راہل گاندھی کی ان کہی کہانی

راہل گاندھی نے یہ محسوس کیا کہ کانگریس ایک گہرے بحران میں مبتلا ہے اور اس بحران سے اسے نکالنے اور اس کی صحت کو ٹھیک کرنے کے لیے طویل مدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے

<div class="paragraphs"><p>راہل گاندھی / ایکس</p></div>

راہل گاندھی / ایکس

user

سہیل انجم

گزشتہ دنوں سینئر صحافی نیرجا چودھری کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے ”ہاؤ پرائم منسٹرس ڈیسائڈ“۔ یعنی وزرائے اعظم کیسے فیصلہ کرتے ہیں۔ نیرجا چودھری ایک غیر جانبدار صحافی، تجزیہ کار اور مبصر ہیں۔ وہ گزشتہ پچاس برسوں سے صحافت سے وابستہ ہیں اور انھیں متعدد حکومتی و سیاسی فیصلوں کو بذات خود دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں چھ وزرائے اعظم کے کام کے طریقوں اور فیصلوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور مذکورہ کتاب میں بیان کر دیا۔ یہ چھ وزرائے اعظم ہیں: اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، وی پی سنگھ، نرسمہا راؤ، اٹل بہاری واجپئی اور ڈاکٹر من موہن سنگھ۔

انھوں نے چھ اہم تاریخی فیصلوں کی روشنی میں ان وزرائے اعظم کے کاموں کا جائزہ لیا ہے۔ یہ فیصلے ہیں: 1977 میں شرمناک شکست کے بعد اندرا گاندھی کے ذریعے 1979 میں جنتا پارٹی کو توڑنے اور دوبارہ اقتدار میں واپسی کے لیے اختیار کردہ حکمت عملی۔ راجیو گاندھی کے ذریعے شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو پلٹنا۔ اپنی حکومت بچانے کی خاطر وی پی سنگھ کی جانب سے منڈل کمیشن کا نفاذ۔ نرسمہا راؤ کا وہ فیصلہ جس کے نتیجے میں بابری مسجد کا انہدام ہوا۔ تیزی سے تغیر پذیر سیاسی صورت حال میں اٹل بہاری واجپئی کا نیوکلیئر دھماکے کا فیصلہ اور ڈاکٹر من موہن سنگھ کا امریکہ کے ساتھ تاریخی نیوکلیائی معاہدہ۔


نیرجا چودھری نے اپنی کتاب میں سونیا گاندھی کی جانب سے وزیر اعظم کے منصب کو اختیار نہ کرنے کے فیصلے کے بارے میں بھی لکھا ہے اور جو کچھ لکھا ہے اسے بہت کم لوگ جانتے ہیں بلکہ شاید کوئی نہیں جانتا۔ انھوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا، کس کے کہنے پر کیا اور اس سے راہل گاندھی کا کیا تعلق ہے اس پر بڑے جذباتی انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ سینئر صحافی آشوتوش نے اپنے ایک مضمون میں اس کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ راہل گاندھی پختہ عزم و ارادے کے مالک ہیں اور وہ جو فیصلہ کر لیتے ہیں اس کو کوئی بھی نہیں بدلوا سکتا۔

نیرجا چودھری ڈاکٹر من موہن سنگھ کو وزیر اعظم بنائے جانے کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ سونیا گاندھی سوفے پر بیٹھی تھیں۔ پرینکا گاندھی اور من موہن سنگھ بھی تھے۔ اتنے میں سمن دوبے وہاں پہنچتے ہیں۔ سونیا گاندھی پریشان لگ رہی تھیں۔ دریں اثنا راہل گاندھی داخل ہوتے ہیں اور ہم سب کے سامنے اپنی ماں سے کہتے ہیں کہ میں آپ کو وزیر اعظم نہیں بننے دوں گا۔ میرے والد کو قتل کیا گیا، میری دادی کو قتل کیا گیا، چھ ماہ میں آپ بھی ہلاک کر دی جائیں گی۔ وہ لکھتی ہیں کہ راہل گاندھی نے دھمکی دی کہ اگر وہ ان کی بات نہیں مانیں گی تو وہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔


نیرجا سابق مرکزی وزیر اور نہرو گاندھی خاندان کے معتمد نٹور سنگھ کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ یہ کوئی معمولی دھمکی نہیں تھی۔ راہل ایک مضبوط قویٰ کے انسان ہیں۔ انھوں نے اپنی ماں کو فیصلہ کرنے کے لیے چوبیس گھنٹے کا وقت دیا۔ جیسا کہ دنیا جانتی ہے کہ پھر سونیا گاندھی وزیر اعظم نہیں بنیں۔ انھوں نے ڈاکٹر من موہن سنگھ کو وزیر اعظم بنا دیا۔ وہ کانگریس میں تھے لیکن کوئی بڑا سیاسی قد نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت راہل گاندھی کی عمر انیس سال تھی۔ اور اگر اس وقت انھوں نے اصرار کیا ہوتا کہ ان کی والدہ ہی وزیر اعظم بنیں گی تو اس میں ان کی کوئی غلطی نہیں ہوتی۔ کسی عظیم شخص کے لیے بھی وزیر اعظم کا منصب ٹھکرانا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن راہل گاندھی نے سونیا گاندھی کو پی ایم نہیں بننے دیا۔

آشوتوش لکھتے ہیں کہ چند کو چھوڑ کر باقی تمام صحافیوں نے راہل گاندھی کی اس خوبی کو نظرانداز کیا۔ انھوں نے انھیں ایک کمزور اور جھجکنے والا یا متزلزل سیاست داں قرار دیا۔ لیکن ابتدائی جھجک کے بعد ان کے اس نظریے میں وضاحت اور شفافیت آگئی ہے کہ وہ کانگریس کو کس سمت میں لے جانا چاہتے ہیں اور مودی کی زیرقیادت بی جے پی سے اسے کس طرح مقابلہ کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب راہل گاندھی کے خلاف ہتک عزت کا معاملہ سامنے آیا اور نہ صرف یہ کہ ان کی لوک سبھا کی رکنیت چلی گئی بلکہ ان سے ان کا بنگلہ بھی چھین لیا گیا، اگر وہ چاہتے تو معافی مانگ کر اس بے عزتی سے بچ جاتے جو ان کے حصے میں آنے والی تھی۔ لیکن وہ اپنے موقف پر قائم رہے اور اس کا نتیجہ جس شکل میں بھی نکلے اس کے لیے تیار ہو گئے۔


ان کے خیال میں راہل گاندھی کی شخصیت کو پہچاننے کے بارے میں ایماندارانہ فیصلہ نہیں کیا گیا۔ اس میں کچھ ان کی خامی تھی تو بہت کچھ ان کے خلاف کیے جانے والے پروپیگنڈے کا ہاتھ تھا۔ اس دوران ایک ایسا سیاسی ماحول بنا دیا گیا کہ جس میں اپوزیشن پارٹیوں اور ان کے رہنماؤں کے بارے میں حقیقت پسندانہ جائزہ گناہ سمجھا جانے لگا اور مودی پر تنقید اہانت مان لی گئی۔ راہل گاندھی نے یہ محسوس کیا کہ کانگریس ایک گہرے بحران میں مبتلا ہے اور اس بحران سے اسے نکالنے اور اس کی صحت کو ٹھیک کرنے کے لیے طویل مدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ انھوں نے یہ محسوس کیا کہ پارٹی کو سڑک پر اتارنے اور اس میں نیا جوش بھرنے کے لیے ضروری ہے کہ نہرو گاندھی فیملی پچھلی نشست پر بیٹھے اور ڈرائیونگ سیٹ پر کسی اور کو بٹھایا جائے۔ البتہ یہ فیملی پس پشت رہ کر حوصلہ اور جوش بھرتی رہے۔

راہل گاندھی کو سمجھنے کے لیے سیاسی تناطر کو سمجھنا ضروری ہے۔ بد عنوانی کے خلاف انا ہزارے کی کامیاب تحریک کے بعد راہل گاندھی کے لیے بہت آسان تھا کہ وہ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی جگہ پر وزیر اعظم بن جاتے اور اس وقت یہ افواہ تھی کہ راہل گاندھی من موہن سنگھ کو ہٹا کر حکومت اور کانگریس کو بچا سکتے ہیں۔ اگر ان کے اندر اپنے چچا سنجے گاندھی کے عزائم کا ذرا بھی انش ہوتا تو وہ یہ کام کر ڈالتے۔ ایمرجنسی کے دوران سنجے گاندھی کی عمر بیس سال کے آس پاس تھی۔ اس وقت وہ اندرا گاندھی کے بعد دوسرے طاقتور سیاست داں تھے۔ ادھر یو پی اے کی دس سالہ حکومت میں راہل گاندھی ممبر آف پارلیمنٹ تھے۔ لیکن انھوں نے کبھی اس کا اظہار نہیں کیا کہ وہ اقتدار پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔


2019 کے پارلیمانی انتخابات میں جب کانگریس کی شکست ہوئی تو وہ پارٹی صدر تھے۔ انھوں نے اس شکست کی ذمہ داری لیتے ہوئے صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ ان پر بہت دباؤ پڑا مگر انھوں نے استعفیٰ واپس نہیں لیا۔ انھوں نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ ان کے خاندان سے بھی کوئی وزیر اعظم نہ بنے۔ اگر وہ اقتدار کے بھوکے ہوتے تو صدارت سے استعفیٰ نہیں دیتے۔ تقریباً ہر پارٹی کسی ایک خاندان کے ارد گرد گھومتی ہے اور کوئی بھی نیتا الیکشن ہارنے کے بعد پارٹی کی باگ ڈور دوسرے ہاتھ میں نہیں سونپتا۔ آج اگر ملکارجن کھڑگے کی قیادت میں کانگریس بہتر پوزیشن میں نظر آرہی ہے تو اس کا سہرا راہل گاندھی کے سر جاتا ہے۔ انھوں نے متعدد صحافیوں اور سیاست دانوں کی قیاس آرائیوں کو جھوٹا ثابت کرتے ہوئے تقریباً چار ہزار کلو میٹر تک پیدل یاترا کی۔ بھارت جوڑو یاترا نے ہی پارٹی کے اندر نیا جوش پیدا کیا ہے۔

آج ایسی افواہ ہے کہ راہل گاندھی اپوزیشن کے اتحاد ”انڈیا“ کی قیادت کرنے کے سنجیدہ دعوے دار ہیں۔ اس افواہ کا مقصد اپوزیشن جماعتوں میں اختلافات پیدا کرانا ہے۔ کھڑگے نے واضح طور پر کہا ہے کہ کانگریس کو وزیر اعظم کے عہدے میں دلچسپی نہیں ہے۔ ان کے بقول ہم صرف بی جے پی کو ہرانا چاہتے ہیں۔ راہل گاندھی بھی یہ بات کہہ چکے ہیں۔ پارلیمانی انتخاب کا وقت قریب آتا جا رہا ہے۔ الیکشن میں عوام کا کیا فیصلہ ہوگا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اب کوئی بھی راہل کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ لہٰذا آنے والے دنوں میں بی جے پی کی جانب سے راہل پر حملہ تیز کر دیا جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔