یوپی انتخاب: فساد کی زمین پر محبت کی فصل، حیرت انگیز رہے مظفر نگر کے انتخابی نتائج

یوپی اسمبلی انتخاب میں کچھ حیران کرنے والے نتائج بھی برآمد ہوئے، 2013 میں فساد کی تلخی کو سیاست کی ریاضی نے دھواں کر دیا، مظفر نگر اور شمالی کی 9 اسمبلی سیٹوں میں سے 7 پر بی جے پی کو شکست ہوئی۔

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

یوپی اسمبلی انتخاب میں کچھ حیران کرنے والے نتائج بھی برآمد ہوئے، 2013 میں فساد کی تلخی کو سیاست کی ریاضی نے دھواں کر دیا ہے۔ 2013 میں فساد متاثرہ مظفر نگر اور شمالی کی 9 اسمبلی سیٹوں میں سے 7 پر بی جے پی کو شکست ہوئی ہے۔ 2017 میں بی جے پی ان سبھی 9 سیٹوں پر کامیاب ہوئی تھی۔ اس بار صرف اسے مظفر نگر اور کھتولی میں کامیابی ملی۔ یہاں جیت کا فرق بھی بہت زیادہ نہیں رہا۔سماجوادی پارٹی اتحاد نے یہاں شاملی ضلع کی تینوں سیٹوں پر جیت حاصل کی، اور مظفر نگر کی چار اسمبلی سیٹیں بھی حاصل کر لی۔ ان سات میں سے چار سیٹوں پر آر ایل ڈی اور 3 پر سماجوادی پارٹی کو کامیابی ملی۔

اتحاد کو سب سے زوردار جیت شاملی ضلع کی تھانہ بھون اسمبلی سیٹ پر ملی ہے جہاں یوگی آدتیہ ناتھ حکومت میں گنا کے وزیر سریش رانا انتخاب ہار گئے ہیں۔ سریش رانا کو جلال آباد گھرانے کے اشرف علی خان نے 11 ہزار ووٹوں سے ہرایا ہے۔ اشرف علی خان آر ایل ڈی کی ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہے تھے۔ سریش رانا کی اس شکست کے بہت چرچے ہیں۔ گنا وزیر ہونے کے بعد بھی ادائیگی نہ ہونے سے کسان ان سے بہت ناراض تھے۔ اشرف علی خان کو ایک لاکھ 3 ہزار ووٹ ملے۔

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف

اسی ضلع کی کیرانہ سیٹ پر جیل میں بند سماجوادی پارٹی امیدوار ناہید حسن نے آنجہانی حکم سنگھ کی بیٹی مرگانکا سنگھ کو 20 ہزار سے زائد ووٹوں سے ہرا دیا ہے۔ ناہید حسن کی بہن اقرا حسن اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں انتخاب کی قیادت کر رہی تھیں۔ اسی اسمبلی سیٹ پر وزیر داخلہ امت شاہ نے گھر گھر جا کر تشہیر کی تھی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں ہجرت کے ایشو کو خوب ہوا دی تھی۔ ناہید حسن کی بڑی جیت اس حلقہ میں ایک بڑی کہانی کہتی ہے۔ ناہید حسن سماجوادی پارٹی کے امیدوار تھے۔ انھیں ایک لاکھ 30 ہزار ووٹ ملے۔

شاملی شہر کی سیٹ بھی اتحاد کے حصے میں گئی ہے۔ اس سیٹ پر آر ایل ڈی کے پرسنّ چودھری نے جیت حاصل کی ہے۔ فساد میں یہ ضلع سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا۔ پرسنّ چودھری نے 7 ہزار کے فرق سے بی جے پی کے تیجندر نروال کو شکست دی ہے۔ تیجندر نروال 2017 میں یہاں سے انتخاب جیتے تھے۔ شاملی شہر میں مسلم ووٹوں کی تعداد کم ہے، ایسے میں اس جیت کو اہم تصور کیا جا رہا ہے۔

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف

مظفر نگر کی بڈھانہ سیٹ پر اتحاد کی جیت بڑا پیغام لے کر آئی ہے۔ اسی اسمبلی سیٹ میں بی جے پی کے مرکزی وزیر سنجیو بالیان اور کسان لیڈر راکیش ٹکیت کا گھر بھی ہے۔ یہاں سے آر ایل ڈی کے راجپال بالیان انتخاب جیت گئے ہیں۔ راجپال بالیان کو آنجہانی مہندر سنگھ ٹکیت کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے بی جے پی کے امیش ملک کو ہرایا ہے۔ 2013 کے فسادات میں بڈھانہ اسمبلی حلقہ سب سے زیادہ تشدد سے متاثر ہوا تھا۔ اس سیٹ پر مسلم اور جاٹ ووٹوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ سب سے زیادہ نقصان بھی اسی اسمبلی حلقہ میں ہوا تھا۔ جاٹ اور مسلمانوں کا یہاں ایک پلیٹ فارم پر آنا بڑی بات تھی۔ راجپال بالیان کو ایک لاکھ 23 ہزار ووٹ ملے ہیں۔ وہ 28 ہزار ووٹوں سے جیتے ہیں جو اس ضلع کی سب سے بڑی جیت ہے۔

اس کے علاوہ چرتھاول اسمبلی سیٹ پر سماجوادی پارٹی کے پنکج ملک انتخاب جیت گئے ہیں۔ انھوں نے بی جے پی کی سپنا کشیپ کو ہرایا ہے۔ پنکج ملک کو بھی ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ پور قاضی اسمبلی حلقہ سے سماجوادی پارٹی اتحاد کے انل کمار نے بی جے پی کے پرمود اونٹوال کو 6 ہزار ووٹوں سے ہرایا ہے۔ میراپور اسمبلی حلقہ سے آر ایل ڈی کے چندن چوہان نے بی جے پی کے پرشانت چودھری کو شکست دی ہے۔ انھوں نے 27 ہزار ووٹوں سے بی جے پی کے امیدوار کو شکست دی۔ خاص بات یہ ہے کہ جیتنے والے سبھی امیدواروں کو 40 فیصد سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ جسے جاٹ اور مسلم مل کر پورا کرتے ہیں۔

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف

فسادات کی اس زمین پر جاٹ مسلم اتحاد کی اس فصل کی کامیابی پر بڈھانہ کے دلدار احمد کہتے ہیں کہ اس کامیابی کو ایک طرف جہاں کسان اتحاد کہہ سکتے ہیں تو اسے بی جے پی کی پالیسیوں کی مخالفت بھی کہا جا سکتا ہے۔ جب ایک جیسی ناراضگی والے لوگ متحد ہوئے تو یہ نتیجہ آیا ہے۔ حالانکہ دوسری جگہوں پر اس کا رد عمل بھی ہوا اور فرقہ وارانہ پولرائزیشن ہوا۔ مگر جس طرح سے ٹھوکر لگنے کے بعد ہمیں سُدھ آ گئی ویسے ہی وقت رہتے سبھی کو آ جائے گی۔

میرا پور اسمبلی حلقہ کے مورنا گاؤں کے منوج راٹھی بھی اسی طرح کی بات کہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہم مظفر نگر کے باشندوں سے زیادہ فساد کا درد کا احساس کسی کو نہیں ہے۔ جب ہم فساد کے درد کو بھلا کر ساتھ آ سکتے ہیں تو اس بات کو فرقہ وارانہ سیاست کے بہکاوے میں ووٹ کرنے والے سبھی سماج کو سمجھنا چاہیے۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہم پولرائزیشن کی اندھی دوڑ میں نہیں بہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔