یونیفارم سول کوڈ بھی نفسیاتی فائدہ اٹھانے کا طریقہ، ماہرین قانون کی رائے

ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ کئی انفرادی قوانین مرکز کے حلقہ اختیار میں آتے ہیں، اس لیے ایک کا ریاستی قانون کسی بھی مرکزی قانون کی جگہ نہیں لے سکتا جب تک کہ اسے صدر جمہوریہ کی منظوری نہ مل جائے۔

بشکریہ @LiveLawIndia
بشکریہ @LiveLawIndia
user

ایشلن میتھیو

اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے وزیر اعلیٰ عہدہ کا حلف لینے کے ساتھ ہی پہلی کابینہ میٹنگ میں اس تجویز کو پاس کر دیا کہ اتراکھنڈ میں جلد ہی یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے اعلان کر دیا کہ اس سلسلے میں مسودہ تیار کرنے کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی بھی تشکیل دی جا رہی ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء کا کہنا ہے کہ اس سے کچھ ہونے والا نہیں ہے اور یہ صرف سرخیاں بٹورنے کے لیے کیا گیا ہے۔

غور طلب ہے کہ شادی، وراثت، گود لینا اور جانشیں جیسے معاملے مختلف طبقات کے نجی قوانین یعنی پرسنل لاء کے مطابق طے ہوتے ہیں۔ اس لیے سبھی مذہبی طبقات کو اپنے اپنے پرسنل لاء ہیں۔ زیادہ تر معاملے مشترکہ خاندان کے ٹیکس تعین اور ملکیت ٹرانسفر سے جڑے کنکرنٹ لسٹ کا حصہ ہیں۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ مرکز اور ریاست دونوں ہی قوانین بنا سکتے ہیں۔ لیکن ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ کوئی نجی قانون مرکز کے حلقہ اختیار میں آتے ہیں اس لیے ایک کا ریاستی قانون کسی بھی مرکزی قانون کی جگہ نہیں لے سکتا جب تک کہ اسے صدر جمہورہی کی منظوری نہ مل جائے۔


لاء کمیشن نے 2018 میں کہا تھا کہ ملک کے لیے ایک یونیفارم سول کوڈ ضروری نہیں ہے۔ کمیشن نے اس کی جگہ موجودہ فیملی لاء یعنی خاندانوں سے جڑے قوانین میں تبدیلی کی سفارش کی تھی تاکہ پرسنل لاء کے ذریعہ ہونے والی تفریق یا نابرابری کو روکا جا سکے۔

اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ کے اعلان پر سوال اٹھاتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سنجے ہیگڑے نے کہا کہ شادی، گود لینا، وراثت اور دیگر معاملوں کے لیے مختلف طبقات کے لیے ایک یکساں مرکزی قوانین موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’آخر اتراکھنڈ حکومت کیسے کوئی ایسا قانون بنا سکتا ہے جو مرکز کے قوانین کو منسوخ کر دے گا اور ریاست کو اپنے طریقے سے قانون کی چھوٹ دے دے گا؟ کوئی بھی ریاست تبھی یونیفارم سول کوڈ نافذ کر سکتا ہے جب اسمبلی اسے پاس کرے اور پھر اسے پاس کرنے کے لیے صدر جمہوریہ کی منظوری کے لیے بھیجا جائے اور اگر صدر جمہوریہ اس پر مہر لگا دیں تو ہی یہ قانون نافذ ہو سکتا ہے۔‘‘ ہیگڑے نے مزید کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ اتراکھنڈ حکومت کو یہ کہنا ہوگا کہ ہندو شادی ایکٹ، نیو منٹیننس ایکٹ، اسپیشل اڈاپشن ایکٹ، شریعت قانون اور اسپیشل میرج ایکٹ اور شہریوں کی زندگی سے جڑے سبھی معاملوں کے قوانین اتراکھنڈ میں رد ہو جائیں گے۔


حکومت کو یہ بھی کہنا ہوگا کہ اگر کوئی پریشانی ہوتی ہے تو صرف اتراکھنڈ قانون ہی نافذ ہوگا۔ اتراکھنڈ کو اس کے لیے شادی، گود لینے اور ٹیکس تقرری وغیرہ کے لیے ایک وسیع قانون پاس کرنا ہوگا۔ فی الحال تو حکومت کے پاس اس بارے میں کوئی قانون یا اس کا مسودہ نہیں ہے کہ یونیفارم سول کوڈ کیا کرے گا۔ سپریم کورٹ کے ایک دیگر وکیل شاہ رخ عالم کا کہنا ہے کہ ’’تو پھر ٹیکس لاء اور مشترکہ ہندو فیملی کو ملنے والے ٹیکس فائدوں کا کیا ہوگا؟ کیا ٹیکسیشن یونیفارم سول کوڈ کا حصہ نہیں ہوگا؟‘‘ انھوں نے کہا کہ ٹیکسیشن تو ایک سنٹرل قانون ہے۔ پورے ہندو طبقہ کو جو فائدہ ملتا ہے مشترکہ فیملی کے نام پر اس کا کیا ہوگا، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا رہا ہے۔

شاہ رخ عالم نے اس تعلق سے کہا کہ ’’کسی بھی یونیفارم سول کوڈ میں ٹیکس لاء بھی شامل ہوں گے۔ لیکن ان کے خیال میں شاید یہ نہیں ہے کہ مشترکہ ہندو فیملی کے نام پر ہندو طبقہ کو فائدہ ملتا ہے۔ یونیفارم سول کوڈ آنے سے اس پر بھی فرق پڑے گا۔‘‘ شاہ رخ نے مزید کہا کہ دراصل یونیفارم سول کوڈ کو مسلمانوں کے مسئلہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس قانون کی وکالت کرنے والوں کی دلیل ہے کہ اس سے طبقات میں برابری، اتحاد اور قومی جذبہ پیدا ہوگا۔ شاہ رخ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ایک بات پر دھیان دینا ہوگا کہ وہ اسے ریاستی سطح پر کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے اس سے علاقائی سطح پر برابری کی کوشش ہوگی۔ اس سے نشانے پر مذہب ہیں۔ اگر اتراکھنڈ اسے قومی اتحاد کے نام پر کر رہا ہے تو پھر یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ یہ دہلی یا پھر اتر پردیش سے الگ ہوگا۔‘‘


سنجے ہیگڑے بھی کہتے ہیں کہ بی جے پی حکومتیں کچھ بھی کہہ سکتی ہیں، لیکن سا سب پر تو سنٹرل قوانین ہیں، ایسے میں اگر ایسا کچھ ہوتا بھی ہے تو یہ مرکز کے ساتھ ٹکراؤ کی حالت ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ ’’جب تک ریاستوں کے قوانین کو مرکز کی منظوری نہیں ملتی، تب تک یہ نافذ نہیں ہوں گے۔ تو کیا وہ سبھی قوانین کو ایک وسیع قانون میں بدلنا چاہتے ہیں؟ پھر کہیں گے کہ مرکز کے قانون ریاستوں پر نافذ نہیں ہوتے؟ میرا ماننا ہے کہ کوئی بھی ریاست ایسا کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو مسائل کو بلاوا دے رہا ہے۔‘‘

اُدھر سپریم کورٹ کے سینئر وکیل راجیو دھون نے اس پر سوال اٹھائے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’بغیر کسی اہم اور تفصیلی جانکاریوں کے یہ کہنا مشکل ہے کہ اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ صرف سیاست ہے۔ یونیفارم سول کوڈ کو لے کر کوئی جانکاری ابھی تک سامنے نہیں ہے۔ اس میں ایسا کچھ نہیں ہے جس پر بات کی جائے۔‘‘


بہت سے لوگوں کی دلیل ہے کہ گوا میں تو پہلے سے کامن سول کوڈ نافذ ہے۔ دراصل گوا 1867 کا پرتگالی سول کوڈ مانتا ہے۔ پرتگال کی حکومت ختم ہونے کے بعد بھی گوا، دمن اور دیو ایڈمنسٹریشن ایکٹ، 1962 کی دفعہ 5(1) کے ذریعہ اسے جاری رکھا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ 1955 کا ہندو میرج ایکٹ اور 1956 کا ہندو وراثت ایکٹ یا 1937 کا شریعت ایکٹ گوا میں نافذ نہیں ہو سکتا۔

لیکن جیسا کہ ماننا ہے گوا کا قانون یونیفارم سول کوڈ نہیں ہے۔ گوا میں شریعت قانون نافذ نہیں ہے اور مسلم طبقہ بھی گوا کے ہی کامن کوڈ پر عمل کرتا ہے۔ اسی طرح ہندو میرج ایکٹ میں بھی ہے کہ صرف مذہب کی بنیاد پر ہندو شادی کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ گوا میں کیتھولک اور غیر کیتھولک شادی کے رجسٹریشن میں فرق ہے۔


1880 کے گوا کے غیر یہودی ہندو استعمالوں اور رسوم و رواج کے ڈکری کی دفعہ 3 میں کہا گیا ہے کہ ایک ہندو شوہر بچہ نہ ہونے کی حالت میں دوسری بیوی رکھ سکتا ہے۔ یہ ہندو شادی ایکٹ اور تعزیرات ہند دونوں کے برعکس ہے۔ گوا سول کوڈ چار الگ الگ اشکال میں شادی سے قبل معاہدوں کی اجازت دیتا ہے۔ گوا کوڈ 50 فیصد سے زیادہ ملکیت کے لیے وصیت بنانے پر روک لگاتا ہے، لیکن ہندو جانشیں ایکٹ سبھی ملکیتوں کو وصیت کے ذریعہ سے نمٹانے کی اجازت دیتا ہے۔

گوا سول کوڈ میں فرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عالم اور ہیگڑے دونوں نے زور دے کر کہا کہ اسے سبھی معاملوں میں یونیفارم سول کوڈ کی شکل میں ظاہر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سول لائف کے کچھ پہلوؤں میں اس کی یکسانیت ہے، لیکن سبھی میں نہیں۔ گوا کی ایک خاص تاریخ ہے، اس لیے وہاں کا کوڈ پورے ملک میں نافذ نہیں کیا جا سکتا ہے۔


شاہ رخ عالم کہتے ہیں کہ ’’ریاست اور بی جے پی صرف اس ایشو کو گرم رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ایک جنرل سول کوڈ سے ان کا کیا مطلب ہے۔ یہ ایک نفسیاتی بات زیادہ ہے، کیونکہ اس میں آنے والے حملے کا جذبہ ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کا مقصد یہی ہے۔‘‘ دوسری طرف ہیگڑے کہتے ہیں کہ ’’بی جے پی نعروں اور ہیش ٹیگ کے آگے سوچ نہیں پاتی، اسی لیے یونیفارم سول کوڈ کے دعوے کو بھی ایسا ہی ماننا چاہیے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔