ایسی ذلت و رسوائی، اللہ کی پناہ! .. سہیل انجم

یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ نریندر مودی اور امت شاہ ایک قسم کے تکبر میں مبتلا ہیں۔ ان کو اقتدار کا غرور ہو گیا ہے۔ ان کو یہ لگتا ہے کہ وہ جہاں بھی جائیں گے کامیابی ان کے قدم چومے گی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سہیل انجم

جب کوئی فرمانرواں حکومت و اقتدار کے نشے میں چور کبر و غرور کے ایورسٹ پر جلوہ افروز ہو جاتا ہے تو قدرت ایسے ہی انتقام لیتی ہے۔ وہ گھمنڈ اور تکبر کو کچھ دیر تک تو برداشت کرتی ہے لیکن پھر اس کو ایسے حشر سے دوچار کر دیتی ہے کہ دیکھنے والے عبرت پکڑیں۔

اس ملک میں ایک ایسی سیاسی جماعت برسراقتدار ہے جو کسی بھی قیمت پر تمام ریاستوں میں بلا شرکت غیرے اپنی حکومت چاہتی ہے۔ اس سیاسی جماعت کے نظریاتی گرو کی بھی یہی خواہش ہے کہ ملک کے طول و عرض پر اس کی حکمرانی قائم ہو جائے اور اس ملک کو، جس کا خمیر سیکولرزم کے شیرے سے گوندھا گیا ہے ایک خاص مذہب کے ماننے والوں کا ملک بنا دیا جائے۔ اس کے لیے اس نے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنا آلۂ کار بنایا گیا ہے اور مودی بھی یہ ریکارڈ اپنے نام لکھوانے کے لیے بے چین ہیں کہ ان کی وزارت عظمیٰ میں پورے ملک پر بی جے پی کی حکومت قائم تھی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اصولوں کا گلا گھونٹا جاتا ہے اور بے اصولی پن کی مدد سے ریاستوں میں اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گوا، منی پور، بہار اور میگھالیہ میں یہی سب کیا گیا۔ اب کرناٹک میں بھی یہی سب کچھ کرنے کی سازش رچی گئی تھی۔ لیکن ایک تو عوام نے اس سازش کو پوری طرح کامیاب نہیں ہونے دیا اور دوسرے ملک کی عدالت عظمیٰ یعنی سپریم کورٹ نے اس سازش کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر سپریم کورٹ نے انصاف کی بالادستی قائم کرنے میں ذرا بھی کوتاہی کی ہوتی تو ایک اور ریاست دھاندھلی اور بے ایمانی کے زور پر اپنے نام لکھوا لی گئی ہوتی۔ کرناٹک کے گورنر نے تو اس کا پورا انتظام کر دیا تھا۔ پہلے تو انھوں نے جمہوریت کی اصل روح یعنی گنتی یا اکثریت کو نظرانداز کیا اور کانگریس جنتا دل ایس کے محاذ کو حکومت سازی کی دعوت دینے کے بجائے سب سے بڑی پارٹی بی جے پی کو مدعو کیا اور یدورپا کو وزیر اعلی کا حلف بھی دلوا دیا۔ یدورپا نے اکثریت ثابت کرنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت مانگا تھا لیکن گورنر نے بڑی فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو پندرہ دنوں کا وقت دے دیا۔ اگر کانگریس جنتا دل ایس اتحاد نے تیزی نہیں دکھائی ہوتی اور سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا کر اسے نصف شب میں سماعت کے لیے مجبور نہ کیا ہوتا تو اگلے روز بھی سماعت نہیں ہوتی اور یدورپا کو پورا موقع مل جاتا کہ وہ ممبران اسمبلی کو دھن بل کے زور پر اپنے خیمے میں لا سکیں۔ لیکن سپریم کورٹ نے اس بات کو محسوس کرتے ہوئے کہ گورنر نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے اور اگر اس کھیل کو نہیں روکا گیا تو کرناٹک میں جمہوریت کا قتل ہو جائے گا، یدورپا کو ایک دن کی مہلت دے کر خرید و فروخت کے سارے دروازے بند کر دیے۔

حالانکہ اس کے باوجود پیسے کا کھیل کھیلنے کی کوشش کی گئی۔ کانگریس کے دو ممبران کو اغوا کر لیا گیا اور ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں رکھا گیا۔ کانگریس نے جب اس پر ہنگامہ کیا تو پالیس کے اعلی افسران نے ہوٹل جا کر ان دونوں ممبران کو وہاں سے نکالا۔ اس کے علاوہ کانگریس پارٹی کے لنگایت ممبران کو یہ کہہ کر توڑنے کی کوشش کی گئی کہ یدورپا لنگایت ہیں اس لیے آپ لوگ ووکالنگا یعنی کمارا سوامی کی حمایت نہ کرکے یدورپا کی حمایت کریں۔ اس کے علاوہ جے ڈی ایس کے ایک ایسے ممبر کو بھی اپنے خیمے میں لانے کی کوشش کی گئی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کانگریس جنتا دل ایس کے اتحاد سے خوش نہیں تھا۔ مزید براں ممبران کو توڑنے کے لیے ایک ایک ممبر کو سو سو کروڑ روپے اور وزارت کی پیشکش کی گئی۔ گویا بی جے پی نے یہ ٹھان لیا تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے کرناٹک میں اپنی حکومت قائم کرنی ہے۔

کانگریس صدر راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ نے ممبران کی خرید فروخت کی براہ راست ہدایت دی تھی۔ یعنی وہ بھی چاہتے تھے کہ جس طریقے سے بھی ہو ریاست میں بی جے پی کی حکومت بننی چاہیے۔ تاکہ مودی بڑی شان کے ساتھ یہ کہہ سکیں کہ ہمارا کانگریس مکت بھارت کا قافلہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور ہم جلد ہی پورے ملک کو کانگریس کے وجود سے پاک کر دیں گے۔ لیکن شاید وہ یہ بھول گئے کہ کچھ بھی ہو ہمارے ملک کی عدلیہ اب بھی آزاد ہے۔ وہ اب بھی حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود اس سے مرعوب ہونے والی نہیں ہے۔ یہاں کی عدلیہ ان آئینی اداروں کی مانند نہیں ہے جو حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے کون کہے سجدہ کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں۔

کانگریس اور جے ڈی ایس نے کرناٹک میں جو حکمت عملی بنائی اور جس طرح اس پر نہ صرف قائم رہی بلکہ اس حکمت عملی کو اور بھی مستحکم بنانے میں جٹی رہی وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں متحد ہو جائیں تو وہ 2019 کے انتخابات میں نریندر مودی کے قافلے کو آسانی کے ساتھ روک سکتی ہیں۔ یہاں ہم کانگریس صدر راہل گاندھی کو بھی مبارکباد دینا چاہیں گے کہ انھوں نے نہ صرف یہ کہ کرناٹک میں بے تحاشہ محنت کی بلکہ ایسی حکمت عملی تیار کی جس کو بی جے پی ناکام بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ پارٹی صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد راہل گاندھی کی یہ پہلی کامیابی ہے اور اسی لیے اس کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ کامیابی اس لیے بھی بڑی اہم ہے کہ اس کے ذریعے اس بے اصولی سیاست کے رتھ کو روک دیا گیا جس کی بدولت دوسری ریاستوں میں بی جے پی نے اپنی حکومت بنائی تھی۔ اسے بی جے پی کی بددیانتی نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے کہ میگھالیہ میں بی جے پی کو محض دو سیٹیں ملی تھیں اور کانگریس سب سے بڑی پارٹی تھی مگر اس نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر کانگریس کو اقتدار میں نہیں آنے دیا۔ گوا اور منی پور میں بھی کانگریس سب سے بڑی پارٹی تھی لیکن ان ریاستوں میں بھی سازش کرکے اسے اقتدار سے دور رکھا گیا۔ اسی طرح بہار میں آر جے ڈی سب سے بڑی پارٹی ہے لیکن وہاں بھی بی جے پی او رجنتال دل یو نے حکومت پر قبضہ کر لیا ہے۔ لیکن جب کرناٹک میں کانگریس اور جنتا دل ایس نے ایک محاذ بنا لیا تو وہی بی جے پی کہنے لگی کہ سب سے بڑی پارٹی ہونے کے ناطے حکومت سازی کا حق اس کا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کبھی کبھی وہی چال جو اپنے حریفوں کو شکست دینے کے لیے چلی جاتی ہے، خود چال چلنے والے پر الٹ جاتی ہے اور بھاری پڑ جاتی ہے۔ بی جے پی نے چار ریاستوں میں جو چال چلی تھی وہی چال کرناٹک میں آکر خود اس کے اوپر الٹ گئی اور اس کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ جب نریندر مودی، امت شاہ اور دوسرے مرکزی لیڈروں نے دیکھا کہ کرناٹک میں ہماری سازشیں ناکام ہو رہی ہیں اور ممبران کو توڑنے کی تمام کوششیں دھراشائی ہو رہی ہیں تو یدورپا سے کہہ دیا گیا کہ ووٹنگ سے قبل ہی استعفیٰ دے دیں۔ کیونکہ ووٹنگ ہوئی تو مزید بے عزتی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ نریندر مودی اور امت شاہ ایک قسم کے تکبر میں مبتلا ہیں۔ ان کو اقتدار کا غرور ہو گیا ہے۔ ان کو یہ لگتا ہے کہ وہ جہاں بھی جائیں گے کامیابی ان کے قدم چومے گی۔ لیکن ان کو نہیں معلوم تھا کہ قدرت ان لوگوں سے بھی بڑی حکمت ساز ہے۔ وہ ایسی حکمت عملی اختیار کرتی ہے کہ کسی کو شک بھی نہیں ہوتا اور پھر اچانک ایسا کھیل سامنے آجاتا ہے کہ بڑے سے بڑا کھلاڑی بھی آن واحد میں چت ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ کرناٹک میں ہوا۔ مودی شاہ کی جوڑی کو جس ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا اس کا تصور تک بھی ان لوگوں کو نہیں تھا۔ کہتے ہیں کہ کاٹھ کی ہانڈی ہمیشہ نہیں چڑھتی۔ گوا، منی پور، میگھالیہ اور بہار میں تو یہ ہانڈی چڑھا لی گئی لیکن کرناٹک میں آگ اتنی شدید تھی کہ پوری کی پوری ہانڈی جل گئی۔ بی جے پی کو ایسی ذلت آمیز شکست ہوئی کہ بس اللہ کی پناہ!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */