۔ کشمیر میں باقاعدہ ہندوستانی فوج و پارلیمنٹ کا پرچم لہرا رہا ہے۔ مسلم پرسنل لاء کے تحت مسلمانوں کو جو حقوق ملے تھے وہ بھی جلد ہی کامن سول کوڈ کے تحت ختم کر دیے جائیں گے۔ بابری مسجد پہلے ہی گرائی جا چکی ہے۔ اب جلد ہی مسلمانوں کا ایودھیا میں اس زمین پر مالکانہ حق ختم ہونے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ امکان اسی بات کے ہیں کہ سپریم کورٹ سے مسلم پارٹی مقدمہ ہار سکتی ہے، یا مقدمہ ہی واپس لے سکتی ہے۔ اگر یہ نہیں ہوتا ہے تو آر ایس ایس نے پس پردہ مصالحت کا دروازہ کھول لیا ہے۔ خبروں کے مطابق سنی وقف بورڈ اور کچھ ہندو پارٹیاں اس کے لیے تیار ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی دوبارہ مصالحت کی اجازت دے دی ہے۔ چند وہ مسلم ہستیاں جو اس معاملے میں سخت رویہ اپنائے ہوئی تھیں، ان کا ہاتھ مروڑ کر ان کو بھاگوت کے دربار میں پیش کیا جا چکا ہے۔ جلد ہی بابری مسجد معاملے میں ایسے سبھی افراد بھی خاموشی اختیار کر سکتے ہیں، اور بس پھر ایودھیا میں بابری مسجد کے جائے مقام پر ایک شاندار رام مندر تعمیر ہو جائے گا۔ اب سنگھ اور مودی کو یہ طے کرنا ہے کہ وہ رام مندر کا کارڈ محض دو سال بعد ہونے والے یو پی اسمبلی چناؤ جیتنے کے لیے کرتے ہیں یا پھر اگلا لوک سبھا چناؤ بھگوان رام کے کاندھوں پر جیتا جائے گا۔ اگر مسلمان کو دوسرے درجے کا شہری بنانے میں کہیں کوئی کسر باقی بچی ہے تو وہ پورے ملک میں این آر سی نافذ کر اس کا حق شہریت ختم کرنے کا پلان تیار ہے۔ جب وہ شہری ہی نہیں رہے گا تو پورے ملک میں فلسطینیوں کی طرح کیمپوں میں رہے گا اور ووٹ دینے سے لے کر باقی تمام اس کے حقوق ختم ہو جائیں گے اور ہندوستان باقاعدہ ایک ہندو راشٹر بن کر دائم و قائم رہے گا۔

جی ہاں، اس ہندو راشٹر میں آپ کا خیر مقدم ہے۔ مودی کے دور میں باقی کچھ اور ممکن ہو یا نہ ہو، یہ ضرور ممکن ہے کہ ہندوستان باقاعدہ ایک ہندو راشٹر بن جائے گا۔ باقی اور کچھ اس لیے ممکن نہیں ہے کہ نریندر مودی، موہن بھاگوت اور امت شاہ کی تکڑی کو محض اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے میں ہی دلچسپی ہے۔ دوسرے معاملات میں ان کو نہ زیادہ دلچسپی ہے اور نہ ہی سمجھ اور فکر ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ بقول ٹائمز آف انڈیا اخبار ہندوستان کی وزیر مالیات نرملا سیتارمن سات مہینوں میں تین بار بجٹ پیش کر چکی ہیں۔ کبھی ٹیکس بڑھائے جاتے ہیں تو کبھی ٹیکس گھٹائے جاتے ہیں۔ خاص طور سے ہندوستانی سرمایہ دار کو آئے دن مراعات دی جا رہی ہیں، جب کہ عام آدمی ملک میں پھیلی معاشی بدحالی کا ایسا شکار ہے کہ جس کی مثال جلد ڈھونڈے نہیں ملتی ہے۔ ملک میں کارخانے بند ہو رہے ہیں، بے روزگاری کا سیلاب ہے، جن کے پاس نوکری نہیں تھی ان کو تو جانے دیجیے، جو نوکری سے لگے تھے وہ بھی بے روزگار ہو رہے ہیں۔ پارلے جی جیسی بسکٹ فیکٹری میں ہزاروں لوگوں کی ملازمت خطرے میں ہے۔ کسان تو پچھلے پانچ سالوں سے رو رہا ہے، شہروں میں بازاروں میں ہو کا عالم ہے۔ خریداری بس نام بھر کو بچی ہے۔


حقیقت یہ ہے کہ معاشی بدحالی سے سارا ہندوستان رو رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مار اس ملک کی اکثریت یعنی ہندو پر بے حد زبردست ہے۔ کیونکہ دوسری اقلیتیں، بالخصوص مسلمان تو ہندوستان کی معیشت میں حاشیہ سے بھی باہر ہے۔ لیکن اگر کل کو لوک سبھا یا کہیں اسمبلی چناؤ ہو جائیں تو مودی جی کی قیادت میں بی جے پی کو پہلے سے بھی زیادہ شاندار کامیابی حاصل ہوگی۔ آخر یہ کیا کمال ہے کہ عوام کے پیٹ پر لات مار کر بھی مودی جی دل و دماغ پر چھائے ہوئے ہیں۔ بات سیدھی سی ہے، جو پاکستان میں پہلے ہوا وہی اب ہندوستان میں ہو رہا ہے۔ پاکستان کا قیام مسلم لیگ نے ہندو اکثریت کا خوف پیدا کر کے کیا تھا۔ حالانکہ سنہ 1947 میں 13 اگست کو پاکستان قومی اسمبلی میں جناح نے جو تقریر کی اس میں انھوں نے بہت کھل کر یہ اعلان کیا کہ بٹوارے کے وقت پاکستان میں جو بھی ہندو-مسلم نفرتیں پیدا ہوئیں، وہ ماضی تھا۔ مستقبل کے پاکستان میں ہندو-مسلم ہر پاکستانی شہری کو برابری کے حقوق حاصل ہوں گے۔ لیکن ایک سیکولر پاکستان کا جناح کا خواب ان کی آنکھ بند ہوتے ہی چکناچور ہو گیا۔ آج پاکستان محض ہندوستانی منافرت کے نام پر جہاد اور دہشت گردی کے نام پر چل رہا ہے۔ وہاں بھی عوام کی زندگی جہنم ہے اور فوج ہندو ہندوستان کا حوا کھڑا کر آج بھی کشمیر کے نام پر عوام کے دل و دماغ پر چھائی ہوئی ہے۔

سنگھ اور نریندر مودی نے وہی پاکستان ماڈل اب ہندو عوام کے دل و دماغ پر پردہ ڈالنے کے لیے اپنا لیا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ وہاں ہندو اور ہندوستان منافرت کا جال بُنا گیا ہے اور یہاں مسلم اور پاکستان منافرت کا ڈنکا بجایا جا رہا ہے۔ پہلے یہ تھا کہ ’مودی مسلمان کو ٹھیک کر دے گا‘ اور اب ’مودی پاکستان کو ٹھیک کر رہا ہے‘۔ کشمیر میں دفعہ 370 کو ختم کرنے اور پاکستان میں ’گھس کر سبق سکھانے‘ کے بعد سے سنگھ اور بی جے پی ہر طرح سے یہی سیاسی میسج دے رہے ہیں کہ اب مودی پاکستان کو ٹھیک کر رہا ہے۔


اس سلسلے میں سنگھ کا جو رول ہے وہ تو اپنی جگہ ہے ہی، لیکن بی جے پی اور مودی کے پاکستان کو ٹھیک کرنے کا میسج پہنچانے میں میڈیا اور بالخصوص ٹی وی جو غضب کا رول ادا کر رہا ہے، وہ بس اپنے میں کمال ہی ہے۔ اگر آپ غور کریں تو آپ کو یہ صاف سمجھ میں آ جائے گا کہ ٹی وی پر جو روز پرائم ٹائم پر بحث ہوتی ہے وہ نفسیاتی سطح پر ہند و پاک کے درمیان کم و بیش ایک فرضی جنگ ہوتی ہے۔ اس میں ایک جوکر قسم کی مسلم پرسنالٹی بٹھائی جاتی ہے کہ جو دیکھنے اور وضع قطع میں مسلمان تو ہو مگر بدعقل ہو اور پسماندہ نظر آتی ہو۔ ہندو پارٹی اس پر کسی نہ کسی طرح سے یلغار کرتی ہے۔ پہلے وہ مسلم پارٹی اپنی احمقانہ دلیل سے ہندو یلغار کا مقابلہ کرتی ہے۔ ادھر بحث کے دوران اینکر بہت خوبصورتی سے ہندو-مسلم تناؤ کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ اس کے اس عمل کا اثر ٹی وی شو کے ناظرین پر یہ ہوتا ہے کہ دیکھنے والے کے جذبات بھی آہستہ آہستہ نفسیاتی سطح پر بھڑکتے رہتے ہیں۔ آخر میں مسلم پارٹی کی ناک رگڑ دی جاتی ہے اور ہندو پارٹی فاتح ہوتی ہے۔ ادھر شو ختم ہوتے ہوتے ہندو ناظرین کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ آخر میں ان کی فتح ہوگئی۔ اور بس اس ملک کی اکثریت روز کبھی پاکستان کو جنگ ہرا کر یا کبھی ہندوستانی مسلمان کو جنگ ہرا کر اپنی روزی روٹی کے مسائل بھولا رہتا ہے۔ اور مودی و بی جے پی کو اپنا مسیحا سمجھ کر اس کو اپنا ووٹ دیتا رہتا ہے۔

یہ وہی سیاست ہے جو پچھلی نہ جانے کتنی دہائیوں سے پاکستان میں ہندو اور ہندوستان کے نام پر چل رہا ہے۔ یہی سیاست اب ہندوستان میں ہو رہی ہے۔ ہندوستان میں اب مسلم و پاکستان کے نام پر مودی کا ڈنکا بج رہا ہے۔ پاکستان اس سیاست میں جھلس گیا اور اس کے وزیر اعظم کے ہاتھ میں امداد کا کٹورا آ گیا۔ ہندوستانی معیشت کا اب جو حال ہے اس کے بعد اگر یہاں بھی یہی حال رہا تو ہندوستان کو بھی امداد پر ہی منحصر ہونا پڑے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 21 Sep 2019, 8:10 PM