وقت بے وقت:اسکولی کتابوں میں تبدیلی پر بحث کرنے کی ضرورت

کانگریس حکومت کے دور میں ایسی کتابیں تیار ہوئیں جن میں کانگریس حکومتوں اور دور اقتدار میں رونما ہوئے واقعات پر تنقیدی طور پر لکھا گیا، چاہے وہ ایمرجنسی ہو یا پھر 1984 کے سکھ مخالف فساد۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اپوروانند

ہندوستان میں اسکولی تدریسی کتابیں چوری چوری تبدیل کی جا رہی ہیں، اس بات کی کسی کو خبر بھی نہ ہوتی اگر انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس کی صحافی رتیکا چوپڑا نے پہلے کی کتابوں اور بعد میں چھاپی گئیں کتابوں کا گہرائی سے موازنہ نہ کرتیں اور اخبار بھی اس کام کو اس لائق تصور نہ کرتا کہ اسے صفحہ اول کی خبر بنائی جائے ، وہ بھی مسلسل تین روز تک، ایک قومی اخبار اس خبر کو اتنی اہمت دے رہا ہےیہ ایک بڑی بات ہے۔ لیکن امید کم ہے کہ اس سے تدریسی کتابوں کو لے کر کوئی بڑی بحث شروع ہو پائے گی۔ پھر بھی اب وقت آ گیا ہے کہ اسکولی کتابوں کو لے کر نئے سرے سے مباحثہ شروع کیا جائے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ حال ہی میں راجستھان اسکول بورڈ سے وابستہ انگریزی میڈیم کے اسکولوں میں شامل ایک کتاب کو لے کر ایک چھوٹا سا طوفان کھڑا ہوا تھا۔ کتاب کو آگرہ کے کسی نجی پبلیشر نے شائع کی تھی ، اس میں بال گنگا دھر تلک کو ’ہندوستانی دہشت گردی کا بانی ‘ قرار دیا گیا تھا۔ اس کتاب کے سامنے آنے کے بعد تلک کے لواحقین تو خفا ہوئے ہی ، خود کو قوم پرستی کے علمبردار ماننے والے بھی برہم ہو گئے۔ غور سے نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ کتاب کو تیار کرنے کا معیار بے حد ابتدائی سطح کا تھا۔

وکی پیڈیا سے جملے چراکر کچھ الفاظوں کو ردوبدل کرکے کتاب کے ابواب تیار کر دیئے گئے۔ اسی وجہ سے ’فادر آف انڈین انریسٹ‘ کی جگہ ’فادر آف ٹیررزم ‘ لکھ دیا گیا! یہ ایک صحیح موقع ہو سکتا تھا کہ راجستھان کی تدریسی کتابوں پر سنجیدگی سے بحث کی جاتی ، لیکن ایسا نہ ہو ا۔ راجستھان حکومت سے یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ اسکولی کتابوں کو خود کیوں چھاپتی ہے؟ یا پھر سوال یوں بھی کیا جا سکتا ہےکہ کیا اسکولوں کو اتنی آزادی دی جا سکتی ہے کہ وہ کتابوں کو خود چھاپ سکیں ۔

لیکن تلک والا معاملہ ہی تمام اخبارات اور نیوز چینلوں کو مصالحہ دار معلوم ہوا۔ گزشتہ دنوں ملک کی عظیم شخصیات، تاریخ میں ان کے کردار اور کتابوں میں ان کو کم جگہ ملنے کے مدوں پر تو خوب بحث ہوئی لیکن یہ کسی نے نہیں سوچا کہ اسکولی کتابوں کی بحث اکثر تاریخ کے ارد گرد ہی کیوں گھومتی ہے۔

دراصل اسکولی کتاب کا لکھنا دوسری عام کتابوں کو لکھنے کی طرح نہیں ہے ، لیکن یہی سوال 2005 کی اسکولی قومی تدریسی بحث کے دوران اٹھایا گیا لیکن اس کے بعد بات آگے نہیں بڑھ سکی۔ تمام موضوعات کی کتابوں پر نظر ڈالیں تو طلباء اور اساتذہ کی شکایت یہ رہتی ہے کہ ان میں اطلاعات تو بھر دی جاتی ہیں لیکن سبجیکٹ پر بنیادی سمجھ نہیں بن پاتی۔ دوسرے اسکولی کتابوں کو علم کے حوالے سے ریاستی فرمان تصور کیا جاتا ہے اور ان پر بحث نہیں کی جا سکتی۔ تیسرے طلباء کو اتنا نازک اور نادان سمجھا جاتا ہے کہ ان سے کسی بھی واقعہ پر تنقیدی طریقہ سے بات نہیں کی جا سکتی۔

سال 1992-93 میں آئی یشپال کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کتابوں کو اطلاعات (انفارمیشن) کے بوجھ سے آزاد کرنا چاہئے اور طلباء میں سمجھ پیدا کی جانی چاہئے۔ کتابوں میں اطلاعات اس مقصد سے بھی بھری جاتی ہیں کیوں کہ ہمیں لگتا ہے کہ بچے اطلاعات کی کمی کے سبب دنیا سے پیچھے نہ رہ جائیں۔ لیکن موضوع کے تعلق سے ان میں سمجھ پیدا ہوئی یا نہیں اور جو کتاب میں لکھا ہے اس پر ان کی ذہن سازی ہوئی یا نہیں یہ ہماری تشویش کا موضوع کبھی نہیں رہتا۔

سال 2005 میں تدریسی کتابوں پر بحث دوبارہ سے زندہ ہوئی ۔ اس کے مطابق اسکولی تعلیم کا کام قوم پرست شہری تیار کرنا نہیں بلکہ ذہن کی تعمیر میں طلباء کی مدد کرنا ہے۔ اس لئے بجائے اس کے کہ انہیں کسی سرکاری علم کو ماننے کے لئے مجبور کیا جائے ، کرنا یہ چاہئے کہ ان کا تعارف مختلف قسم کے افکار اور جائزہ کے طریقہ کار سے کرایا جائے اور انہیں اس بات کے لئے راغب کیا جائے کہ وہ کتابوں کے تعلق سے اپنی رائے قائم کریں۔

اس لحاظ سے 2005 کی این سی ای آر ٹی کی تدریسی کتابیں اہم ہیں۔ عام طور پر یہ کہہ دیاجاتا ہے کہ ہر حکومت اپنے مطابق کتابیں لکھواتی ہے لیکن کانگریس پارٹی کی قیادت والی حکومت کے دور میں ایسی کتابیں تیار ہوئیں جن میں کانگریس کی حکومتوں اور ان کے دورانیہ کے بے شمار واقعات کو تنقیدی طریقہ سے پڑھایا گیا ، چاہے وہ ایمرجنسی کا واقعہ ہو یا 1984 کا سکھ مخالف فساد۔ ظاہرہے کہ ان کتابوں کو تیار کرنا آسان کام نہ تھا لیکن مقصد یہ تھا کہ اسکول کی کتابوں کے لئے علم کے ہر میدان میں کام کر رہے سب سے عمدہ دماغ لگنے چاہئیں۔ اس لئے اگر آپ ان کتابوں کے پہلے صفحہ کے پیچھے دیکھیں گے تو آپ کو بھانو مہتا، رام چندر گہا ، کُم کُم رائے، یوگیندر یادو اور ہری واسودیون جیسے نام نظر آئیں گے۔ یہ وہ نام ہیں جو اپنا ہر ایک لفظ ذمہ داری کے ساتھ لکھتے ہیں۔

اب ان کی کتابوں کو تبدیل کیا جا رہا ہے اور وہ بھی بغیر ان کی رائے لئے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ تبدیلیاں کتابوں پر ملے تبصروں اور مشوروں کو دھیان میں رکھ کر کی گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مشورہ کس کا لیا گیا؟ مثلاً 2002 کے گجرات تشدد کو مسلم مخالف کہنے کی جگہ صرف تشدد کہنے کا مشورہ کس نے دیا اور اسے قبول کیوں کر لیا گیا؟ کیا اس ترمیم کے ذریعہ کچھ چھپانے کا ارادہ نہیں ہے؟ اسی طرح نرمدا بچاؤ تحریک یا ٹہری ڈیم مخالف تحریک کو سماجی تحریک کہنے کے بجائے صرف ماحولیاتی تحریک کیوں کہا جا رہا ہے؟ کیا یہ محض لفظی تبدیلی ہے یا بچوں کو کسی خاص نظریہ کا پیروکار بنانے کا عمل؟

انڈین ایکسپریس کی صحافی کی محنت کو کامیاب بنانے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ ہم اسکولی کتابوں پر 2005 میں شروع ہوئی بند بحث کو نئے سرے سے چلانے کی پہل کریں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 Jun 2018, 1:53 PM