ظہران ممدانی کا طلوع مودی مخالفت کو نئی توانائی عطا کرے گا!... اشوک سوین
ظہران کی دنیا بھر میں الگ شناخت ہے۔ ان کی شبیہ ایک ترقی یافتہ شخص کی ہے۔ امریکہ کے اعلیٰ سیاسی ڈھانچہ میں ان کی رسائی ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ظہران ممدانی کا نیویارک کا میئر منتخب ہونا ایک تاریخی واقعہ ہے۔ ان کا طلوع شناخت کی سیاست، تارکین وطن کی تنظیم سازی اور ترقی پسند عالمی رشتوں میں بڑے تغیرات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ان کی کامیابی کے دور رس اثرات مرتب ہونے والے ہیں۔ ہندوستانی لوگ ممدانی کے نقطۂ نظر سے متفق ہوں یا نہیں، لیکن اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ نریندر مودی حکومت کے لیے ممدانی کا طلوع یقیناً ایک دردِ سر ہے۔
ہندوستانی نژاد ممدانی ایک عالمی رسائی رکھنے والے امریکی لیڈر ہیں۔ وہ کھلے طور پر مودی کی تنقید کرتے ہیں، ہندوستان کے کثرت پسند ماضی کی بات کرتے ہیں اور اسے شہریت کے ہمہ گیر نقطۂ نظر سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ’ہندوتوا پروجیکٹ‘ کا سامنا ایک نئی قسم کے مخالف سے ہو رہا ہے، جس کی ناراضگی کی آوازیں نہ صرف نیویارک میں، بلکہ تارکین وطن کی برادریوں، عالمی ترقی پسند نیٹورکس اور ہندوستان کی خارجہ پالیسی کے مباحث میں بھی گونجیں گی۔
ممدانی کے پلیٹ فارم پر سوشلسٹ معاشی اصول (کرایہ کو مستحکم کرنا، عوامی رہائش میں توسیع اور سب کی رسائی کو مدنظر رکھنے کے جارحانہ ایجنڈے) کو ان کی ہندوستانی وراثت کے ساتھ فخریہ طور پر جوڑا گیا ہے۔ جیت کے بعد اپنے خطاب میں ممدانی نے جواہر لعل نہرو کے ہمہ گیر ہندوستان کے ویژن کی بات کی اور بالی ووڈ نغمہ ’دھوم مچا لے‘ کے ساتھ اس کا اختتام کیا۔ انہوں نے علامتی طور پر اپنے سیاسی نظریاتی جوش کو ثقافتی فخر کے ساتھ پیش کیا۔
اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران ممدانی نے بار بار اپنی ہندوستانی جڑوں کا ذکر کیا۔ جس کثرت پسند ہندوستان کے بارے میں سن کر وہ بڑے ہوئے، اس کے بالکل برعکس نریندر مودی کی بی جے پی قیادت والے اخراجی ہندوستان کی بات کی۔ ممدانی نے بڑی بے باکی سے مودی کے ہندوستان کو ایسا ہندوستان بتایا جس میں کچھ خاص طرح کے ہندوستانیوں کے لیے ہی جگہ ہے۔ انہوں نے 2002 کے گجرات فسادات کے لیے مودی کو اعلانیہ ’جنگی مجرم‘ کہا اور ان فسادات کو فرقہ وارانہ تقسیم کے ذریعے سیاسی تنظیم سازی کا ایک نمونہ قرار دیا۔
ہندوتوا خیمہ کے نقطۂ نظر سے یہ 3 سطحوں پر معنی رکھتا ہے۔ پہلی بات یہ کہ ہندوستان میں جارحانہ طریقے سے مودی کی شبیہ دنیا بھر میں ایک باوقار ’مضبوط‘ لیڈر کے طور پر بنائی جاتی ہے جس کی تارکین وطن میں زبردست مقبولیت ہے۔ ممدانی اس کے بالکل برعکس تصویر پیش کرتے ہیں۔ برسوں سے بی جے پی حکومت نے مودی کی قیادت میں ہندوستان کو عالمی سطح پر اُبھرنے والی قوم، ایک پُراعتماد ہندوستان کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ وہ بیانیہ ہے جسے بیرون ملک رہنے والے ہندوستانی نژاد لیڈر اپنا سکتے ہیں۔ لیکن ممدانی اس اسکرپٹ کو چیلنج کرتے ہیں۔ ممدانی جس وضاحت کے ساتھ مودی کی تخریبی سیاست کو مسترد کرتے ہیں، وہ بیرون ملک رہنے والے ہندوستانی نژاد لیڈروں کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے اور آنے والے دنوں میں ہندوستانی سفارت کاروں کو اس سے نمٹنا پڑ سکتا ہے۔
دوسری بات، ممدانی کی طرز سیاست اس تصور کو تقویت دیتی ہے کہ ہندوتوا کی رسائی ہندوستان کی سرحدوں تک محدود نہیں۔ ہندو قوم پرست منصوبہ سیاسی پارٹیوں، تارکینِ وطن کی برادریوں، بین الاقوامی اداروں اور عالمی میڈیا کے نیٹورکس میں تیزی سے جگہ بنا رہا ہے۔ ممدانی کا انتخاب اس کے بالکل برعکس نقشہ پیش کرتا ہے۔ ہندوستانی نژاد ایک مغربی رہنما جو باہر سے ہندوتوا کے بیانیے کو چیلنج کرتا ہے اور جس سے گھریلو سطح پر مخالفت کو تقویت ملتی ہے۔
بی جے پی یا اس سے وابستہ گروہوں کے لیے یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ جیسے جیسے تارکین وطن کی برادری زیادہ آواز بلند کرے گی، ہندوتوا کے خلاف بیرونی دباؤ اور عالمی کارکنوں کے جڑنے کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔ چونکہ ممدانی کی دنیا بھر میں اپنی ایک الگ شناخت ہے، ان کی شبیہ ایک ترقی پسند شخص کی ہے اور امریکی سیاسی ڈھانچے میں ان کی رسائی ہے، اس لیے وہ ہندوستان کے اندر ہندوتوا کی مخالفت کرنے والوں کے لیے عالمی حمایت کی علامت بن جاتے ہیں۔ اس لیے ان کا یہ طلوع صرف علامتی نہیں، یہ تارکین وطن کی ناراضگی کو ایک قابلِ اعتبار بین الاقوامی آواز دیتا ہے۔
تیسری بات، ہندوستان-امریکہ تعلقات اور 2 طرفہ سفارت کاری کے لیے اس کے پیغام اور عملی مضمرات اہم ہیں۔ مودی حکومت نے اسٹریٹیجک مساوات، معاشی شراکت داری اور پل کی طرح کام کرنے والے تارکین وطن پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے طویل عرصے سے خود کو امریکہ کے قابلِ اعتماد شراکت دار کے طور پر پیش کیا ہے جو ہندوستان کے عالمی اسٹیک ہولڈر کی حیثیت کو مضبوط کرتا ہے۔ اس دوران امریکہ نے اسٹریٹجک مقاصد کے پیش نظر ہندوستان کی داخلی سیاست کی سخت عوامی تنقید سے گریز کیا ہے۔ لیکن ممدانی جیسی شخصیت اس توازن کو پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ ان کے طلوع کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان یہ فرض کر کے نہیں چل سکتا کہ ہندوستانی-امریکی ایک آواز ہو کر اس کی پالیسیوں کی حمایت کریں گے، یا یہ کہ تارکین وطن کی برادری فطری طور پر نئی دہلی کے بیانیے کے حق میں جھک جائے گی۔
دوسرے الفاظ میں، مودی حکومت کی تارکین وطن سے متعلق حکمت عملی اب ایک مخالف دھارے کا سامنا کر رہی ہے، جس میں امریکہ میں ایک ہندوستانی نژاد لیڈر نہ صرف اسٹریٹجک سہولت یا معاشی شراکت داری کے حوالے سے، بلکہ کثرت پسند اقدار اور انسانی حقوق پر ہندوستان کے نقطۂ نظر کے حوالے سے بھی ہندوستانیوں سے گفتگو کر سکتا ہے۔ اس لیے ممدانی کے طلوع کو ایک الگ تھلگ واقعہ سمجھنا غلط ہوگا۔ ان کی کامیابی مودی مخالف تارکین وطن کو مضبوط کرے گی، انہیں ایک اعلیٰ عہدے پر موجود حمایتی مہیا کرے گی اور اس احساس کو تقویت دے گی کہ ہندوستان کی تنقید کرنا غداری نہیں۔ یہ مغربی اشرافیہ اور میڈیا کو بھی یہ اشارہ دے گا کہ ہندوستانی حکومت کے بیانیے کو اب اس کے عالمی تارکین وطن کی برادری سے بھی چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ممدانی کے طلوع کے نتائج کا جائزہ لے رہے ہندوتوا گروپوں کے سامنے اب ایک مشکل انتخاب ہے... یا تو اس کا جواب دیں، یا اسے نظر انداز کر دیں۔ غالب امکان ہے کہ وہ ممدانی کو نظر انداز کرنے کی کوشش کریں، لیکن ممدانی جتنا زیادہ اپنے پلیٹ فارم کا استعمال ہندوستان کے بارے میں بولنے کے لیے کریں گے، تارکین وطن کی برادری کے مباحث میں ہندوستانی سیاست اتنی ہی زیادہ شدت سے شامل ہوتی جائے گی۔ ہندوتوا گروپ اگر ممدانی پر حملہ کرنے کا انتخاب کرتے ہیں تو سخت رد عمل کا ’خطرہ‘ ہے، جس سے مودی بچنا چاہیں گے۔ اگر انہوں نے بات چیت یا مصالحت کا راستہ اختیار کیا، تو حکومت کو اندرون ملک اور بیرون ملک تنقید اور مخالفت کے لیے جگہ بنانی پڑے گی۔
ان سب کا مطلب یہ نہیں کہ ممدانی ہندوتوا پروجیکٹ کے زوال کا سبب بننے والے ہیں یا ان کا نیا قد و قامت ہندوستانی سیاست میں فوراً کوئی بڑا بدلاؤ لے آئے گا۔ لیکن ممدانی کا طلوع یقینی طور پر میدانِ عمل کو بدل دے گا۔ ہندوستان کی سیاسی سمت اب عالمی تارکین وطن کی گفتگو، مغرب کے ایوانوں اور ترقی پسند نیٹورکس میں اور بھی نمایاں طور پر دکھائی دے گی۔
ممدانی کا طلوع مودی اور ہندوتوا طاقتوں کے لیے بُری خبر ہے، کیونکہ اس سے مغرب میں ہندوستانی نژاد لوگوں کی کامیابی کے بیانیے پر اجارہ داری قائم کرنے کی ان کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ یہ اس تصور کو بھی کمزور کرتا ہے کہ تارکین وطن کے لیڈر ان کے ہندوتوا پروجیکٹ سے خود کو جوڑیں گے، اور یہ ایسا نیا پہلو پیدا کرتا ہے جو ہندوستان میں حزبِ اختلاف کو بیرونِ ملک دباؤ اور حمایت سے جوڑ سکتا ہے۔
(اشوک سوین سویڈن واقع اُپسلا یونیورسٹی میں امن و جدوجہد ریسرچ کے پروفیسر ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔