سچی ’بھاؤنا‘، جھوٹی ’آہت‘... اعظم شہاب

عورتوں کو دیوی کا درجہ دینے والے ہمارے اس سماج میں آج بھی بہت سی دیویاں طاقتوروں کے ذریعے استحصال کا شکار ہو رہی ہیں، خریدی و بیچی جارہی ہیں لیکن کسی کی دھارمک بھاؤنا آہت نہیں ہو رہی ہے۔

 لینا منی میکلائی، تصویر آئی اے این ایس
لینا منی میکلائی، تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

معلوم نہیں آج کل ہمارے ملک میں کچھ لوگوں کی دھارمک بھاؤنا اتنی کمزور کیسے ہوگئی ہے کہ وہ اداکاری کا ایک ہلکا سا جھٹکا بھی برداشت نہیں کرپا رہی ہے۔ یہ دھارمک بھاؤنا اس وقت مزید سخت آہت ہوجاتی ہے جب اس اداکاری کے ذریعے کسی سچائی کا اظہار کیا جائے اور اس وقت تو اس کے آہت ہونے میں کوئی شبہ تک نہیں رہ جاتا ہے جب اس سچائی کا اظہار کوئی ایسے شخص کے ذریعے ہو جائے جس کی وابستگی ہمارے یہاں کا مروجہ ہندوتوا سے نہ ہو۔ دھارمک بھاؤنا کے آہت ہونے کا تازہ ترین واقعہ آسام کا ہے جہاں شیو پاروتی کے لباس میں دو اداکاروں نے مہنگائی کے خلاف اپنے انداز میں احتجاج کر دیا۔ ایک تو شیو پاروتی کا رول اور اس پر اس بات کے خلاف احتجاج جو دورِ حاضر کی سب سے بڑی دیش بھکت پارٹی کی حصولیابیوں میں سے ایک ہو، بھلا کس طرح برداشت کیا جاسکتا ہے؟ سو ان اداکاروں کے خلاف ’دھارمک بھاؤنا آہت‘ کرنے کے الزام میں نہ صرف ایف آئی آر درج کی گئی بلکہ انہیں گرفتار بھی کرلیا گیا۔

آسام کے ناگاؤں شہر میں 9 جولائی کو شیو اور پاروتی کے کاسٹیوم میں دو اداکاروں نے ایک نکڑ ناٹک کیا۔ وہ ایک موٹرسائیل پر سوار ہوکر سڑک پر نکلے۔ اچانک ان کی موٹرسائیکل کا پٹرول ختم ہو جاتا ہے۔ پاروتی بنی اداکارہ شیو بنے ادکار سے ناراض ہونے کی اداکاری کرتی ہے۔ دونوں عین سڑک کے درمیان بحث شروع کر دیتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے پٹرول کے ختم ہونے پر شروع ہونے والی یہ بحث مہنگائی اور عام آدمی کی پریشانی تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ ڈرامہ دیکھنے والوں کی بھیڑ لگ جاتی ہے اور سبھی کو شیو اور پاروتی کا یہ روپ پسند آیا۔ لیکن بات جب مہنگائی کے خلاف احتجاج تک پہنچی تو ان میں سے کچھ لوگوں کی ’دھارمک بھاؤنا آہت‘ ہوگئی۔ وی ایچ پی وبجرنگ دل وغیرہ نے اسے دیوی دیوتاؤں کی توہین بتاکر پولیس میں کیس درج کروایا۔ پولیس نے ان اداکاروں کو گرفتار کرلیا جو بعد میں ضمانت پر رہا ہوئے۔


شیو بنے اداکار برینچا بورا اور پاروتی بنی اداکارہ پریسمتا داس کا کہنا ہے کہ انہوں نے لوگوں میں بیداری لانے کے لیے یہ ڈرامائی طریقہ اختیار کیا تھا۔ لیکن ان بیچاروں کو کون سمجھائے کہ جب پورے ملک میں دھرم ہی ایک ڈرامہ بن جائے تو پھر کسی دیگرڈرامے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی، خاص طور سے ایسے ڈرامے کی تو ہرگز نہیں جس کا مقصد لوگوں میں بیداری لانا ہو کیونکہ ایسی صورت میں ہرکوئی خود کو بیدار سمجھتا ہے۔ یوں بھی کسی سونے والے کو تو بیدار کیا جاسکتا ہے لیکن اگر کوئی سونے کا ڈھونگ کرلے تو اس کی بیداری نہایت مشکل ہوتی ہے۔ چونکہ دھرم کی ڈرامے بازیوں سے ہی حکومت کو آکسیجن مل رہی ہے تو پھر ایسے کسی ڈرامے کو بھلا کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے جو عوامی مسائل کو اجاگر کرے۔ جن لوگوں نے ان اداکاروں کے خلاف پولیس میں ایف آئی آر درج کروائی ان کی دھارمک بھاؤنا کبھی آہت نہیں ہوتی اگر وہ پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنائے ہوئے مہنگائی کو موضوع نہیں بناتے۔ لیکن انہوں نے اس کی جسارت کی توان کی یہ اداکاری شیو و پاروتی کی توہین بن گئی۔

اس سے قبل 2 جولائی کو بھی اسی طرح کچھ لوگوں کی دھارمک بھاؤنا آہت ہوئی تھی جب فلم ڈائریکٹر لینا منی میکلائی نے اپنی فلم ’کالی‘ کا پوسٹر سوشل میڈیا پر شیئر کیا تھا۔ اس پوسٹر میں کالی کو سگریٹ پیتے ہوئے دکھایا گیا تھا جس پر پورے ملک میں ہنگامہ شروع ہوگیا تھا۔ لینا پر دھارمک بھاؤنا آہت کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کی مانگ کی جانے لگی۔ حالانکہ لینا کی حمایت میں بھی لوگوں کی آوازیں بلند ہوئیں لیکن یہ آوازیں ٹرول آرمی کے سیلاب میں کہیں بہہ سی گئیں۔ اس کے بعد 7جولائی کو لینا نے ایک اور فوٹو شیئر کرتے ہوئے دھرم کے ڈرامے بازوں کو آئینہ دکھانا چاہا جس میں شیو پاروتی کو سگریٹ پیتے ہوئے دکھایا گیا۔ پھر اس کے بعد تو باقاعدہ مخالفت کا طوفان امڈ پڑا۔ مدھیہ پردیش سے لے کر مغربی بنگال تک لینا کے خلاف ایف آئی آر درج ہوگئی اور ہنگامہ یہاں تک بڑھا کہ وزیرخارجہ کے ترجمان اروندم باگچی کو اس پربیان دینا پڑا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ ’دھارمک بھاؤنا‘ خاص طور سے انہیں کی ’آہت‘ کیوں ہو رہی ہیں جو 2014 سے ہندوؤں کے ’اتھان‘ کے دعوے کرتے نہیں تھکتے ہیں؟


ہمارے ہندوستانی سماج میں عورتوں کو دیوی کا درجہ دیا جاتا ہے۔ کالی، درگا، لکشمی، پاروتی، بھارتی، سرسوتی، شاردا، ہنس واہنی وکمدی وغیرہ ناموں کے ساتھ ان کی پوجا کی جاتی ہے جو عورتوں کی ہی روپ ہوتی ہیں۔ لیکن دیویوں کے ان پجاریوں سے پوچھا جانا چاہئے کہ ملک کے دور دراز علاقوں وجنگلوں میں رہنے والی وہ عورتیں جن کو تن ڈھکنے تک کے کپڑے میسر نہیں ہوتے ہیں انہیں بھلا دیوی کے کن اوتاروں میں شمار کیا جائے؟ یا پھر انہیں دیوی ہی نہ مانا جائے؟ آج بھی دیہی علاقوں کی یہ دیویاں طاقتوروں کے ذریعے استحصال کا شکار ہو رہی ہیں، خریدی وبیچی جا رہی ہیں لیکن کسی کی دھارمک بھاؤنا آہت نہیں ہو رہی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا صرف کالی وپاروتی کے کاسٹیوم پہن کر سگریٹ نوشی کرنے یا مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے سے ہی دھارمک بھاؤنا آہت ہوگی؟ تو اس کا جواب آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے کچھ یوں دیا کہ صرف کاسٹیوم پہننا کوئی جرم نہیں لیکن اگر کوئی قابلِ اعتراض بیان دیتا ہے تو غلط ہے۔ ان کے اس بیان سے بھلا کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ البتہ ان کے اس بیان سے اگر کوئی یہ مطلب اخذ کرلے کہ وہ قابلِ اعتراض بیان حکومت کی ناکامیوں کے خلاف احتجاج ہے تو اس میں بھی کچھ غلط نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ فیصلہ کرنے کا اختیار وی ایچ پی و بجرنگ دل جیسے دھرم کے ٹھیکیداروں کے صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔