ہندوستانی سیاست کی کہانی محسنہ قدوائی کی زبانی... سہیل انجم

ہندوستانی سیاست میں ایک اہم نام محسنہ قدوائی کا ہے۔ بحیثیت مسلم خاتون سیاست داں بھی اور بحیثیت عام سیاست داں بھی۔ ان کی بھی خودنوشت شائع ہوئی ہے جس کا نام ہے ”ہندوستانی سیاست اور میری زندگی“۔

<div class="paragraphs"><p>ہندوستانی سیاست کی کہانی، محسنہ قدوائی / Getty Images</p></div>

ہندوستانی سیاست کی کہانی، محسنہ قدوائی / Getty Images

user

سہیل انجم

دنیا کی بیشتر زبانوں میں خود نوشتیں تحریر کرنے کی روایت چلی آرہی ہے۔ عام طور پر بڑی شخصیات خود نوشت یا آپ بیتی تحریر کرتی ہیں جن سے قارئین کو بہت سی نئی باتوں کا علم ہوتا ہے اور خود نوشت نگار کی شخصیت کی ایسی بہت سی پرتیں بھی کھل کر سامنے آتی ہیں جو ابھی تک پردۂ خفا میں تھیں۔ یہ کتابیں جہاں مصنف کی زندگی کی کہی ان کہی باتیں دنیا کے سامنے واشگاف کر دیتی ہیں وہیں ان سے اس عہد کی تاریخ پر بھی نمایاں روشنی پڑتی ہے۔ بڑے حکمرانوں اور سیاست دانوں کی آپ بیتیوں میں سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے خاصے کی چیزیں ہوتی ہیں۔

ہندوستانی سیاست میں بھی ایسی بہت سی شخصیات گزری ہیں جنھوں نے خود نوشتیں لکھیں اور اپنے عہد سے آنے والی نسلوں کو روشناس کرانے کا فریضہ انجام دیا۔ سیاست داں عام طور پر اپنی بے حد مصروفیت کی وجہ سے خود نہیں لکھتے بلکہ یا تو بول کر لکھواتے ہیں یا کوئی دوسرا ان کی سوانح لکھتا ہے۔ ہندوستانی سیاست دانوں کی بھی ایسی بہت سی آپ بیتیاں شائع ہوئی ہیں جن کے روای دوسرے ہیں۔ شعرا و ادبا بھی آپ بیتی لکھتے ہیں اور انھیں بھی بڑی دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے۔ اردو میں بھی خود نوشت یا آپ بیتی لکھنے کی ایک توانا روایت موجود ہے۔ ماہنامہ نقوش کا آپ بیتی نمبر بہت معرکے کا تھا اور علمی و ادبی دنیا میں اس کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔


ہندوستانی سیاست میں ایک اہم نام محسنہ قدوائی کا ہے۔ بحیثیت مسلم خاتون سیاست داں بھی اور بحیثیت عام سیاست داں بھی۔ ان کی بھی خودنوشت شائع ہوئی ہے جس کا نام ہے ”ہندوستانی سیاست اور میری زندگی“۔ وہ پہلے انگریزی میں آئی تھی اور پھر اس کا اردو ترجمہ شائع ہوا۔ دوسری زبانوں میں بھی اس کا ترجمہ ہو رہا ہے۔ یہ خودنوشت ان کی اپنی تحریر کردہ نہیں ہے بلکہ اس کے راوی انہی کے خانوادے کے ایک انتہائی معزز فرد، سینئر صحافی، متعدد تاریخی کتب کے مصنف اور علم دوست رشید قدوائی ہیں۔ جبکہ اس کا انگریزی سے اردو ترجمہ قدوائی خانوادے کے ایک اور ذی علم فرد، صحافی، قلم کار اور شعبۂ ماس میڈیا علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے صدر پروفیسر شافع قدوائی کی زیر نگرانی ہوا ہے۔

میں نے بہت زیادہ تو نہیں لیکن جتنی بھی خودنوشتیں پڑھی ہیں ان میں مذکورہ خود نوشت اپنی خوبیوں کے اعتبار سے دوسروں سے ممتاز نظر آئی۔ یوں تو یہ کتاب بھی اپنے عہد کا ایک آئینہ ہے مگر یہ آئینہ بہت شفاف اور بے داغ ہے۔ چونکہ محسنہ قدوائی کانگریس پارٹی سے وابستہ رہی ہیں اس لیے اس کتاب میں ان کے اپنے سیاسی سفر پر تو گفتگو ہے ہی کانگریس پارٹی اور متعدد کانگریسی رہنماؤں پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔ وہ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قریب رہی ہیں۔ لہٰذا کتاب ان دونوں شخصیات کے مابین قریبی تعلقات اور پھر راجیو گاندھی اور سونیا گاندھی سے ان کے رشتوں پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ یہ کتاب اس لحاظ سے بھی الگ ہے کہ بچپن کی یادوں، حصول تعلیم اور ایسی بہت سی غیر ضروری باتوں سے مبرا ہے۔ کتاب میں سات ابواب قائم کیے گئے ہیں: کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے، ماضی مستقبل کا پیش خیمہ، یہ سب کیسے شروع ہوا، بیٹیاں اور دیگر یادیں، ہندوستانی سیاست کا سفر، میرے سفر کے اہم سنگ میل اور یادیں اور تاثرات۔


محسنہ قدوائی کے ساتھ کئی غیر متوقع واقعات پیش آئے۔ پہلا واقعہ تو سیاست میں ان کا داخلہ ہی تھا۔ 1954 میں ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو سے ان کی پہلی ملاقات ان کے خسر جمیل الرحمن قدوائی کے توسط سے ہوئی۔ پنڈت نہرو نے ان سے کہا کہ محسنہ کو سیاست میں کیوں نہیں لاتے۔ لہٰذا 1960 میں جبکہ ان کی شادی کو بمشکل سات سال ہوئے تھے اور وہ چار اور دو سال کی دو چھوٹی چھوٹی بچیوں کی ماں تھیں کہ انھیں 28 سال کی عمر میں اترپردیش قانون ساز کونسل کا رکن بنا دیا گیا۔

لیکن انھوں نے اپنی کتاب کا آغاز اعظم گڑھ کے الیکشن سے کیا ہے۔ وہ بھی ایک غیر متوقع واقعہ تھا۔ 1977 کے پارلیمانی انتخابات میں اندرا گاندھی اور ان کی کانگریس پارٹی کو شرمناک شکست کا سامنا ہوا تھا۔ یوپی میں کانگریس کا ایک بھی امیدوار کامیاب نہیں ہوا تھا۔ اپوزیشن جماعتوں کے اشتراک سے قائم ہونے والی جنتا پارٹی کامیاب ہوئی تھی اور مرارجی دیسائی وزیر اعظم تھے۔ اس موقع پر اندرا گاندھی نے ان کو اعظم گڑھ سے الیکشن لڑنے کو کہا اور وہ بھی اس حال میں کہ ان کے مدمقابل انتہائی تجربہ کار سیاست داں چندرجیت یادو تھے۔ لیکن قسمت محسنہ قدوائی پر مہربان تھی اور انھیں زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔


محسنہ قدوائی نے ساٹھ کی دہائی میں جو سیاسی سفر شروع کیا وہ چھ دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے اور اب بھی جاری ہے۔ انھوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اترپردیش کانگریس کی صدر رہیں۔ مرکزی حکومت میں وزیر رہیں۔ کئی ریاستوں کی انچارج رہیں۔ مرکزی حج کمیٹی کی سربراہ رہیں۔ لیکن انھوں نے کبھی اپنے فرائض سے روگردانی نہیں کی۔ انھوں نے اندرا گاندھی کے ساتھ اپنے متعدد اسفار کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس دوران پیش آنے والے واقعات کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد ہونے والے انتخابات میں شکست کا اثر اندرا گاندھی کے ذہن و دماغ پر رہا لیکن زیادہ دنوں تک نہیں۔ انھوں نے خود کو جلد ہی اس اثر سے آزاد کرا لیا اور چکمگلور سے الیکشن لڑ کر اور کامیاب ہو کر دکھا دیا کہ وہ اگر شمال میں غروب ہو سکتی ہیں تو جنوب سے طلوع بھی ہو سکتی ہیں۔ اس وقت بہت سے اخباروں نے یہ سرخی لگائی تھی کہ اندرا گاندھی کا سورج جنوب سے طلوع ہو گیا۔

محسنہ قدوائی نے ایسے واقعات بھی بیان کیے ہیں کہ ناراض عوام کے پتھراؤ سے وہ زخمی ہو گئیں۔ لیکن ایسے بھی واقعات ہیں کہ اس ناراضی کے دور میں بھی عوام کا ایک بڑا طبقہ ان کی واپسی کا شدید خواہشمند تھا۔ یہاں تک کہ ایک مقام پر ایک سکھ خاتون نے اپنی کرپان سے اپنی کلائی کاٹی اور اپنے خون سے اندرا جی کو تلک لگایا اور ان کی واپسی کی تمنا کی۔


ایمرجنسی کے نفاذ اور خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام پر جبریہ عمل درآمد کے دوران جو کہ نس بندی کے نام سے مشہور ہو گیا تھا، جب اندارا گاندھی نے انتخابات کا اعلان کیا تو بہت سے اخباروں نے لکھا تھا کہ خفیہ محکمہ نے ان کو عوامی مقبولیت کے حوالے سے گمراہ کیا ہے۔ محسنہ قدوائی کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے اندرا گاندھی سے کہا کہ وہ ابھی الیکشن نہ کرائیں تو انھوں نے جواب دیا کہ خفیہ رپورٹیں ان کے حق میں ہیں۔ اگر چہ ایمرجنسی میں عوام کو بہت سی سہولتیں تھیں۔ ہر کام وقت پر اور بغیر رشوت دیئے ہو جا رہا تھا۔ ٹرینیں وقت پر چل رہی تھیں۔ دفاتر میں بدعنوانیاں بند ہو گئی تھیں۔ لیکن ”ہم دو ہمارے دو“ والے نس بندی کے پروگرام نے عوام کو ان سے ناراض کر دیا اور اس ناراضی کو حزب اختلاف کی مہم نے خوب ہوا دی۔

عام طور پر کانگریس مخالف جماعتیں اور خاص طور پر بی جے پی ایمرجنسی کے نفاذ کے فیصلے کی بنیاد پر کانگریس کو گھیرتی رہتی ہیں اور اسے کانگریس کے دور حکومت کا سیاہ ترین باب ثابت کرنے میں لگی رہتی ہے۔ ایسے مواقع پر کانگریسی رہنما دفاعی پوزیشن میں آجاتے ہیں اور کوئی جواب نہیں دے پاتے۔ لیکن محسنہ قدوائی نے بڑی جرأتمندی کے ساتھ ایمرجنسی کے نفاذ کو درست قرار دیا ہے۔ البتہ ان کا کہنا ہے کہ اس دوران کچھ ایسی باتیں ہوئیں جن سے کانگریس کو نقصان پہنچا۔ وہ اندرا گاندھی کے خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کی ستائش کرتی ہیں اور اس کے اسباب بھی بتاتی ہیں۔


اس کتاب میں کانگریس کے اندر کی رسہ کشی اور اس کی تقسیم پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اورمتعدد کانگریسیوں کے رویوں پر اظہار رائے کیا گیا ہے۔ لیکن کچھ ایسی باتیں بھی سامنے آئی ہیں جن سے مختلف شخصیات کی زندگی کے نئے گوشے سامنے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر انھوں نے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے کہ ایک بار اندرا گاندھی ان کے بارہ بنکی والے گھر گئی تھیں۔ وہ فون پر کسی سے بات کر رہی تھیں کہ اسی دوران انھوں نے دیکھا کہ باتھ روم میں کوئی نہیں ہے مگر لائٹ جل رہی ہے تو انھوں نے ان کی بیٹی کو اسے بند کرنے کا اشارہ کیا۔

انھوں نے اندرا گاندھی کے آخری ایام اور ان کے بہیمانہ قتل کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان کے مطابق انھیں بلیٹ پروف جیکٹ پہننے اور اپنے سکھ سیکورٹی گارڈز کو ہٹانے کا مشورہ دیا گیا تھا لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ انھیں اپنے سیکورٹی گارڈز کے درمیان ”امتیازی سلوک“ کے خیال سے نفرت تھی۔ 31 اکتوبر 1984 کو انھوں نے اپنی مصروفیات کا آغاز ایک انٹرویو سے کیا۔ جب انھوں نے چلنا شروع کیا تو کیمرے ایساتدہ تھے۔ جب انھوں نے اپنی رہائش گاہ ایک صفدر جنگ روڈ اور ایک اکبر روڈ پر واقع کانگریس کے دفتر کے درمیان وکیٹ گیٹ کو پار کیا تو انھوں نے وہاں موجود ایک پگڑی والے سیکورٹی گارڈ کا سلام قبول کیا۔ جب انھوں نے سلام کا جواب دینے کے لیے اس کی طرف دیکھا تو انھوں نے دیکھا کہ اس نے اپنی بندوق کی نال ان کی طرف کر رکھی ہے۔ اس سے قبل کہ انڈوتبت بارڈر فورس کے دوسرے گارڈز موقع پر پہنچ پاتے، دونوں قاتلوں نے ان کے جسم میں 36 گولیاں داغ دیں۔


کچھ مزید دیگر جذباتی واقعات بھی ہیں۔ ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں کہ ایک بار وہ اندرا گاندھی کے ساتھ ایک پروگرام میں شرکت کرنے کے بعد واپس جانے کے لیے ہیلی کاپٹر کی طرف جا رہی تھیں کہ انھوں نے دیکھا ایک شخص ایک چھوٹی سی بچی کو لے کر ان کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ان کے بقول میرے دیور عمران قدوائی میری سب سے چھوٹی بیٹی ارم کو گود میں لے کر آرہے ہیں جو رو رہی تھی۔ ہم دونوں رک گئے۔ انھوں نے بتایا کہ ارم آپ کو الوداع کہنا اور جانے سے پہلے آپ سے ملنا چاہتی تھی۔ محسنہ قدوائی کا بیان ہے کہ اندرا جی نے ارم کے آنسوؤں سے بھیگے گال پر تھپکی دی جبکہ میں نے اسے سینے سے لگایا اور واپس ہیلی کاپٹر کی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔ ہم سفر کے زیادہ تر حصے میں خاموش رہے۔

وہ ایک دوسرا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ میں لکھنؤ میں اکثر اسکولوں اور کالجوں کی سالانہ تقریبات کی مہمان خصوصی ہوتی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ میری بیٹی سیما اپنے کالج کے سوشل سروس کلب کی سکریٹری تھی۔ یہ سکریٹری کا فرض تھا کہ وہ مہمان خصوصی کو تقریب میں لے جائے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ انتظامیہ کی طرف سے سیما کو بتایا گیا کہ وزیر محسنہ قدوائی تقریب میں آرہی ہیں۔ کیونکہ وہ لوگ نہیں جاتنے تھے کہ میں سیما کی ماں ہوں۔ (آج کل تومعمولی سیاست دانوں کی اولاد کو بھی لوگ جاتنے ہیں)۔


یوں تو یہ کتاب بہت ہی معلوماتی ہے اور اس کا ہر باب قابل مطالعہ ہے لیکن مجھے جو باب سب سے زیادہ پسند آیا وہ ”بیٹیاں اور دیگر یادیں“ ہیں۔ یاد رہے کہ ان کے کوئی بیٹا نہیں ہے۔ تین بیٹیاں ہیں۔ لیکن ان کو جہاں ایک طرف اپنی بیٹیوں کی پرورش کا وہ موقع نہیں ملا جو ایک ماں کو ملنا چاہیے وہیں دوسری طرف انھوں نے جس طرح ان کی تربیت کی وہ قابل ستائش ہے۔ اگر میں یہ کہوں تو شاید غلط نہیں ہوگا کہ انھوں نے اس معاملے میں اسلامی اصولوں کو سامنے رکھا۔ ان پر کوئی بہت زیادہ پابندی تو نہیں لگائی لیکن ایسے حالات بھی پیدا نہیں ہونے دیئے کہ وہ بھٹک جائیں۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ سیاست داں اور اگر وہ وزیر ہو گئے ہیں تو اور بھی، اپنے منصب کا غلط اور ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنے خاندان کو بیجا سہولتیں فراہم کرکے ان کو عیش و عشرت کی زندگی جینے کے مواقع دیتے ہیں۔ لیکن یہ کتاب بتاتی ہے کہ محسنہ قدوائی نے اس روش کو پسند نہیں کیا اور ان کی بیٹیوں نے عام بیٹیوں کی طرح پرورش پائی۔ یہاں تک کہ ایسے بہت سے کام بھی جو ملازمین کیا کرتے ہیں وہ کرتی رہیں۔ خود انھوں نے کبھی بھی اپنے منصب کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی وجہ ان کا خاندانی بڑاپن ہونا ہے۔


انھوں نے جس محبت آمیز انداز میں بیٹیوں اور دامادوں کا تذکرہ کیا ہے وہ جذباتی تو ہے ہی اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک خاندانی روایات کی کتنی قدر ہے اور آج کے دور میں بھی جبکہ دیرینہ خاندانی روایتیں دنیا سے اٹھتی چلی جا رہی ہیں، انھوں نے ان راویتوں کو سینے سے لگا رکھا ہے۔ اس خاص بات کا بھی ذکر کر دیا جانا چاہیے کہ محسنہ قدوائی نے کتاب میں کہیں بھی خود ستائی سے کام نہیں لیا ہے۔ انکساری و خاکساری ان کے طرز تحریر میں رچی بسی ہے۔ میں اس خوبصورت کتاب کے لیے ان کو، رشید قدوائی کو، شافع قدوائی کو، مترجم محمد شمیم الزماں اور اسے شائع کرنے والے براؤن بک پبلی کیشنز، علی گڑھ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔