وزیر اعظم کے پارلیمانی حلقہ کی بے چینی: بنتا یا بگڑتا بنارس؟

نریندر مودی 2014 میں بنارس سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے اور پھر وزیر اعظم بننے کے بعد یہ تصور کیا جا رہا تھا کہ بنارس ترقی کی نئی راہ پر گامزن ہوگا، لیکن فی الحال ایسا کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔

تصویر اسد کمال لاری
تصویر اسد کمال لاری
user

اسد کمال لاری

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے گزشتہ دنوں فضائی آلودگی پر ایک رپورٹ جاری کی۔ اس بین الاقوامی رپورٹ میں دنیا کے جن 15 آلودہ ترین شہروں کو شامل کیا گیا ہے ان میں 14 ہندوستان کے شہر ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ ان آلودہ ترین شہروں میں وزیر اعظم کا پارلیمانی حلقہ انتخاب بھی شامل ہے جسے ان دنوں ملک کا سب سے تیز رفتار سے ترقی کرنے والا شہر تصور کیا جا رہا ہے۔ بنارس آلودگی کے معاملہ میں تیسرے مقام پر ہے، کانپور پہلے اور فرید آباد دوسرے مقام پر ہے۔ یہ حال تب ہے جب صوبے سے لے کر مرکز تک کی خصوصی توجہ اس شہر پر ہے۔ جاپان، فرانس اور جرمنی سمیت متعدد ممالک کے رہنما یہاں آ چکے ہیں۔ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ کیا آلودگی اور اس کے سبب تل تل کر ملنے والی موت ترقی کے لئے ضروری ہے؟

بات محض فضائی آلودگی کی نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں گنگا میں آکسیجن کی کمی سے مچھلیوں کے مرنے کا واقعہ سامنے آیا۔ ہم سب کو یاد ہوگا کہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں نریندر مودی نے کہا تھا کہ ’مجھے تو ماں گنگا نے بلایا ہے‘۔ اب یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ ماں گنگا نے کس لئے بلایا تھا؟۔

مارچ مہینے سے ہی گنگا میں پانی اتنا کم ہونے لگا ہے کہ ریت کے ٹیلے ابھر آئے ہیں۔ کہیں کہیں تو حالات اتنے خراب ہیں کہ جس گنگا میں سرکار جہاز چلانے کی بات کہہ رہی ہے وہاں عام کشتی بھی چلنی مشکل ہو گئی ہے۔ گنگا کی صفائی کے لئے کام کرنے والے سنکٹ موچن فاؤنڈیشن کے سربراہ اور آئی آئی ٹی، بی ایچ یو کے پروفیسر بشومبرناتھ مشر کہتے ہیں کہ گنگا کی صفائی کے لئے حکومت کی کاوشیں ناکافی ہیں۔ برسات کے دنوں میں بھاری بارش کے بعد ٹہری ڈیم سے پانی چھوڑ کر یا ضرورت پڑنے پر کمبھ وغیرہ کے مواقع پر بھی پانی چھوڑ کر گنگا میں مطلوبہ پانی تو لایا جا سکتا ہے لیکن گنگا کے پانی کی صفائی کیسے ہوگی!۔

فرانس کے صدر امینول میکراں کے بنارس دورے کے وقت گنگا میں گرنے والے نالوں کے سامنے مودی اور میکراں کے ہورڈنگ لگا کر ڈھکے جانے کی تصویر سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوئی تھی۔ گنگا کے ریتیلے ٹیلوں کے ابھار کی خبریں شائع ہونے کے بعد فعال ہوئی انتظامیہ لگاتار گنگا میں پانی چھوڑنے کی مانگ کر رہی ہے، لیکن لکھنؤ، دہرادون اور دہلی میں بی جے پی کی حکومت ہونے کے باوجود پانی کی کمی کے سبب گنگا کی آبی مخلوق ہی نہیں خود گنگا موت کے منہ میں جا پہنچی ہے۔

نریندر مودی 2014 میں بنارس سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے اور پھر وزیر اعظم بننے کے بعد یہ تصور کیا جا رہا تھا کہ بنارس ترقی کی نئی راہ پر گامزن ہوگا۔ شروعاتی دنوں میں کم و بیش ایسا نظر بھی آیا۔ دہلی کے بعد ملک میں سب سے زیادہ تیزی سے صفائی مہم شروع کی گئی۔ اب یہ بات دیگر ہے کہ فی الحال صفائی مہم دم توڑتی نظر آ رہی ہے اور آلودگی شہر کو نگل رہی ہے۔

وزیر اعظم نے ایک نئی اسکیم ’سانسد گرام یوجنا‘ شروع کی۔ پہلے خود اپنے پارلیمانی حلقہ کے ایک گاؤں جیاپور کو ایک سال کے لئے گود لیا۔ پھر ناگےپور، کرہیا اور ڈومری کی باری تھی۔ وزیر اعظم نے تمام ارکان پارلیمنٹ سے اسی طرح گاؤں گود لینے کی اپیل کی۔ ان کی اپیل کو ارکان پارلیمنٹ نے قبول کی اور یہ اسکیم کتنی کارگر ثابت ہوئی یہ ایک تحقیق کا موضوع ہے لیکن حقیقت جو نظر آرہی ہے، وہ تو یہی کہہ رہی ہے کہ یہ اسکیم دم توڑ چکی ہے۔ جیا پور میں جب اسکیم چلی تو لگا جیسے کایا پلٹ ہو جائے گی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ سب کچھ سرکاری ڈھرے پر چلنے لگا۔ جیاپور میں ترقیاتی کاموں کی جانچ کی جائے تو پول کھلتے دیر نہیں لگے گی۔

تقریباً 15 سال پہلے وارانسی کے نزدیک موہن سرائے میں ٹرانسپورٹ نگر آباد کرنے کے لئے ایک منصوبہ لایا گیا تھا۔ سال 2003 میں وارانسی کی راجا تالاب تحصیل کے گاؤں بیروَن، سرائے موہن کنڈاڑی اور ملکی چک کے 1194 کسانوں کی 214 ایکڑ زمین بغیر ان کی اجازت اور معاوضہ دیئے سرکاری کھاتے میں درج کر لی گئی۔ حکومت کی یکطرفہ کارروائی کے خلاف کسان لگاتار جدو جہد کر رہے ہیں۔ گزشتہ 5 مئی کو کانگریس صدر راہل گاندھی کی ہدایت پر کانگریس کے رہنما اور سابق مرکزی وزیر جیتن پرساد نے احتجاجی کسانوں سے ملاقات کر کے مدے کو گرما دیا۔ در اصل، لمبے وقت سے کسانوں کی قیادت کر رہے کسان رہنما ونے شنکر رائے اور صوبائی کانگریس کے سکریٹری شویتا رائے کی قیادت میں کسانوں نے دہلی میں 30 مئی کو راہل گاندھی سے مل کر اپنا درد بیان کیا۔ موہن سرائے میں کسانوں سے بات چیت کرتے جیتن پرساد نے واضح کر دیا کہ کسانوں کی یہ لڑائی اب کانگریس کی لڑائی ہے۔ لینڈ ایکویزیشن قانون 2013 کے مطابق 5 سال کے اندر اگر کوئی منصوبہ بندی شروع نہیں ہوتی تو زمینیں واپس کر دی جائیں گی۔ کسانوں کی قیادت کر رہے ونے شنکر رائے منّا کا کہنا ہے کہ وہ عدالت میں بھی لڑائی لڑ رہے ہیں اور کسی بھی قیمت پر کسانوں کو زمین واپس دلاکر ہی دم لیں گے۔

بنارس میں چل رہے ترقیاتی منصوبوں پر وزیر اعظم کی مہر ثبت ہونے سے اس کے جواز، معیار اور موزونیت پر اپوزیشن کوئی سوال نہیں اٹھا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وشوناتھ کاریڈور یا گنگا پاتھ-وے جیسی اسکیم میں قدیمی مندروں کو منہدم کئے جانے کے باوجود سیاسی جماعتیں خاموش ہیں۔ 2014 میں مرکز میں بی جے پی کی حکومت سازی کے ساتھ ہی بنارس میں ترقی کی ہر اسکیم پر جیسے وزیر اعظم کی مہر لگ گئی ہے، چاہے وہ اسکیم صوبائی حکومت کی ہو یا پھر مرکزی حکومت کی۔ مثلاً اتر پردیش میں مایاوتی کے دور اقتدار میں جے این این یو آر ایم کے تحت شہر کے سیویج سسٹم کو درست کرنے کے لئے ایک ایس ٹی پی بنانے کا کام شروع ہوا۔ جس مقام پر ایس ٹی پی نصب کیا جانا تھا، وہاں سماجوادی پارٹی کے اس وقت کے رکن پارلیمنٹ نے اس کی مخالفت شروع کر دی۔ لہذا ایس ٹی پی کا کام رک گیا۔ 2012 میں سماجوادی پارٹی کی حکومت بننے کے بعد اس مقام کا نام تبدیل کیا گیا اور کاشی جیو دیا وستارنی گوشالا کی 52 بیگھہ زمین پر ایس ٹی پی بنائے جانے کا فیصلہ لیا گیا۔ گائے اور گنگا جیسے مذہبی مدے بی جے پی کو کافی پسند آتے ہیں اس لئے بی جے پی ہی نہیں پورا سنگھ پریوار گوشالا کی زمین پر ایس ٹی پی بنائے جانے کے خلاف کھڑا ہو گیا۔ منصوبہ ایک بار پھر ٹھنڈے بستے میں چلا گیا۔ لیکن 2014 میں جب مرکز میں بی جے پی کی حکومت بنی اور وزیر اعظم نے زور شور سے صفائی مہم شروع کی تو ایک بار پھر ایس ٹی پی کا معاملہ اٹھا۔ اب مایاوتی کے وقت میں شروع ہوئی اسکیم مودی کی اسکیم بن چکی تھی اور گوشالا کی زمین پر ایس ٹی پی بنانے کی تیاری شروع ہو گئی۔ سنگھ اور بی جے پی سے ہی جڑے کچھ لوگوں نے ایک کمیٹی بناکر بی جے پی کے سابق رہنما گوونداچاریہ کی قیادت میں جب مخالفت شروع کی تو ان لوگوں کو ترقی اور مودی مخالف کہہ کر خارج کر دیا گیا اور کام شروع ہو گیا۔ تحریک چلا رہے ایک بی جے پی رہنما روپیش پانڈے کہتے ہیں کہ ’’ہم آج تک نہیں سمجھ پائے کہ 2013 میں جس منصوبہ کو پورے سنگھ پریوار نے مخالفت کی تھی وہ اسکیم 2014 میں وزیر اعظم کے نام پر کیسے صحیح اور ضروری ہو گئی۔

ٹھیک اسی طرح تقریباً 15 سال سے دھول پھانک رہی گنگا پاتھ-وے اسکیم کو ایک بار پھر مودی کے ترقیاتی ایجنڈے سے جوڑ کر لاگو کرنے کی کوشش جارہی ہے۔ مقامی شہری اور بنارس کے اثاثوں کی فکر کرنے والے اس کی مخالفت کر رہے ہیں جبکہ بی جے پی اور انتظامیہ انہیں ترقی مخالف قرار دے کر منصوبے کو لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ دھروہر بچاؤ سمیتی کے صدر و سینئر صحافی راج ناتھ تیواری پوچھتے ہیں کہ کیا ترقی کے لئے قدیمی مندروں کو توڑا جانا ضروری ہے! عام آدمی پارٹی کے پوروانچل کنوینر سنجیو سنگھ کہتے ہیں کہ بنارس اپنی جن گلیوں کے لئے مشہور ہے ان گلیوں اور اس میں موجود اثاثوں کو تباہ کر کے کون سی ترقی ہوگی۔ کمیٹی سے جڑے سنگھ کے پرانے سویم سیوک کرشن کمار شرما کہتے ہیں کہ ایک زمانے سے جن گھروں اور محلوں میں رہ کر انہوں نے سنگھ اور بی جے پی کا پرچم اٹھایا آج انہیں کو بی جے پی تباہ کردینے پر آمادہ ہے۔ شرما مزید کہتے ہیں کہ بی جے پی انہیں در بدر کر دیگی، یہ انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ مذہب اور ثقافت بچانے کی بات کرنے والی پارٹی کے ہاتھوں ہی قدیمی مندروں کو توڑا بھی جائے گا۔ حکومت کے ہاتھ میں ابھی تک اسکیم کا بلیو پرنٹ تک نہیں ہے یا پھر وہ عوام سے چھپا رہی ہے۔

دھروہر بچاؤ سمیتی کی اپیل پر اس تحریک میں شامل ہوئے شنکراچاریہ سوامی سوروپانند سرسوتی کے شاگرد سوامی اوی مکتیشورانند نے تحریک کی کمان سنبھالتے ہوئے مندر بچاؤ آندولن کا اعلان کر دیا ہے۔ سوامی اوی مکتیشور 16 سے 29 مئی تک ’دیوتا جگاؤ، کاشی بچاؤ‘ یاترا لے کر کاشی کی سڑکوں پر ننگے پاؤں گھوم کر دیوتاؤں کے دروازے جاکر کاشی کو بچانے کی گہار لگا رہے ہیں۔

مودی کے ترقیاتی رتھ کی رفتار فی الحال 18 افراد کو موت کی نیند سلاکر تھوڑی سست پڑ گئی ہے۔ گزشتہ 15 مئی کو بنارس کے کینٹ ریلوے اسٹیشن کے نزدیک زیر تعمیر فلائی اوور کا بیم گر جانے سے اس کے نیچے دب کر 18 لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔ یہ فلائی اوور شروع سے ہی تنازعات میں رہا ہے۔ پہلے اپنے ڈیزائن کو لے کر اور بعد میں بدعنوانی کو لے کر۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ اور ملازمین پر 2019 کے لوک سبھا الیکشن سے قبل کام پورا کرنے کا انتظامیہ کا دباؤ لوگوں کی موت کے روپ میں سامنے آیا ہے۔ سماجی کارکن ولبھ بھائی پانڈے کہتے ہیں کہ وزیر اعظم سیمت تمام رہنما جس طرح سے چناوی گھوڑے پر سوار ہیں، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ترقی کے رتھ کے نیچے کچھ لوگوں کا کچلا جانا ان کے لئے عام بات ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 29 May 2018, 9:53 AM