تو پھر عدالتوں کی کیا ضرورت یوگی جی!

صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ حقوق انسانی کے قومی کمیشن نے اتنی زیادہ تعداد میں تصادم کا از خود نوٹس لیتے ہوئے ریاستی پولس کے سربراہ کو حالات پر نظر رکھنے کی ہدایت دی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

عبیداللہ ناصر

اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں بنی بی جے پی کی حکومت کا ابھی ایک سال بھی نہیں پورا ہوا ہے کہ پولس اور نام نہاد بدمعاشوں کے درمیان مڈ بھیڑ کا شاید عالمی ریکارڈ قائم ہو گیا ہے۔ اب تک ان مڈ بھیڑوں میں بقول وزیر اعلیٰ بارہ سو واقعات سامنے آ چکے ہیں جس میں تقریبا ًچالیس بدمعاش موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں۔ صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ حقوق انسانی کے قومی کمیشن نے اتنی زیادہ تعداد میں مڈ بھیڑوں کا از خود نوٹس لیتے ہوئے ریاستی پولس کے سربراہ کو حالات پر نظر رکھنے کی ہدایت دی ہے۔ در اصل وزیر اعلیٰ نے دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجرم یا تو جیل جائیں گے یا انھیں مڈ بھیڑوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا جاےگا ۔

آئین ہند کی پاسداری کا حلف لینے والے وزیر اعلیٰ کے منہ سے نکلے ان الفاظ نے پہلے سے ہی بے لگام پولس فورس کو مزید بے لگام کر دیا اور اس نے اپنے نمبر بڑھوانے کے چکّر میں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارنا شروع کر دیا جس کا سب سے شرمناک واقعہ نویڈا میں سامنے آیا جہاں ایک زیر تربیت پولس انسپکٹر نے ایک جم ٹرینر کو فرضی مڈبھیڑ میں اپنے حساب سے تو مار ہی گرایا تھا مگر وہ کسی طرح بچ گیا ۔اس واقعہ کے منظر عام پر آنے کے بعد اس طرح کی مڈ بھیڑوں پر سوال اٹھنے لگے اور معاملہ قانون ساز کونسل میں بھی اٹھایا گیا جہاں چیر مین نے اس معاملہ سمیت ایک اور معاملہ کی سی بی آئی جانچ کا حکم دے دیا ۔لیکن دوسرے ہی دن بی جے پی کے ممبران نے چیر مین کے فیصلے کے خلاف ایوان میں محاذ کھول دیا ۔جس کے بعد انہوں نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اس موقعہ پر اپنی تقریر میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس ایوان کی طرف سے ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہونا چاہئے جس سے اس ریاست کی ایوان بالا مذاق کا موضوع بن جائے اور قانونی طور سے یہ بات کسی حد تک سہی بھی ہے کیونکہ سی بی ائی ریاستی حکومت کے ما تحت نہیں ہے اس لئے اس پر ریاستی ایوان قانوں ساز کوئی حکم نہیں چلا سکتی ۔ لیکن اس بحث میں حصّہ لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے جو لب و لہجہ اختیار کیا وہ کسی بھی طرح سے آئیں کے مطابق نہیں کہا جا سکتا ۔ وزیر اعلیٰ نے صاف طور پر کہا کی انکاؤنٹر کا سلسلہ ابھی نہیں رکےگا ، حکومت مجرموں کو کچلنے کی ہر ممکن کوشش کرےگی انہوں نے دعویٰ کیا کہ میری حکومت بننے کے بعد سے تقریباً 1200 انکاؤنٹر ہو چکے ہیں جس میں چالیس سے زیادہ جرائم پیشہ افراد موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں ، یہاں یہ آئینی اور قانونی سوال اٹھنا لازمی ہے کہ اگر حکومت اور پولس خود ہی جرائم پیشہ افراد کو سزا دیتے ہوئے موت کے گھاٹ اتارنے لگی ، تو پھر اس ملک میں عدالتی نظام کی کیا ضرورت ہے یعنی عدالتوں میں تالا لگا دیا جانا چاہیے ۔ پولس اور حکومت کا کام مجرموں کو پکڑ کرقانون کے حوالے کرنا ہے ناکہ انھیں بنا مقدمہ چلائے سزا دینا ، وہ بھی سزاۓ موت۔

یہ شاید اس ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ وزیر اعلیٰ ان مڈ بھیڑوں کی کھلے عام نہ صرف حمایت کر رہے ہیں بلکہ پولس کی پیٹھ بھی تھپتھپا رہے ہیں ، مڈبھیڑ زیادہ تر فرضی ہی ہوتے ہیں ۔کیا وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ جن بارہ سو مڈبھیڑوں اور چالس بدمعاشوں کی ہلاکت کی بات کرتے ہیں ان میں کسی میں بھی کسی پولس والے کےہلاکت یا زخمی ہونے کی کوئی خبر آج تک منظر عام پر نہیں آئی ہے ، ڈال پر بیٹھے بے خبر پرندوں کی طرح سارے مجرم پولس کی گولی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ بھی مڈ بھیڑوں کی جانچ کرانے کی بات کہہ چکا ہے۔ویسے تو مڈبھیڑوں کے سلسلہ میں کسی بھی حکومت کا ریکارڈ شفاف نہیں ہو تا ہے لیکن بی جے پی کی سرکاریں اس معاملہ میں سب سے آگے رہی ہیں ۔بی جے پی کی پہلی حکومت کلیاں سنگھ کی قیادت میں بنی ، جس میں جرائم پیشہ افراد کو’’نپٹانے‘‘ کی پالیسی اختیار کی اور اس کے لئے باقائدہ اسپیشل ٹاسک فورس بھی تشکیل کی گی تھی ۔اس کے بعد موجودہ مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی قیادت میں حکومت بنی جس نے کلیاں سنگھ کی پالیسی کو اور سختی و بے رحمی سے لاگو کیا گیا ۔وزیر اعلیٰ نے خود ایک کے بدلے دس کا نعرہ دیا جس کی سب سے ظالمانہ شکل مرزاپور ضلع کے بھوانی پور میں ٹھیک ہولی کے دن سامنے آئی ، جب پولس والوں نے دلت اور آدی واسی طبقہ کے سولہ لوگوں کو نکسل ہونے کے شبہ میں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا جس میں آٹھ سال کا ایک بچہ بھی شامل تھا۔

در اصل یہ مڈ بھیڑیں پولس کے سیاسی استعمال کا ایک گھناؤناروپ ہے جو ہر پارٹی اقتدار پانے کے بعد کرتی رہی ہے اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان مد بھیڑوں کا شکار سماج کا کمزور اور محروم طبقہ ہی رہا ہے جسے دلت آدیواسی بھی کہہ سکتے ہیں ، پسماندہ طبقہ بھی کہہ سکتے ہیں اور مسلمان بھی کہہ سکتے ہیں اکا دکّا اگر اونچی ذات کا کوئی بدمعاش مارا گیا تو وہ عوام اور عدلیہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ہی ہوا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امن عامہ برقرار رکھنے کے نام پر ایسی غیر قانونی اور غیر آئینی حرکتوں کو سماج کے اعلیٰ طبقہ اور میڈیا کی خاموش اور در پردہ حمایت حاصل رہی ہے یہ پہلے بھی ہو رہا تھا اور اس بار تو زیادہ بے شرمی اور بے حیائی سے ہو رہا ہے اتنی زیادہ مڈبھریں اور اتنی زیادہ ہلاکتین لیکن سماج اور میڈیا میں کوئی ہلچل نہیں ، مڈ بھیڑ سے متعلق خبروں کا مکمل بلیک آ وٹ ، پتہ بھی نہیں چلتا کہ کہاں کون سی مڈ بھیڑ ہوئی اور کون نام نہاد بدمعاش مارگرایا گیا۔

قومی حقوق انسانی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 2002سے 2013 کے درمیان ملک میں پولس مڈ بھیڑ کی 1788 وارداتوں میں اکیلے اتر پردیش میں743 واقعات ہوئے ہیں۔ ان میں سے سماج وادی پارٹی کی حکومت میں 431 اور بی ایس پی کی حکومت میں 261 مڈ بھیڑ ہوئیں ، جبکہ اکیلے یوگی جی نے سال بھر سے بھی کم وقفہ میں تقریباً 1200 مڈ بھیڑوں اور چالیس ہلاکتوں کا خود اعتراف کیا ہے۔

آگے آگے دیکھے ہوتا ہے کیا ۔رہائی منچ کے فعال کارکن شاہنواز عالم کے مطابق ان مڈ بھیڑوں کی جڑیں پولس نظام کے بجائے سیاسی نظام میں تلاش کی جانی چاہییں کیونکہ پولس اپنے سیاسی آقاؤں کے اشاروں پر چلنے کو مجبور ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک نظریاتی اور سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا نظریاتی اور سیاسی حل ہی تلاش کیا جانا چاہئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */