اسے کہتے ہیں بھگوا دہشت گردوں کے اچھے دن

این آئی اے کی سستی، کاہلی اور جانبداری کا آسانی کے ساتھ مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اب بتائیے یہ بھگوا دہشت گردوں کے اچھے دن نہیں ہیں تو کیا ہیں؟۔ بلکہ ان کے لیے تو موسم بہار ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سہیل انجم

لیجیے صاحب! اسیمانند کے بعد اب مایاکوڈنانی بھی بری ہو گئیں۔سادھوی پرگیہ ٹھاکر اور کرنل پروہت بھی اسی طرح چھوٹ جائیں گے اور مسلم مخالف فسادات اور بم دھماکوں کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ اسے کہتے ہیں بھگوا دہشت گردوں کے اچھے دن۔ بلکہ ان کے لیے تو موسم بہار ہے۔ یہ بہار کم از کم 2019 کے پارلیمانی انتخابات تک تو ہے ہی۔ ممکن ہے کہ اس کے بعد بہار کے یہ دن خزاں میں تبدیل ہو جائیں۔ اسی لیے اس دن کے آنے سے قبل ہی ایسے تمام ملزموں کو جن کا تعلق سنگھ پریوار سے ہے، بری کرانے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔ بی جے پی صدر امت شاہ سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر معاملے میں بری ہو ہی چکے ہیں۔ جس جج سے خطرہ تھا وہ تو اب اس دنیا میں نہیں ہے اور اس کی موت کی جانچ کرانے سے سپریم کورٹ نے انکار کر دیا ہے۔

مایا کوڈنانی نہ صرف بی جے پی لیڈر ہیں بلکہ وہ گجرات میں بی جے پی کی حکومت میں وزیر بھی رہی ہیں۔ احمد آباد سے تقریباً دس کلومیٹر دور نرودا پاٹیا ہے۔ وہاں 28 فروری 2002 کو 97 مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ مایا کوڈنانی پر فسادیوں کو اکسانے اور ان کی قیادت کا الزام تھا۔ نرودا پاٹیا کے قریب نرودا گام میں گیارہ مسلمان مارے گئے تھے۔ اس معاملے میں بھی انھیں ملزم بنایا گیا تھا۔ گواہوں نے بیان دیا تھا کہ کوڈنانی کو انھوں نے جائے واردات پر دیکھا تھا اور یہ بھی دیکھا تھا کہ انھوں نے بلوائیوں کو تلواریں دی تھیں اور ایک موقع پر تو انھوں نے پستول سے گولی بھی چلائی تھی۔ ایک بہت ایماندار جج جوتسنا بین یاگنک نے ان کو 2012 میں قصوروار قرار دیا تھا اور انھیں 28 سال جیل کی سزا سنائی تھی۔ لیکن مرکز میں اس حکومت کے آنے کے فوراً بعد جولائی2014 میں انھیں صحت کی خرابی کی بنیاد پر ضمانت دے دی گئی اور اس وقت سے اب تک وہ ضمانت پر ہیں۔

کوڈنانی کا دعویٰ تھا کہ فساد کے وقت وہ وہاں موجود نہیں تھیں۔ بلکہ وہ اس وقت اسمبلی میں تھیں اور سولہ سول اسپتال گئیں تھیں جہاں ان 60 ہندو یاتریوں کی لاشیں رکھی ہوئیں تھیں جنھیں بقول ان کے سابرمتی ایکسپریس میں آگ لگا کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ امت شاہ نے انھیں اسمبلی میں اور اسپتال میں بھی دیکھا تھا۔ عدالت کے ذریعے کئی بار طلب کیے جانے کے بعد امت شاہ حاضر ہوئے تھے اور انھوں نے وہی بیان دیا تھا جس کی ان سے امید تھی۔ یعنی انھوں نے کوڈنانی کو اسمبلی میں اور اسپتال میں دیکھا تھا۔ اب عدالت کا کہنا ہے کہ گواہوں کے بیانات میں تضاد ہے اس لیے وہ کوڈنانی کو شبہ کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرتی ہے۔ عدالت نے ایک ایسے شخص کے بیان پر بھروسہ کیا جس کا کردار خود مشکوک ہے۔ جو سہراب الدین فرضی انکاونٹر کیس میں کلیدی ملزم تھا، جو جیل جا چکا تھا اور جس کو بری کیا جانا بھی شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔

اس سے قبل سوامی اسیمانند سمیت تمام پانچ کلیدی ملزموں کو مکہ مسجد بم دھماکہ معاملے میں بری کیا جا چکا ہے۔ ان فیصلوں کے بعد بی جے پی نے کانگریس پر سازش رچنے کا الزام لگایا۔ یہ خوب ہے کہ ہر معاملے میں بی جے پی لیڈروں کو کانگریس کی سازش نظر آجاتی ہے۔ کانگریس کا خوف ان پر اس قدر حاوی ہے کہ وزیر اعظم سے لے کر معمولی کارکن تک سب کانگریس اور اس کے صدر کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ سنگھ پریوار سے وابستہ ملزمان کیوں چھوٹ رہے ہیں کیا واقعی وہ سب بے قصور ہیں۔ جی نہیں وہ بے قصور نہیں ہیں۔ بلکہ جانچ ایجنسیوں اور پولس نے جانبداری شروع کر دی ہے اور گواہ ڈر کے مارے یا تو گواہی دینے سے انکار کر رہے ہیں یا اگر دے رہے ہیں تو ایسے کہ ملزم چھوٹ جائیں۔ ان ملزموں کے بری ہونے سے بی جے پی کی جانب سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور بھگوا دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کرنے پر کانگریس سے معافی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

سچائی یہ ہے کہ بھگوا دہشت گردی کی اصطلاح بے بنیاد نہیں ہے بلکہ اس کی حقیقت ہے۔ اس دہشت گردی کو در اصل ممبئی کے انتہائی ایماندار پولس افسر ہیمنت کرکرے نے بے نقاب کیا تھا۔ لیکن جب ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تو اس دوران مشکوک انداز میں ان کو گولی لگی اور ان کی موت ہو گئی۔ بہت سے لوگوں اور اعلی پولس افسروں کو اس بات کا یقین ہے کہ کرکرے کو انھیں بھگوا دہشت گردوں نے ہلاک کیا ہے۔ لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ جان بوجھ کر بھگوا دہشت گردی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

بھگوا دہشت گردی کے بارے میں حقائق جاننے کے لیے بم دھماکوں کے ان واقعات پر نظر ڈالنی ہوگی۔ ستمبر 2006 میں مالیگاؤں میں کئی بم دھماکے ہوئے تھے جن میں کم از کم تیس افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ پانچ ماہ کے بعد 2007 میں سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکے ہوئے جن میں 60 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسی سال مئی میں چار سو سال پرانی مکہ مسجد میں دھماکہ ہوا اور پولس اور بھیڑ میں ٹکراؤ ہوا اور دونوں واقعات میں مجموعی طور پر 15 افراد مارے گئے۔ 11 اکتوبر 2007 کو اجمیر درگاہ کے نزدیک دھماکہ ہوا جس میں تین افراد ہلاک اور 17زخمی ہوئے تھے۔ تقریباً ایک سال بعد ستمبر 2008 میں دو بم دھماکے مالیگاؤں میں ایک دھماکہ گجرات کے موداسہ میں ہوا۔ ان میں کم از کم سات افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ان تمام معاملات کی جانچ میں یہ بات کھل کر سامنے آئی تھی کہ ان میں ہندو انتہاپسند گروپوں سے وابستہ افراد شامل رہے ہیں۔ این آئی اے کے مطابق ایسے حملوں کی پلاننگ 2001 میں کی گئی تھی۔ 2005 میں انتہاپسند گروپوں کے کئی افراد کی جے پور میں ملاقات ہوئی تھی اور پھر ان دھماکوں کی پلاننگ کی گئی تھی۔ تمام دھماکوں میں استعمال ہونے والے بموں میں کافی مماثلت پائی گئی۔ لیکن مرکز میں حکومت کی تبدیلی کے بعد این آئی اے نے جانچ میں ڈھلائی برتنی شروع کر دی اور ثبوت اکٹھا کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ تقریباً تمام معاملات میں یہی رویہ اپنایا گیا۔ صورت حال یہ ہے کہ 2006 کے مالیگاؤں دھماکہ میں ابھی تک عدالتی کارروائی شروع ہی نہیں ہوئی ہے۔ اجمیر معاملے میں جزوی سزائیں ہوئی ہیں۔ 2007 میں دھماکہ ہوا تھا۔ 2017 میں فیصلہ سنایا گیا۔ سوامی اسیمانند کو بری کر دیا گیا ہے۔ سنیل جوشی، دیویندر گپتا اور بھاویش پٹیل کو سزا ہوئی ہے۔ 2008 کے مالیگاؤں دھماکہ میں ابھی تک چارج شیٹ ہی داخل نہیں ہوئی ہے۔ کرنل پروہت، پرگیہ ٹھاکر اور دوسرے ملزم ضمانت پر ہیں۔ مکہ مسجد دھماکہ کے تمام ملزم بری ہو چکے ہیں۔ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ معاملے میں چارج شیٹ داخل نہیں ہوئی ہے اس معاملے میں اسیمانند کو ضمانت ملی ہوئی ہے۔ اس طرح ان تمام معاملوں میں جن میں بھگوا دہشت گرد شامل رہے ہیں این آئی اے کی سستی، کاہلی اور جانبداری کا آسانی کے ساتھ مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اب بتائیے یہ بھگوا دہشت گردوں کے اچھے دن نہیں ہیں تو کیا ہیں؟۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔