اتراکھنڈ: وزیر اعلیٰ اور خاتون ٹیچر تنازعہ کا رخ موڑنے کی کوشش میں ’میڈیامنیجر‘

ایسے معاملوں میں کئی بار اخلاقی بنیاد پر تبادلے کیے یا منسوخ کرائے جاتے رہے ہیں۔ خود وزیر اعلیٰ تریویندر سنگھ راوت جی کی بیوی ٹیچر ہیں اور 1996 سے دہرہ دون میں اپنے شوہر کے ساتھ ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

دنیش جویال

اتراکھنڈ حکومت نے ’جنتا دربار‘ لگایا جس میں ریاست کے وزیر اعلیٰ تریویندر سنگھ راوت اپنے معاونین، افسروں اور بقیہ کئی سرکاری نمائندوں کی موجودگی میں انصاف کی کرسی پر خود گدی نشین تھے۔ 57 سال کی خاتون ٹیچر اُتّرا پنت بہوگنا نے گیلری میں پہنچ کر ادب کے ساتھ فریاد کی کہ... سر، 25 سال سے پہاڑ کے دور دراز علاقہ میں تعینات ہوں، شوہر کی موت ہو چکی ہے، بچوں کو یتیم کی طرح نہیں چھوڑ سکتی، ملازمت بھی نہیں چھوڑ سکتی۔ سر آپ کو میرے ساتھ انصاف کرنا ہی پڑے گا...۔

لیکن اس ادب میں وزیر اعلیٰ کو کچھ بے ادبی نظر آئی۔ انھوں نے خاتون ٹیچر سے پوچھ لیا کہ ملازمت لکھتے وقت کیا لکھ کر دیا تھا۔ اس پر خاتون ٹیچر کا جواب تلخ تھا۔ اس نے کہا – سر، ساری عمر وَن واس بھوگوں یہ تو نہیں لکھا تھا۔

وزیر اعلیٰ نے اسے فوراً سسپنڈ کرنے کا زبانی حکم صادر کیا اور ساتھ ہی خاتون کو وہاں سے ہٹانے کے لیے کہا۔ اس پر خاتون بھی مشتعل ہو گئی اور پھر اس کے بعد اسے حراست میں لینے کا حکم صادر ہو گیا۔

اُتّرا پنت بہوگنا تو کئی دن پہلے سے ایک طرح سے تحریک عدم اعتماد پر تھیں۔ وہ اپنے اسکول نہیں جا رہی تھیں۔ خوف تھا کہ کام کرنے لگیں گی تو ان کا معاملہ پھر ٹال دیا جائے گا۔ بی جے پی حامی تبصرے کر رہے ہیں کہ ایسے لوگ جو پہاڑ میں ملازمت نہیں کر سکتے انھیں نکال دینا چاہیے۔ لیکن اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اُتّرا جی کا اصل کیس کیا ہے؟ پہاڑوں میں صحافی امیش ڈوبھال کی موت کے وقت سے ہی شراب مافیہ بہت سرگرم رہا ہے۔ اُتّرا پنت بہوگنا نے پرانے وزیر اعلیٰ سے بھی فریاد کی تھی کہ شوہر اکیلے رہتے تھے۔ شراب کی لت پڑ گئی ہے۔ اگر سنبھالنے-سمجھانے کے لیے بیوی بھی ساتھ نہیں رہی تو ایک دن شراب کا شکار بن جائیں گے۔ بات کیڈر کا حوالہ دے کر ٹال دی گئی۔ اندیشہ صحیح ثابت ہوا اور شوہر کی موت کے بعد اب بچوں کو سنبھالنے کا چیلنج بھی اُتّرا جی پر آ پڑا ہے۔

ایسے دیگر معاملوں میں کئی بار اخلاقی بنیاد پر تبادلے کیے یا رَد کرائے جاتے رہے ہیں۔ خود وزیر اعلیٰ جی کی بیوی ٹیچر ہیں اور 1996 سے دہرہ دون میں اپنے شوہر کے ساتھ ہیں۔ ایک دیگر لیڈر کی بیوی کے لیے خود حکومت نے راستہ نکالا، انھیں ایک خاتون افسر کے محکمہ سے جوڑا گیا۔ جانکار بتاتے ہیں کہ کسی بااثر لیڈر نے تو ہایر ایجوکیشن میں اپنی بیوی کو دہلی تک سے ’اٹیچ‘ کروا لیا۔

یہاں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ متاثرہ کو ’جنتا دربار‘ میں کھل کر بات کہنے کے بدلے ملازمت کے ضابطوں اور ڈسپلن کا سبق پڑھا کر اس طرح ذلیل کیے جانے پر لوکل مین اسٹریم میڈیا کے اخباروں نے کیا کوئی ذمہ داری نبھائی؟ سوشل میڈیا پر تو پورے معاملے پر وزیر اعلیٰ سے سوال کرنے کے ساتھ وسیع پیمانے پر ناراضگی کا اظہار دیکھنے کو ملا۔ اس نے کئی سوال کیے، مثلاً کیا حکومت کو اس طرح کا جنتا دربار جاری رکھنا چاہیے جہاں پہلے کسی جی ایس ٹی سے پریشان ہلدوانی کے ایک کاروباری نے زہر کھا کر جان دے دی اور اب ایک خاتون ٹیچر کے ساتھ ایسا برا سلوک کیا گیا؟ کیا حکومت واقعی شفاف ہے؟ کیا ایسے آدمی کے رہتے اتراکھنڈ میں مودی میجک آگے چل سکے گا؟

لیکن دہرہ دون کے تین اہم ہندی اخبارات میں خبروں کی شروعات ہی خاتون ٹیچر کی بدتمیزی والے رویہ کے الزام سے کی گئی۔ یہ چست میڈیا مینجمنٹ کی مثال مانی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر اچانک دہرہ دون میں وہاٹس ایپ پر ایک ایسا گروپ منظر عام پر آ گیا ہے جس میں حکومت کے میڈیا منیجروں نے حکومت کی وضاحت کے پیش نظر اُتّرا جی کو قصوروار ٹھہرانے والے نوٹیفکیشن سے شروعات کی ہے۔ جانکار کہتے ہیں کہ یہ نوٹیفکیشن اخباروں میں ضرور شائع ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔