نفرت کے بازار میں محبت کی دکان...سہیل انجم

راہل گاندھی نے دن میں بریک کے دوران آشرم چوک پر یاتریوں سے خطاب کیا اور بی جے پی اور حکومت کو للکارتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ ملک میں خوف کی سیاست کر رہے ہیں لیکن کانگریس ان کی سیاست کامیاب نہیں ہونے دے گی

بھارت جوڑو یاترا کے دوران لال قلعہ سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی / ٹوئٹر / اے آئی سی سی شعبہ اطلاعات
بھارت جوڑو یاترا کے دوران لال قلعہ سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی / ٹوئٹر / اے آئی سی سی شعبہ اطلاعات
user

سہیل انجم

جب کانگریس کے سابق صدر، سینئر رہنما اور رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے ہریانہ سے آتے ہوئے دہلی کے دروازے پر دستک دی تو ایک زور کا دھماکہ ہوا اور نہ صرف پورے دہلی کو بلکہ پورے ملک کو یہ معلوم ہو گیا کہ راہل نے ہندوستان کو بدلنے کے تاریخی واقعہ کی بنیاد رکھ دی ہے۔ کانگریس لیڈروں اور کارکنوں کے علاوہ دہلی کے عوام نے جس طرح ان کا پرجوش استقبال کیا ویسا استقبال اس سے قبل کسی بھی سیاسی رہنما کا نہیں ہوا تھا۔ بدرپور بارڈر سے لے کر لال قلعے تک کے اٹھارہ کلومیٹر کے راستے پر عوام کا اژدہام دیکھنے لائق تھا۔ پورے روٹ پر کہیں بھی تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ پورے راستے کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ اسے صرف یاترا کے لیے کھولا گیا تھا۔

یہ یاترا صبح ساڑھے چھ بجے بدرپور بارڈر سے شروع ہوئی اور شام کے وقت لال قلعے کے تاریخی میدان میں جا کر ختم ہوئی۔ کانگریس نے اس کے لیے زبردست انتظامات کیے تھے۔ یہ بتاتے چلیں کہ جہاں جہاں سے یاترا گزر رہی ہے لوگ جوق درجوق اس میں شامل ہونے کے لیے بیتاب رہتے ہیں۔ اگر سب کو اس میں شمولیت کی اجازت دے دی جائے تو جانے کیا حال ہو۔ اس لیے پارٹی نے ایک نظم بنایا ہے اور وہ نظم یہ ہے کہ یاترا میں شریک ہونے کے ہواہش مند افراد سے آن لائن درخواست منگائی جاتی ہے اور پھر ان کو آن لائن پاس جاری کیا جاتا ہے۔ صرف پاس ہولڈرس ہی کو سڑک کے درمیان چلنے کی اجازت ہوتی ہے۔ سڑک کے دونوں طرف رسی باندھ کر بھیڑ کو سڑک پر آنے سے روکا جاتا ہے۔ البتہ جن کے لیے پاس جاری نہیں ہوا ہے وہ رسی کے باہر ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔

یاترا کے دوران یہ قافلہ ایک کلومیٹر سے بھی لمبا ہوتا ہے۔ راہل کے آگے آگے پرچم بردار چلتے ہیں۔ بینڈ والے چلتے ہیں۔ سیکورٹی کی گاڑیاں چلتی ہیں اور ان کے دوش بدوش سینئر رہنما اور جس علاقے سے یاترا گزرتی ہے وہاں کے اہم اور سرکردہ لوگ چلتے ہیں۔ ان میں بچے بھی ہوتے ہیں۔ خواتین بھی ہوتی ہیں۔ بزرگ بھی ہوتے ہیں۔ سیاست داں بھی ہوتے ہیں۔ غیر سیاسی شخصیات بھی ہوتی ہیں۔ فنکار بھی ہوتے ہیں۔ سلیبریٹیز بھی ہوتے ہیں۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ بھی ہوتے ہیں۔ غرضیکہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہوتا جس سے وابستہ لوگ یاترا میں شریک نہ ہوتے ہوں۔

راہل گاندھی نے تقریباً تین ہزار کلومیٹر کا راستہ پیدل طے کر لیا ہے۔ اب 570 کلومیٹر کا راستہ اور طے کرنا ہے۔ پروگرام کے مطابق یہ یاترا اگلے سال فروری کے اوائل میں سری نگر جا کر ختم ہوگی جہاں لال چوک پر راہل گاندھی ترنگا پرچم لہرائیں گے۔ نئے سال پر یاترا دہلی میں نو دنوں کے لیے رکی رہے گی۔ تین جنوری سے دوبارہ شروع ہوگی۔ راہل گاندھی نے دن میں بریک کے دوران آشرم چوک پر یاتریوں سے خطاب کیا اور بی جے پی اور حکومت کو للکارتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ ملک میں خوف کی سیاست کر رہے ہیں لیکن کانگریس ان کی سیاست کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ وہ بی جے پی کے نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے آئے ہیں۔


جب یاترا لال قلعہ پہنچی تو وہاں راہل گاندھی نے زبردست تقریر کی اور بی جے پی حکومت پر یکے بعد دیگرے متعدد تیر چلائے۔ انھوں نے کہا کہ یہ مودی کی نہیں بلکہ امبانی اور اڈانی کی حکومت ہے۔ انھوں نے حکومت اور میڈیا کی جانب سے ہندو مسلم کرنے پر بھی سخت گرفت کی اور کہا کہ یہ لوگ ہندو مسلم اس لیے کرتے رہتے ہیں تاکہ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال سکیں۔ انھوں نے کہا سامنے دیکھیے وہاں مندر بھی ہے گرودوارہ بھی ہے اور مسجد بھی ہے۔ یہی ہندوستان ہے۔ خیال رہے کہ لال قلعہ کی جانب سے چاندنی چوک کے داخلی سڑک پر جین مندر ہے۔ چند قدم آگے بڑھیے تو گرودوارہ ہے اور وہیں اسی سے متصل مسجد بھی ہے۔ راہل کے مطابق یہی ہندوستان کی تصویر ہے یعنی یہی فرقہ وارانہ میل ملاپ اور پیار محبت ہی ہندوستان کی شکل و صورت ہے۔

راہل گاندھی کی اس بھارت جوڑو یاترا سے تین چار باتیں بہت واضح طور پر ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ یاترا سے راہل گاندھی کا سیاسی قد بہت بلند ہوا ہے۔ حکومت نے ان کی امیج خراب کرانے کے لیے کروڑوں روپے پھونکے تھے اور پوری مشینری لگا کر انھیں پپو کے طور پر پیش کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ غیر سنجیدہ اور پارٹ ٹائم سیاست داں ہیں۔ وہ صرف پکنک منانے کے لیے سیاست کے میدان میں آتے ہیں۔ لیکن اب ان کے بارے میں حکومت کی بنائی ہوئی یہ امیج بالکل ختم ہو گئی۔ اب انھیں ہندوستان کے عوام ایک سنجیدہ سیاست داں کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ بی جے پی کی نفرت کی سیاست کے جواب میں صرف راہل کی محبت کی سیاست ہی کامیاب ہو سکتی ہے۔

دوسری بات یہ ثابت ہوئی ہے کہ کانگریس ایک بار پھر اپنی ان سیاسی جڑوں کی طرف لوٹ رہی ہے جو اس کے خمیر اور ضمیر کا حصہ تھی۔ جو اس کی سیاست کا بنیادی عنصر تھا۔ یعنی سیکولرزم اور سوشلزم۔ بی جے پی اور پورے سنگھ پریوار نے اقتدار میں آتے ہی کانگریس کو ایک ایسے جال میں الجھا دیا تھا جس میں اس کی سیاست کی بنیاد گم ہو کر رہ گئی تھی۔ لیکن راہل نے اس جال کو توڑ دیا اور دنیا کو یہ دکھا دیا کہ دراصل کانگریس کی طاقت اس کے سیکولر نظریے میں پنہاں ہے۔ راہل گاندھی سمجھتے ہیں کہ ابھی سیکولرزم کے نام پر کامیابی حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ کیونکہ بی جے پی نے جو ماحول بنا دیا ہے اس میں سچی بات سننے والے گم ہو گئے ہیں۔ لیکن وہ جانتے ہیں کہ اگر کانگریس کو اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ واپس پانی ہے توسیکورلزم ہی واحد راستہ ہے۔

تیسری بات یہ ثابت ہوئی ہے کہ اس ملک میں ایسے لوگوں کا ایک بہت بڑا طبقہ ہے جو نفرت اور تقسیم کرنے کی سیاست کو ناپسند کرتا ہے۔ جو یہ سمجھتا ہے کہ اس سیاست نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے بہت سے لوگ بھی یاترا میں شامل ہو رہے ہیں۔ وہ غیر سیاسی لوگ بھی اس میں آرہے ہیں جو اب تک ایسے پروگراموں سے دور رہا کرتے تھے۔ وہ لوگ بھی آرہے ہیں جو اس سے قبل کانگریس پر تنقید کیا کرتے تھے۔ اب وہ بھی یہ بات سمجھنے لگے ہیں کہ آر ایس ایس کی سیاست کا مقابلہ صرف کانگریس ہی کر سکتی ہے۔


چوتھی بات یہ ثابت ہوئی ہے کہ اس یاترا نے حکومت کو خوف زدہ کر دیا ہے۔ اگر وہ خوف زدہ نہیں ہے تو کم از کم تشویش میں ضرور مبتلا ہو گئی ہے۔ راہل گاندھی کو جو عوامی مقبولیت مل رہی ہے اس نے حکومت کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کر دیا ہے۔ اسی لیے وہ کوئی ایسا حربہ ڈھونڈ رہی ہے جس سے یاترا کو روکا جا سکے۔ اسے کرونا کے نام پر وہ حربہ مل گیا ہے اور وہ راہل گاندھی سے کہہ رہی ہے کہ یا تو یاترا کے دوران کرونا پروٹوکول کی پابندی کی جائے یا پھر اسے ملتوی کر دیا جائے۔ کیونکہ اس کو اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ یاترا کے سری نگر تک جاتے جاتے کہیں ایسا نہ ہو کہ ملک کی سیاست دوسری کروٹ لے لے۔

وزیر صحت نے راہل گاندھی کے نام خط لکھ کر یاترا ملتوی کرنے کی بات کہی ہے۔ لیکن اس معاملے میں حکومت کی دوہری سیاست بے نقاب ہو گئی۔ معلوم ہونا چاہیے کہ راجستھان سمیت کئی ریاستوں میں بی جے پی لیڈروں کی جانب سے جن آکروش یاترا نکالی جا رہی ہے۔ لیکن وزیر صحت نے ان لوگوں کے نام کوئی خط نہیں لکھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ حکومت نے ابھی تک کرونا گائڈ لائن بھی جاری نہیں کی ہے۔ نہ تو عوامی نقل و حمل کے سلسلے میں کسی پابندی کا اعلان کیا گیا ہے۔ نہ تو بسوں کے لیے اور نہ ہی ٹرینوں کے لیے۔ یہاں تک کہ جہازوں میں بھی ماسک کو ضروری قرار نہیں دیا گیا ہے۔ لیکن وزیر اعظم مودی اور ان کے وزرا نے پارلیمنٹ میں ماسک لگا کر یہ بتانا چاہا کہ کرونا کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ لیکن طرفہ تماشہ یہ ہے کہ دوسرے پروگراموں میں وہ لوگ ماسک کی پابندی نہیں کرتے۔

یاترا سے حکومت کی گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کا اندازہ اس سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ راہل کے بیانات کا جواب دینے کے لیے موجودہ اور سابق وزرا کو میدان میں اتار دیا گیا ہے۔ وہ لوگ راہل کے سوالوں کے جواب دینے کے بجائے ان سے خود سوال کرنے لگے ہیں۔ مجموعی طور پر بھارت جوڑو یاترا ہندوستان کی تاریخ کا ایک نادر الوجود واقعہ ہے اور ہر سیاسی مبصر اور تجزیہ کار یہ کہتا ہوانظر آرہا ہے کہ راہل نے ہندوستانی سیاست کے سمندر میں جو پتھر اچھالا ہے اس سے زبردست موجیں اٹھ رہی ہیں۔ یہ وہ موجیں ہیں جو حکومت کے روکے نہیں رک رہیں۔ وہ ان کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کر رہی ہے مگر ناکام ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ موجیں ایسی طغیانی کی شکل اختیار کریں گی جو آنے والے دنوں میں ہندوستانی سیاست میں اتھل پتھل مچا دیں گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔